مغل بادشاہوں سے زیادہ ہندو بادشاہوں نے مندر گرائے ہیں

  • December 2, 2017 8:54 pm PST
taleemizavia single page

چنئی: مورخین، ماہرین قانون، دانشوروں اور ماہرین تعلیم نے آج یہاں ہندوستانی عوا م کو تاریخ کے سلسلے میں ’ذہنی غلامی‘ سے باہرنکلنے کا مشورہ دیتے ہوئے نئی نسل کو ملک کی حقیقی تاریخ سے روشناس کرانے کا مشورہ دیا۔

انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیواسٹڈیز ‘ نئی دہلی کے زیر اہتمام نیوکالج کے تعاون سے منعقد دو روزہ قومی سمینار بعنوان ’ہندوستان کے موجودہ سیاق میں مساوات‘ انصاف اور بھائی چارے کی جانب: ایک بہتر مستقبل کی تخلیق بذریعہ تاریخ‘ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا گوہم نوآبادیاتی اور استعماری طاقتو ں سے آزادی حاصل کرلینے کا دعوی کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب نے اب ہمیں اپنا ذہنی غلام بنا لیا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہے۔ نوآ بادیاتی طاقتوں نے ہم پر نفسیاتی غلبہ حاصل کرلیا ہے اور ہم ان کے جال میں پھنس کر اپنی تاریخی قدروں کو بھولتے جا رہے ہیں۔

سمینار کا کلیدی خطبہ دیتے ہوئے اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے سربراہ پروفیسر کپل کمارکا خیال تھا کہ اگر ہم ماضی کا جائزہ اور موجودہ حالات کا تجزیہ نہیں کریں گے تو مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ ان کا خیال تھا کہ مغرب سے آنے والی تیز روشنی نے ہماری آنکھوں کو اتناچکا چوندھ کردیا ہے کہ ہمیں اپنی ماضی کی روشن چیزیں بھی ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ستر برس گذر جانے کے باوجود آج بھی ہندوستان میں ایسے بہت سارے قوانین پر عمل درآمد ہورہا ہے جسے برطانوی حکومت نے اپنی حکمرانی کو مستحکم کرنے کے لئے بنائے تھے۔

پروفیسر کمار نے کہا کہ سیکولرز م ایسا لفظ ہے جس کا ہندوستان میں آج سب سے زیادہ غلط استعمال ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی زمانے میں لڑاو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل کیا جاتا تھا لیکن آج حکومت کو لڑانے (رول ٹو ڈیوائڈ) کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایسے میں نفرت کی ذہنیت کے خلاف جنگ کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے سچر کمیٹی کی رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو اپنے رہنماوں سے بھی یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ تعلیمی ‘ معاشی اور سماجی لحاظ سے ان کی حالت اتنی خستہ کیوں ہے؟

مدراس ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس جی ایم اکبر علی نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ ہمیں بالخصوص اپنے نوجوانوں کو اصل تاریخ سے آگاہ کرنا ہوگا۔ انہیں یہ بتانا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہمارے آبادو اجداد نے اس ملک کی تعمیر او رترقی میں کتنا شاندار رول ادا کیا ہے۔ انہوں نے سنگھ پریوار کی حالیہ سرگرمیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے چند برسوں کے دوران ملک کی جمہوریت کے لئے کافی خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔لیکن ملک کو تباہ کرنے کے لئے جو کوششیں ہورہی ہیں ہمیں ان پر کھل کر بات کرنی ہوگی اور ملک کو بچانے کے لئے سماج کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔

مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور کے وائس چانسلرپروفیسر اخترالواسع کا کہنا تھا کہ اگر ہندوستان کو آگے بڑھنا ہے تو اٹھارہ فیصد شہریوں کو پیچھے چھوڑ کر ایسا ممکن نہیں اور جب کوئی مسلمانوں کے فائدے کی بات کرتا ہے تو اس کا مطلب ہندوستان کو فائدہ دلانا ہوتا ہے۔ انہوں نے سنگھ پریوار کا نام لئے بغیر کہا کہ جو لوگ ہندوستان کو پاکستان بنانا چاہتے ہیں انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ تاریخ کے جبر کی سزا صدیوں تک ملتی ہے۔ انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج فرقہ واریت کا زہر نیچے تک سرایت کرتا جارہا ہے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور ہندوتو میں فرق کرنا ہوگا اور تحمل پسندی کے بجائے ایک دوسرے کو قبول اور احترام کرنا زیادہ ضروری ہے۔

آئی او ایس کے چیئرمین ڈاکٹر منظور عالم نے اپنے صدارتی خطاب میں فلم پدماوتی کے متعلق حالیہ تنازع اور آڈرے ٹرشکے کی اورنگ زیب عالمگیر پر تحریر کردہ حالیہ کتاب کے پس منظر میں کہا کہ اس طرح کی صورت حال میں سب سے اہم سوال یہ سامنے آتا ہے کہ اس کو کیا نام دیا جائے؟ یا یہ کہ تاریخ نویسی کے اصول کیا ہوں؟ انہوں نے کہا کہ سماجی اور سیاسی سورماوں نے 1947 میں ملک کو تقسیم کرایا تھا اور اب وہی طاقتیں 2002 کے گجرات اور 2013 کے مظفرنگرمسلم مخالف فسادات کو جنم دے رہی ہیں لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ حکومت کے تعاون سے ایک مرتبہ برپا کی گئی تباہی ‘ تعمیر کے دوسرے دور کو شروع کرنے میں بے شمار رکاوٹوں اور شور و ہنگامے کا باعث بنتی ہے۔

ڈاکٹر منظور عالم نے ماہرین تاریخ سے اپنی تمام کوششوں کو تاریخ کے تحفظ اور توجہ طلب امور کو اپنی تحقیقات کا موضوع بنانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ نویسی کی سیاست کی جا رہی ہے اور یہ کام وہ لوگ کررہے ہیں جو خود اپنی تاریخ لکھنے کے لائق نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حال میں پیش آنے والے دو تاریخی واقعات ہمارے ملک میں بہت نمایاں طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان دونوں واقعوں پر تاریخ نویسوں اور عام قارئین کے درمیان زبردست مباحثہ جاری ہے۔ ان میں سے ایک واقعہ تو مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے متعلق کے ذریعہ لکھی ہوئی کتاب کا ہے اور دوسرا دسمبر کی کسی تاریخ کو ریلیز ہونے والی فلم پدماوتی کا ہے۔

انہوں نے اس موقع پر یہ بھی کہاکہ اکثر تاریخ دان جیسے جدو ناتھ سرکار اور آر سی مجوم دار نے اورنگ زیب کو ایک ہندو مخالف حکمراں قرار دیا ہے، بالخصوص مندروں کو گرانے کی اس کی پالیسی کو زیادہ ابھارا ہے۔ اس کے برخلاف سیکولر تاریخ داں اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ہندو بادشاہوں نے مغل بادشاہوں سے زیادہ مندریں ڈھائی ہیں۔

سی بی آئی کے سابق اسپیشل ڈائریکٹر ڈاکٹر کے سلیم علی (آئی پی ایس) نے مشورہ دیا کہ اگر تاریخ کو آرٹ کے مضمون کے بجائے سائنس کے مضمون کے طورپر پڑھایا جائے توبہت سی تاریخی غلطیاں دور ہوسکتی ہیں کیوں کہ اسے مسلمہ اصولوں سے ہوکر گذرنا پڑے گا۔ اس موقع پر پروفیسر زیڈ ایم خان نے آئی اوایس کی سرگرمیوں کی تفصیل پیش کیں جب کہ نیوکالج چینئی کے پرنسپل ڈاکٹر میجر زاہد حسین نے شرکاء کا خیر مقدم کیا۔ یہ سمینار کل بھی جاری رہے گا۔ جس میں مختلف مقالے پیش کئے جائیں گے۔ سمینار میں ملک بھر سے ماہرین تاریخ اور دانشور شرکت کررہے ہیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *