نوم چومسکی کے بعد میڈیاپراپیگنڈہ کا نیاماڈل دریافت
- March 2, 2022 5:18 pm PST
لاہور، آمنہ مسعود
پنجاب یونیورسٹی کے سکول آف کمیونیکیشن اینڈ میڈیا اسٹدیز کے پی ایچ ڈی یافتہ خرم شہزاد نے خبروں میں خفیہ تکنیکوں کے ذریعے شامل کیے گئے پروپیگنڈا مواد کی نشاندہی کی کرنے کے لیے میڈیا ماڈل ایجاد کر لیا ہے۔ اس سائنسی ماڈل کا نام ”پراپیگنڈا نیوز آئی ڈینٹی فیکیشن ماڈل” ہے۔ اس ماڈل کے اطلاق سے بین الاقوامی محققین ایڈورڈ ایس ہرمن اور پروفیسر نوم چومسکی کے معروف پروپیگنڈا ماڈل کے پاکستانی قومی اخبارات کی خبروں پہ اطلاق کی سائنسی انداز میں نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ جس کا مقصد پاکستانی عوام کا مختلف معاملات پر ذہن بنانے، سوچ کو ایک خاص سمت میں لے جانے اور رائے عامہ تشکیل دینے کی کوشش کرنا ہے۔
تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ اخبارات کے منتخب شدہ دورانیے میں پاکستان کے قومی اخبار دی نیوز کی خبروں میں 533 مرتبہ، دی نیشن کی خبروں میں 420 مرتبہ جبکہ ڈان کی خبروں میں 321 مرتبہ مخفی طور پراپیگنڈہ مواد شامل کیا گیا جس کی ماڈل کے ذریعے سائنسی انداز میں نشاندہی ہوئی ہے۔
محقق نے دعوی کیا ہے کہ سائنسی شواہد کی بنیاد پر پاکستان کے قومی اخبارات اہم خبروں میں 11 (گیارہ) مخفی طریقوں کے ذریعے پروپیگنڈا کرتے ہیں اور تحقیقی سوالات کی جانچ پڑتال سے ہرمن اینڈ چومسکی کا پروپیگنڈا ماڈل پاکستانی اخبارات کی خبروں پر بھی موثر پایا گیا ہے۔
یہ تحقیق پروپیگنڈاکے دو معروف شعبوں گرے اور بلیک پروپیگنڈا سے وابستہ ہے۔تحقیق میں ایجاد کئے سائنسی ماڈل کے ذریعے شواہد کی بنیاد پر وہ مخفی طریقہ بھی دریافت کیا گیا ہے جس کو پاکستان کے قومی انگریزی اخبارات کی خبروں میں سب سے ذیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔
اس طریقے کے تحت خبر میں واقعات، معاملات اور صورتحال کا غیر منسوب شدہ تجزیہ کیا جاتا ہے اور اس تجزیے کو حقیقت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ تحقیقی اعداد و شمار کے مطابق اس مخفی طریقے کو دی نیوز کی173، دی نیشن کی 154 اور ڈان کی 128 سائنسی طور پر منتخب شدہ خبروں میں کام کرتا پایا گیا ہے۔
اس سائنسی ماڈل کو پنجاب یونیورسٹی سکول آف کمیونیکشن سٹڈیز کے سابق پی ایچ ڈی سکالر خرم شہزاد نے اپنے پی ایچ ڈی مقالے میں ایجاد کیا ہے۔ ان کے پی ایچ ڈی مقالے کا موضوع ”پاکستان کے قومی انگریزی اخبارات کی خبروں پہ پراپیگنڈا ماڈل کا اطلاق“ ہے۔
پراپیگنڈا ماڈل کو 1988 اور 2002 میں ایڈورڈ ہرمن اور نوم چومسکی نے پیش کیا تاہم اب تک ایسا کوئی ماڈل پیش نہیں کیا جا سکا تھا جس کے ذریعے پروپیگنڈا ماڈل کے خبروں میں اثرانداز ہونے کو سائنسی خطوط پر جانچا جا سکے۔
محقق نے تحقیق کے لئے جنوری 2013 سے دسمبر 2018 تک کے اخبارات کو منتخب کیا ہے۔ اس دورانیہ میں پاکستان میں دو مرتبہ قومی و صوبائی نشستوں پر عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔
ڈاکٹر خرم شہزاد بیان کرتا ہے کہ ماہرین ابلاغیات و صحافت اس بات پر متفق ہیں کہ خبر کو واقعات اور حقائق کا سیدھا سادھا غیر جانبدارانہ بیان ہونا چاہئیے جو کہ خبر لکھنے اور شائع کرنے والے کی ذاتی مداخلت سے پاک ہوتی ہے۔
تمام قومی اخبارات کے مالکان اور مدیر اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ ان کی خبریں غیر جانبدار اور حقائق پر مبنی ہوتی ہیں تاہم تحقیق سے ثابت ہوا کہ ان کے دعوی کے برعکس دی نیوز، ڈان اور دی نیشن کی اہم خبر وں میں مخفی طریقوں کے ذریعے خاص مقصد کے حصول کے لئے پروپیگنڈا مواد شامل کیا جاتا ہے تاکہ عوام کے اذہان کسی معاملے پر کسی خاص جانب گامزن کئے جا سکیں، پراپیگنڈا کیا جاسکے اور ایک خاص سوچ کو پروان چڑھایا جا سکے۔
محقق کا کہنا ہے کہ اخبار میں چھپی خبر کے بارے میں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا واقعتا ہوا ہے اور خبر کسی واقعے یا معاملے کی حقیقت کو بیان کر رہی ہے۔ اور خبر سے متعلق اسی ذہنی تاثر کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اس میں 11 مخفی طریقوں سے ایسا مواد شامل کیا جاتا ہے جو رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
ان گیارہ مخفی ذرائع اور تکنیک کی تفصیل بیان کرتے ہوئے محقق کا کہنا ہے کہ مخفی ذریعہ نمبر ایک کے تحت بغیر کسی کاغذ، دستاویز، شخصیت، ادارہ، فورم وغیرہ کا حوالہ دیتے ہوئے مستقبل کی پیش گوئی کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر بغیر حوالے کے لکھا ہو گا کہ ”الف“ کے اعمال اور پالیسی کی وجہ سے غریبوں کے حالات بہتر ہوں گے۔ دوسری مخفی تکنیک میں کسی ڈاکیومنٹ، شخصیت، یا تنظیم کا حوالہ دئیے بغیر خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر خبر میں لکھا ہو گا کہ فلاں پالیسی یا عمل سے عوام کے مسائل میں اضافہ ہوگا یا لکھا ہو گا کہ ”الف“ کی فلاں پالیسی یا عمل ”ب“ کے لئے خطرہ ہے۔ تیسری مخفی تکنیک میں کسی واقعے، حالات، خبر یا معاملے پر گمنام ذرائع سے تجزیہ کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر لکھا جائے گا کہ ذرائع نے کہا ہے کہ ”الف“ کے اقدامات سے محکمہ میں انقلاب آ جائے گا۔
پروپیگنڈہ کرنے کے چوتھے مخفی ذریعہ، جو کہ خبروں میں سب سے ذیادہ استعمال کیا گیا، اس میں کسی بھی واقعے، حالات، معاملات، حادثات وغیرہ کا بغیر کوئی حوالہ دئیے تجزیہ کرنا ہے۔ ایسے جملے اچانک خبر میں نمودار ہو جاتے ہیں جو کسی سے منسوب نہیں ہوتے اور انہیں خبر کا اس انداز میں حصہ بنایا جاتا ہے کہ حقیقت معلوم ہوں۔
مثال کے طور پر بغیر کسی ریفرنس کے لکھا جائے گا کہ ”پ“ کو ”الف“ اور ”ب“ کے مابین جھگڑے کا فائدہ ہو رہا ہے۔پانچویں مخفی تکنیک میں کسی خبر سے متعلق جانبدارانہ طور پر منتخب کیا گیا تاریخی پس منظر اور حالیہ صورتحال کو شامل کیا جاتا ہے۔
مثال کے طورعوامی مقامات پر کسی شخص یا چند افراد کی جانب سے قتل عام کئے جانے کی خبر کے دوران اگر تاریخی پس منظر بتانا مقصود ہے تو صرف ایسے واقعات کا حوالہ دینا جس میں صرف مسلمان حملہ آور ہو۔ اس طرح عوامی رائے کی تشکیل کے لئے جانبدارانہ طور پر منتخب کیا گیا تاریخی پس منظر دیا جاتا ہے۔ چھٹی مخفی تکنیک میں خبر کے اندر کسی خاص ماہر کا نام یا حوالہ دئیے بغیر ماہرین کی رائے دی جاتی ہے۔
مثلاََ معیشت، قانون، سیاست، انتظامی امور وغیرہ سے متعلق خبر میں لکھا ہو گا کہ ماہرین، معاشی ماہرین، قانونی ماہرین، سیاسی مبصرین، ڈپلومیٹک آبزرور وغیرہ وغیرہ کا کہنا ہے اور آگے ان کی رائے دے دی جاتی ہے جبکہ پوری خبر میں کسی ایک بھی ماہر کا باقاعدہ نام درج نہیں ہوتا اور یوں کسی ایک رائے کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے جیسے وہ سب کی رائے ہو۔
ساتویں مخفی تکنیک میں بغیر کوئی حوالہ دیئے کسی شخصیت اور اس شخصیت کے اعمال کا تجزیہ، تعریفیں یا برائیاں لکھی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر بغیر حوالہ لکھا جاتا ہے کہ فلاں سیاست دان یا بیورکریٹ یا ٹیکنوکریٹ اس کام کے لئے بہت قابل اور ایماندار ہے۔ اور اس کی سوچ اور اعمال بتاتے ہیں کہ وہ ایمانداری سے اس شعبے کی ترقی کے لئے کام کرے گا یا کسی کی نا اہلی کسی کے سر ڈال دی جاتی ہے۔ ایسی خبریں عام طور پر تب چھپتی ہیں جب وزارتوں اور مختلف سرکاری عہدوں پر ردو بدل، تقرریاں و تبادلے ہوتے ہیں۔
آٹھویں مخفی تکنیک میں خبر میں تجزیاتی سوال اٹھائے جاتے ہیں یا شکوک و شبہات و تجزیاتی سوالات اٹھا کر خود ہی جواب دے دیا جاتا ہے اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ تجزیاتی سوالات کون اٹھا رہا ہے؟ اس تکنیک کے ذریعے عوام کی سوچ کو ایک خاص سمت ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نویں مخفی تکنیک میں ایسی بحث درج کی جاتی ہے جس کا کوئی حوالہ نہیں ہوتا کہ یہ بحث کہاں ہوئی۔
مثال کے طور پر خبر میں لکھا ہو گا سیاسی حلقے، اسلام آباد کے حلقوں میں وغیرہ وغیرہ یہ بحث کی جا رہی ہے، ایسا کہا جا رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یعنی ایسی بحث جس کا سراغ لگانا نا ممکن ہو اس کا حوالہ دے کے کچھ بھی لکھ دیا جائے کیا معلوم وہ رپورٹر یا ایڈیٹر وغیرہ کی ذاتی خواہش پر مبنی بات ہو۔
دسویں مخفی تکنیک میں بغیر کسی ڈاکیومنٹ، شخصیت، ادارہ وغیرہ کا حوالہ دئیے کسی معاملے پر مشورے / سفارشات دی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر لکھا ہو گا کہ ان حالات میں فلاح شخص، حکومت یا فلاں ادارے کو ایسا کرنا چاہئیے یا ایسا نہیں کرنا چاہئے۔
گیارہویں مخفی تکنیک میں کسی بھی واقعے پر رائے پر مبنی وجوہات بتائی جاتی ہیں اور ان وجوہات کا منبع خبر میں بیان نہیں کیا جاتا۔ مثال کے طور پر یہ لکھنا کہ ”الف“ کی کامیابی یا ناکامی کی وجہ ”ب“ ہے اور اس جملے کا منبع درج نہ ہو۔اہم گزارشات: محقق کے پی ایچ ڈی مقالہ پر دوسرے غیر ملکی ریفری نے اپنی جائزہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ *”ریسرچ میتھڈالوجی ( طریقہ تحقیق) کا باب بلا واسطہ طور ارتکاز کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے اور محقق کو اس بات کا اعزاز ملتا ہے کہ اس نے واضح طور پر اپنا موقف تحریر کیا ہے اور تصوراتی و عملی خاکہ کے طریقے بروئے کار لاتے ہوئے اخبارات، صفحات اور خبروں کو اپنی تحقیق کے لئے منتخب کیا ہے۔“
محقق یہاں واضح کرنا چاہتا ہے کہ صفحہ اول اور آخر پر چھپنے والی خبروں میں ایسی کسی خبر کا انتخاب نہیں کیا گیا جس پر ”تجزیہ، خبری جائزہ، تبصرہ، ڈائری وغیرہ کا عنوان موجود ہو کیونکہ اس سے وضاحت ہو جاتی ہے کہ خبر میں تجزیہ یا اس قسم کا متعلقہ مواد ہو گا اور یہ خبر لکھنے والے کی رائے ہے۔ (البتہ تواتر سے ایسی تحریریں خبروں کے صفحات پر شائع کرنے کی بجائے ادارتی صفحات کا استعمال کیا جانا چاہئے)۔
محقق نے کوالیٹیٹو کانٹینٹ اینالسز کے طریقہ تحقیق کو اختیار کیا ہے تاہم خبروں کے انتخاب میں محقق کی جانب سے جانبداری کے عنصر کو نکالنے کے لئے سسٹمیٹک رینڈم سیمپلنگ کی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے جس کے تحت ہر اخبار کے ہر مہینے کی ساتویں، چودھویں، اکیسویں اور اٹھائیسویں تاریخوں کی اشاعت کو تحقیق کے لئے منتخب کیا ہے اور صرف ان خبروں کو منتخب کیا گیا ہے جو صفحہ اول و آخر پر شائع ہوئی ہیں۔
محقق کی جانب سے جانبداری اور ذاتی رائے کی شمولیت سے گریزکے لئے اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ خبر کے مواد کا ایسا تجزیہ، بحث یا ترجمانی بالکل نہ کی جائے جس میں محقق کا ذاتی عمل دخل نظر آئے۔
خرم شہزاد گیارہ برس سے پنجاب یونیورسٹی کے پبلک ریلیشنز آفیسر ہیں اور حال ہی میں پنجاب یونیورسٹی سکول آف کمیونیکیشن سٹڈیز سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری مکمل کر چکے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں تعیناتی سے قبل وہ تقریباََ 6 سال عملی صحافت کا تجربہ بھی رکھتے ہیں اور ایک انگریزی اخبار میں بطور سٹی ایڈیٹر، رپورٹر اور ٹی وی چینلز میں پروڈیوسر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔