آغا خان یونیورسٹی: خواتین عدم مساوات انڈیکس میں پاکستان 121 ویں نمبر پر
- March 25, 2017 11:43 am PST
کراچی: رپورٹ
پاکستان میں خواتین کو گھر کے مردوں کی جانب سے جارحانہ اور پر تشدد رویے کا سامنا ہے اور اس رویے میں وقت کے ساتھ شدت آئی ہے۔ تشدد کے خلاف بے ربط پالیسیاں، پدری گھریلو نظام، خواتین کے ساتھ روا رکھا جانے والا صنفی امتیاز اور نقصان دہ تصورات اس کی اہم وجوہات میں شامل ہیں۔ یہ بات ایک مقامی تحقیق کے نتائج سے واضح ہوتی ہے جن پر بات کرنے کے لیے آغا خان یونیورسٹی (اے کے یو) کے تحت ایک دو روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار میں انسانی حقوق کے راہنما، وکلا اور تحقیق کار موجود تھے۔
تحقیق کا موضوع تھا: ‘جنوبی ایشیا میں قریبی رشتہ دار مردوں کی جانب سے تشدد کا شکار خواتین: تحقیق سے عمل کی جانب’۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال میں کی جانے والی اس تحقیق میں فرد، گھرانے اور مقامی آبادیوں کی سطح پر موجود تشدد کے محرکات کو تلاش کیا گیا اور پالیسی سازوں کے لیے ایسی تدابیر تجویز کی گئیں جو جنوبی ایشیا کے ان تین ممالک میں موجود خواتین کو تحفظ فراہم کر سکیں گی۔
قریبی رشتہ دار کی جانب سے تشدد (انٹیمیٹ پارٹنر وائلینس – آئی پی وی) سے مراد ہے شوہر، ساتھی/دوست یا رشتہ دار مرد کے تشدد کا شکار ہونا۔ رپورٹ کے مطابق ان ممالک میں خواتین کے حقوق کے متعلق موجودہ روایتی سماجی اقدار ایک اہم مسئلہ ہیں۔ اس میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ پاکستان میں ایسے متعدد سماجی گروہ ہیں جو خواتین پر ہونے والے تشدد کی چشم پوشی کرنے والے تصورات کے پرچار میں مصروف ہیں۔ مزید برآں پاکستان میں خواتین کو سماجی اورعدالتی تحفظ فراہم کرنے کے لیے تشکیل دی جانے والی پالیسیاں کافی حد تک بے ربط ہیں۔
ڈاکٹر فیونا سیمیوئل لندن میں قائم اوور سیز ڈیویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ میں سینیئر ریسرچ فیلو ہیں۔ تحقیق کے نتائج کے متعلق بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فیونا نے کہا، “انٹیمیٹ پارٹنر وائلینس (آئی پی وی) جنوبی ایشیائی ممالک میں عوامی صحت اور انسانی حقوق کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ ان ممالک میں یہ مسئلہ اس لیے دوچند ہو جاتا ہے کیوںکہ یہاں شدید صنفی امتیاز بھی پایا جاتا ہے۔”
انھوں نے مزید کہا، “اقوام متحدہ ڈیویپلمنٹ پروگرام کے صنفی عدم مساوات کے انڈیکس میں بنگلہ دیش، نیپال، اور پاکستان 152 ممالک میں بالترتیب 111، 108 اور 121 ویں نمبروں پر آتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان ممالک کے سرکاری اور نجی ادارے اس تحقیق کے نتائج پر سنجیدگی سے غور کریں اور یہ جائزہ لیں کہ عوامی فلاح کی پالیسیوں اور مخصوص پروگرامز کے لیے ان نتائج سے کس طرح استفادہ کیا جا سکتا ہے۔”
اے کے یو کے ڈیپارٹمنٹ آف سائیکائٹری کی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور یونیورسٹی کے ورکنگ گروپ فار ویمن کی چیئر نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا، “اس امر کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ آئی پی وی کے باعث خواتین کی صحت، ذہنی آسودگی اور افزائش کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ تاہم اس حوالے سے جائزے اور تحقیق کی کمی ہے کہ مرد اور لڑکے خواتین پر تشدد کی جانب کیوں مائل ہوتے ہیں؟”
ڈاکٹر نرگس نے کہا، “اس تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح پاکستان کے نوجوانوں اور مردوں کے ساتھ ساتھ اداروں اور معاشرے میں مصروف عمل مختلف سماجی گروہوں کے تصورات خواتین کو ذہنی اور جسمانی طور پر نقصان پہنچا رہے ہیں۔ خواتین کے تحفظ اور مساوات کو یقینی بنانے کے لیے ازحد ضروری ہے کہ اس تشدد کے پس پشت کارفرما وجوہات کو سمجھا جائے”۔
خواتین پر مردوں کے بڑھتے ہوئے تشدد کے محرکات جاننے کے لیے اے کے یو کے تحقیق کاروں نے کراچی کے تین علاقوں(لیاری، شاہ فیصل ٹاؤن اور دیہہ چوہار) کے رہائشی مردوں کے مفصل انٹرویوز لیے اور ان کے ساتھ فوکس گروپ میٹنگز کیں۔ صحت اور تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات کے علاوہ وپولیس حکام اور سوشل افیئرز ڈیپارٹمنٹس کے افسران کو بھی اس صورتحال کا جائزہ لینے کی دعوت دی گئی تاکہ اسے بہتر بنایا جا سکے۔
تحقیق کاروں کے مطابق انفرادی طور پرانٹرویو میں شامل کئی افراد نے خواتین پر ہونے والے تشدد کو بے حد ‘عام سے بات’ قرار دیا۔ یہ عموماً حسد، شک یا بظاہر خواتین کی ‘نافرمانی’ کا نتیجہ ہوتا ہے۔
تحقیق کاروں کے مطابق ایسے ماحول اور گروہ کا حصہ ہونا جو مردوں کی حاکمیت کو قبول کرتا ہے نئے آنے والی نسلوں خصوصاً نوجوان مردوں کے لیے آئی پی وی کا از خود ایک جواز ہے۔ تحقیق اور جائزے کے دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ اگر کوئی بچہ اپنے باپ کو ماں پر تشدد کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ مستقبل میں وہ خواتین کے خلاف اس سے بھی زیادہ پر تشدد ذہنیت کا حامل ہوتا ہے۔
جائزے کے مطابق غربت، نشہ اور تعلیم کی کمی جیسے عوامل بھی خواتین پر تشدد کے امکانات میں اضافہ کرتے ہیں۔ تحقیق کاروں نے تجویز کیا کہ تعلیم اور ملازمتوں کی کمی کو دور کرنا اور نوجوانوں کو اوائل عمر میں مخصوص گروپس میں شامل کرکے ان کو مشاورت اور درست ذہنی سمت دینا اس مسئلے پر قابو پانے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسکولوں میں ایسی سرگرمیاں انجام دی جا سکتی ہیں جو بچوں کے ننھے ذہنوں کو معاشرے کے سدھار کی جانب راغب کریں۔ تحقیق کاروں کے مطابق منفی اقدار کے متعلق معلومات فراہم کرنے اور مردوں کی تربیت کے لیے مقامی آبادیوں میں تھیئٹر اور ورکشاپس کروانے سے بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تاہم ان کے مطابق ان میں خواتین کی شرکت کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے کیونکہ ان کے مشاہدے کے مطابق تحقیق کے دوران فوکس گروپس میں خواتین کو شرکت کی اجازت نہیں تھی۔
تحقیق کاروں کے مطابق عمومی گھرانوں میں شادی شدہ خواتین کا کردار متعین ہے جس سے روگردانی کرنا یا مردوں کے فیصلوں کو نہ ماننا خواتین پر تشدد کے اہم محرکات ہیں۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ زیادہ تر مردوں نے تشدد کو خواتین کو ‘کنٹرول’ کرنے کے لیے لازم قرار دیا اور اس کی تائید میں مذہبی حوالہ جات بھی پیش کیے۔
مطالعے کے مطابق عورت سے یہ توقع کی جاتی ہیں کہ وہ ہر صورت مرد کا حکم بجا لائے بصورت دیگر، گھر میں موجود افراد عموماً عورت کے خلاف مجتمع ہو کر معاملے کو مزید خراب کر دیتے ہیں۔ اس طرح کے مسائل کے حل کے لیے تحقیق کاروں نے مخصوص پروگراموں کی تشکیل کی تجویز پیش کی جس کے تحت شوہروں، سسروں اور دیوروں کو ان کے رویے کے متعلق بات کرنے کا موقعہ فراہم کیا جائے اور انھیں مردانگی کے اظہار کے لیے دیگر طریقہ کار اپنانے کے لیے کہا جائے۔
تحقیق کاروں کے مطابق ان علاقوں میں آئی وی پی کے واقعات کو گھریلو معاملہ سمجھا جاتا ہے اور گھر میں ہی نمٹا دیا جاتا ہے۔ ان معاملات کے لیے پولیس یا عدالت سے مدد لینا ناقابل قبول ہے۔ کم عمری میں شادی، شادی سے قبل دوستی یا تعلقات کو غلط سمجھنا اور خواتین کے لیے ذرائع نقل و حمل اور ملازمتوں کے محدود ہونے کے باعث آئی وی پی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
تحقیق کاروں کے مطابق اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے آئی وی پی کے حوالے سے آگاہی پروگرام اور سرگرمیوں کی ضرورت ہے جس میں صحت عامہ کے مراکز، مقامی آبادیوں میں موجود کارکنان اور خواتین کے نیٹ ورکس کو شامل کیا جائے تاکہ برسوں سے رائج غلط روایات کے خاتمے کے لیے کام کیا جا سکے۔
آخر میں، سیمینار میں موجود ماہرین نے بتایا کہ خواتین کے تحفظ کے حوالےسے 12 مختلف قوانین موجود ہیں تاہم ان کا اطلاق موثر نہیں ہے اور ہر صوبے کے باسی ان قوانین کو مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔ تحقیق کاروں کے مطابق پاکستان کو بین الاقوامی اطوار سے ہم آہنگ کرنے کے لیے آئی وی پی کو جرم قرار دیا جانا ضروری ہے جس میں شوہر کی جانب سے زیادتی اور جہیز کے نام پر کیے جانے والے تشدد کو بھی جرائم میں شامل کیا جائے۔
ماہرین نے بتایا کہ جب خواتین تشدد کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں اور پولیس میں اس کی رپورٹ کرتی ہیں تو انھیں کردار کے حوالے سے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بدعملیوں کے باعث مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ مطالعے میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے مزید خواتین پولیس افسر اور خواتین ججز کی تقرری کی جائے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خواتین کے تحفظ کے حوالے سے تربیت فراہم کی جائے تاکہ عام خواتین انصاف تک بہتر رسائی حاصل کر سکیں۔
اے کے یو کے سینٹر آف ایکسیلنس ان ویمن اینڈ چائلڈ ہیلتھ کے بانی ڈائریکٹر ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا۔ “معاشرے میں خواتین کے معیار زندگی کوبہتر بنانے اور تشدد میں کمی کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ گولز (ایس ڈی جیز) نمبر 5، 10 اور 16 کے حصول میں معاون ہوں گے۔ خواتین کے تحفظ کے لیے تحقیق اور اقدامات سے صنفی مساوات کو فروغ ملے گا؛ عدم مساوات کی بنیادی وجہ کا خاتمہ ہو گا اور امن اور انصاف کو فروغ ملے گا۔ یہ سلسلہ مضبوط اداروں کی بنیاد بنے گا اور مساوات پر مبنی معاشرہ تشکیل پائے گا۔ یہی وہ منزل ہے جس کے حصول کا ہم پاکستان کے لیے خواب دیکھتے ہیں۔”
ڈاکٹر فیونا سیمیوئلز نے مطالعے کے نتائج کی افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، “، “انٹیمیٹ پارٹنر وائلینس (آئی پی وی) جنوبی ایشیائی ممالک میں عوامی صحت اور انسانی حقوق کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ ان ممالک میں یہ مسئلہ اس لیے دوچند ہو جاتا ہے کیوںکہ یہاں شدید صنفی امتیاز بھی پایا جاتا ہے۔”
انھوں نے مزید کہا، “اقوام متحدہ ڈیویپلمنٹ پروگرام کے صنفی عدم مساوات کے انڈیکس میں بنگلہ دیش، نیپال، اور پاکستان 152 ممالک میں بالترتیب 111، 108 اور 121 ویں نمبروں پر آتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان ممالک کے سرکاری اور نجی ادارے اس تحقیق کے نتائج پر سنجیدگی سے غور کریں اور یہ جائزہ لیں کہ عوامی فلاح کی پالیسیوں اور مخصوص پروگرامز کے لیے ان نتائج سے کس طرح استفادہ کیا جا سکتا ہے۔”
اے کے یو کے ورکنگ گروپ فار ویمن اور سینٹر آف ایکسیلنس ان ویمن اینڈ چائلڈ ہیلتھ اور لندن میں قائم اوورسیز ڈیویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ نے دی نیپال انسٹیٹیوٹ فار سوشل اینڈ انوائرنمنٹل ریسرچ، دی انٹرنیشنل سینٹر فار ڈائریئل ڈیزیز ریسرچ، بنگلہ دیش اور امریکہ اور برطانیہ میں موجود ایمری یونیورسٹی کے دی رولنز اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ساتھ مشترکہ طور پر اس سیمینار کا انعقاد کیا۔