صوابی یونیورسٹی: سنڈیکیٹ کی منظوری کے بغیر بھرتیاں، گورنر کا نوٹس

  • February 1, 2018 12:34 pm PST
taleemizavia single page

پشاور:ارشد عزیز ملک

تحریک انصاف کی حکومت میں صوابی یونیورسٹی میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے جس کا چانسلر و گورنر خیبرپختونخوا نے نوٹس لیا ہے۔

گورنر نے انسپکشن ٹیم کو انکوائری کا حکم دیتے ہوئے 15روز میں تحقیقاتی رپورٹ طلب کرلی۔ جامعہ کے وائس چانسلر نے سینڈیکیٹ کی منظوری کے بغیر غیر قانونی اخراجات کئے، نئے شعبہ جات کا قیام اور 70 من پسند افراد کی اہم عہدوں پر بھرتیاں کرنے کا الزام ہے۔

ذرائع کے مطابق جامعہ صوابی کے سینڈیکیٹ میں ممبران سید اختر علی شاہ ‘ ڈاکٹر ناصر جمال شعبہ انگریزی پشاور یونیورسٹی اور ایچ ای سی کے ممبر نے جامعہ کے معاملات پر شدید اعتراضات اٹھائے۔ اس حوالے سے وائس چانسلر ڈاکٹر امتیاز علی خان سے رابطے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں۔

ہے دستاویزات کے مطابق جامعہ کے وائس چانسلر نے سینڈیکیٹ سے منظوری کے بغیر نئے شعبہ جات قائم کرکے غیر قانونی طور پر نئی بھرتیاں کیں ذرائع کے مطابق سکیل ایک سے 16تک 70 من پسند افراد کو بھرتی کیا گیا ہے جن کا تعلق ایک ہی حلقے سے بتایا جاتا ہے۔

اس حوالے سے ایٹا کے تحت امتحان کا طریقہ کار اختیار ہی نہیں کیاگیا‘وی سی نے صوابی میں تمباکو کی ایک منڈی کرائے پر حاصل کرکے ڈیپارٹمنٹ قائم کردیا اور باقا عدہ کلاسز بھی شروع کر دیں‘جامعہ میں پروفیسرز ‘ایسوسی ایٹ پروفیسرز‘ اسسٹنٹ پروفیسر‘لیکچررز ‘ رجسٹرار اور خزانچی کی آسامیاں عرصہ دراز سے خالی ہیں۔

اورجن پوسٹوں پر بھرتیاں کی گئی ہیں اس کیلئے کوئی اشتہار بھی جاری نہیں ہوا۔

سابق وائس چانسلر کے دور میں رجسٹرار‘ خزانجی‘ ڈپٹی رجسٹرار اور اسسٹنٹ برائے رجسٹرار کی آسامیوں کیلئے اشتہار شائع کیاگیا اور امیدواروں کو بھی شارٹ لسٹ کرلیاگیا تاہم ان امیدواروں کو تاحال انٹرویو کیلئے بلایا ہی نہیں گیا۔

گورنر کو موصول شکایات کے مطابق جامعہ کے ایک ٹیچر کو مبینہ طور پر خزانچی تعینات کرنے کیلئے آسامی کیلئے درکار تعلیمی قابلیت اور تجربہ میں تبدیلیاں بھی کی گئیں اور خزانچی کو رجسٹرار کا اضافی چارج دیکر رجسٹرار کو ہٹا دیاگیا۔

ایچ ای سی کی واضح پالیسی کے باوجود مستقل سٹاف کی تعیناتی کیلئے معیار کی بہتری کیلئے کوئی بھی سیل نہیں بنایاگیا جبکہ جامعہ کو ایڈہاک ازم پر چلایا جا رہا ہے۔

ذرائع نے بتایا ہےکہ وائس چانسلر نے سینڈیکیٹ ممبران کو آگاہ کئے بغیر ہی جامعہ کی سینٹ کا اجلاس طلب کیا اور بعدازاں سینڈیکیٹ ممبران کو اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کی کاپیاں ارسال کر دیں جس میں بجٹ کے معاملات بھی طے کئے جا چکے تھے جو کہ یونیورسٹی ایکٹ 2002ءاور جنرل فنانس رولز کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

دستاویزات کے مطابق جامعہ کے سینڈیکیٹ کے 18ویں اجلاس میں بجٹ‘ نئے شعبہ جات کے قیام‘ نئی بھرتیوں اور آمدن کے ذرائع بڑھانے کے حوالے سے وائس چانسلر کی تمام سفارشات مسترد کردی گئی تھیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *