سعودی عرب کے 400 طلباء نے امریکہ سے داعش میں کیسے شمولیت کی؟
- September 8, 2017 12:02 pm PST
تعلیمی زاویہ رپورٹ
انسٹیٹیوٹ فار گلف افیئرز نے اپنی تازہ ترین تحقیقیاتی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکہ میں مقیم سعودی طلباء نے کس طرح سے داعش میں شمولیت اختیار کی۔
اس رپورٹ کے مطابق حکومتی سکالر شپ پر امریکہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانے والے 400 سعودی اور کویتی طلباء شدت پسند اور دہشت گرد تنظیموں میں شمولیت اختیار کر لی ہے ۔
ان طلباء میں سے چند طالبعلم ایسے بھی ہیں جن کے پاس دوہری شہریت ہے کیونکہ اُن کے والدین اب امریکہ میں ہی مقیم ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت امریکہ میں 80 ہزار سعودی طالبعلم اور ان کے اہل خانہ امریکہ میں رہائش پذیر ہیں۔
اس رپورٹ میں 2014ء سے لے کر اب تک داعش میں شمولیت کرنے والے سعودی طلباء کی تصاویری ثبوت اور دیگر معلومات شامل ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب نے امریکی حکام سے اس معلومات کو شیئر نہیں کیا اور اسے خفیہ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے خاص طور پر ایسے طلباء سے متعلق جنہوں نے داعش سمیت شام اور عراق میں دیگر شدت پسند تنظیموں میں شمولیت کی۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے ایگزیکٹو آرڈر میں 90 دن کے لیے سعودی عرب سمیت سات ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخل ہونے پر پاپندی عائد کی تھی۔
امریکہ میں تعلیم کے لیے جانے والے یہ طلباء اب داعش اور الُنصرہ میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں اور وہ امریکہ سے چلے گئے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق سعودی حکام کے پاس اس سے متعلق تمام شواہد موجود ہیں تاہم انہیں امریکہ کے ساتھ شیئر نہیں کیا جارہا ہے۔
انسٹیٹیوٹ فار گلف افیئرز کے نمائندوں نے ایف بی آئی سے داعش میں سعودی طلباء کی شمولیت سے متعلق معلومات کا تبادلہ کیا اور ان کی جانب سے ایف بی آئی کو ایسے سعودی طلباء کی تصاویر اور دیگر دستاویز فراہم کی گئیں جو داعش میں شمولیت سے پہلے امریکہ میں مقیم تھے۔
سعودی حکام کے پاس اس سے متعلق تمام شواہد موجود ہیں۔ برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان اور دیگر ممالک میں سکالر شپ پر جانے والے سعودی طلباء کی فہرست بھی موجود ہے جو داعش میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ سعودی عرب کے پاس اس وقت ایسا جدید ترین سسٹم موجود ہے جس کے ذریعے سے وہ اپنے شہریوں پر ملک میں داخل ہونے اور باہر نکلنے سے متعلق جان کاری رکھتے ہیں۔
یہ سسٹم وزارت داخلہ کے کنٹرول میں ہے۔ تمام سعودی شہریوں کو ملک سے باہر جانے کے لیے فنگر پرنٹس جمع کرانا ہوتے ہیں اور یہ معلومات تمام سرکاری اداروں کے پاس رکھی جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سعودی طلباء کے یہ شواہد وائٹ ہاؤس، نیشنل سیکورٹی کونسل کے ساتھ بھی شیئر کی گئی ہے تاہم اسے معلومات کا آگے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ تبادلہ نہیں کیا گیا جو غیر ملکیوں کو ویزے جاری کرنے کا ذمہ دار ہے۔
اس اہم ترین ایشو کو نظر انداز کرنے کے پیچھے وہ طویل المدتی پالیسی ہے جس کے تحت امریکی حکمرانوں اور افسران کے ساتھ سعودی حکام کے گہرے تعلقات رہے ہیں جن میں نیشنل سیکورٹی آفیسرز، ڈائریکٹرز ایف بی آئی، سی آئی اے اور دیگر سیکورٹی ادارے شامل ہیں۔
یہاں پر یہ قابل ذکر ہے کہ سابق ایف بی آئی ڈائریکٹرز لوئس فری کو سابق سعودی سفیر بیندر بن سلطان کے لیے بطور وکیل خدمات حاصل کی گئیں اور اس کے لیے اُنہیں 10 ملین ڈالرز فیس ادا کی گئی۔
اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ سعودی رائل فیملی انتہائی منظم انداز میں داعش کے نیٹ ورک کو مضبوط کرنے کے لیے کام کر رہی ہے اور اس کے لیے باقاعدہ طور پر فنڈنگ بھی کی جارہی ہے۔ 19 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں داعش میں شمولیت اختیار کرنے والے تمام طلباء کی تصاویر شیئر کی گئی ہیں جن کے ساتھ ان طلباء کا مکمل پروفائل بھی درج ہے۔