خوشخطی کے نمبر پُورے، حروف تہجی کو جوڑ کر لکھنا لازمی قرار
- November 12, 2017 7:27 pm PST
رپورٹ: بی بی سی
ریاست کے گورنر کے حکم کو مسترد کرتے ہوئے امریکہ کی ریاست ایلونائے نے ایک نئے قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت سکول کے بچوں کے لیے حروف تہجی کو جوڑ کر لکھنا لازمی قرار دی گیا ہے۔ یاد رہے کہ امریکی سکولوں میں حروف کو جوڑ کر انگریزی لکھنے یا ’کرسِو‘ لکھائی کی اہلیت ہونا ضروری نہیں رہا اور کئی دیگر ممالک میں اسے نصاب سے نکال دیا گیا یا ایک اختیاری مضمون بنا دیا گیا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ برطانیہ اور کئی دوسرے ممالک میں اس ڈیجیٹل دور میں ہاتھ سے لکھنے پر کیوں اصرار کیا جاتا ہے؟ کیا وقت کا تقاضا یہ نہیں کہ بچوں کو ٹائپ کرنا سکھایا جائے؟
خدا حافظ لکھائی
اگرچہ ریاست ایلونائے کے ارکانِ سینٹ کا دعویٰ ہے کہ جوڑ کر انگریزی لکھنا بچوں کے لیے ضروری ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بالغ لوگوں کی اکثریت اب ہاتھ سے کم ہی لکھتی ہے۔ مثلاً برطانیہ میں سنہ 2012 میں کیے گئے ایک جائزے میں ایک ڈاک کمپنی ’ڈوک میل‘ کا کہنا تھا کہ جائزے میں حصہ لینے والے افراد نے بتایا تھا کہ انھیں ہاتھ سے کوئی چیز لکھے ہوئے 41 دن گزر چکے تھے۔ اور ان میں سے دو تہائی لوگوں نے اگر اِن دنوں میں کچھ لکھا بھی تھا تو وہ سودا سلف کی مختصر فہرست سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔
اگر آپ کو بڑے ہو کر واقعی اتنا کچھ ہی لکھنا ہوتا ہے تو اس کے لیے بلاک لیٹر یا بڑی انگریزی میں لکھنا ہی کافی ہے جو بچوں کو سکول میں سکھایا جاتا ہے۔ بچوں کی اکثریت کو بڑے حروف میں لکھنے سے زیادہ نہیں سکھایا جاتا۔
امریکہ میں انڈیانا سمیت کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں حروف جوڑ کر لکھنے کو نصاب سے نکال دیا گیا ہے۔ اسی طرح فِن لینڈ میں ہینڈ رائٹنگ کو آہستہ آہستہ نصاب سے نکال دیا گیا ہے اور اطلاعات یہ ہیں کہ انڈیا کے سکولوں میں میں بھی یہ روایت ختم ہو رہی ہے۔
اس سلسے میں اکثر یہ توجیح پیش کی جاتی ہے کہ جو وقت بچوں کو لکھائی کی تربیت دینے میں صرف ہوتا ہے، وہی وقت انھیں ٹائپنگ اور کوڈنگ جیسی جدید مہارتیں سکھانے میں صرف کیا جا سکتا ہے۔ سوال ہیدا ہوتا ہے آیا بچوں کو حروف جوڑ کر لکھنے کی تربیت میں گھنٹوں کی مغز ماری کرنے کا کوئی فائدہ ہے بھی یا نہیں؟
لکھنے کی تربیت
میرا خیال ہے کہ بچوں کو کپمیوٹر کے کی بورڈ پر ٹائپنگ کی تربیت کی بجائے ہاتھ سے لکھنے کی تربیت کے کچھ فوائد ضرور ہیں۔
فرانس کی ایک یونیورسٹی کے محققین نے سنہ 2005 میں ایک مقالہ لکھا تھا جس میں انھوں نے تین سے پانچ سال کی عمر کے بچوں میں ٹائپنگ اور ہاتھ سے لکھائی کا موازنہ کیا۔ ان کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ آیا بعد میں بچوں کی مختلف حروف پہچاننے کی صلاحیت میں کوئی فرق ہوتا ہے یا نہیں۔ اس تحقیق کے نتائج کے مطابق وہ بچے جو ہاتھ سے لکھ رہے تھے ان کے لیے حروف کو یاد رکھنا زیادہ آسان تھا۔
پھر سنہ 2012 میں بھی ایک تحقیق کی گئی جس میں پانچ سال کی عمر کے ان بچوں کو لیا گیا جن کو ابھی تک پڑھنا اور لکھنا نہیں سکھایا گیا تھا۔ انھیں مختلف حروف تہجی اور اشکال دکھائی گئیں اور پھر ان کے دماغ کا معائنہ ایم آر آئی مشین کے ذریعے کیا گیا۔
ہاتھ سے لکھنے والے بچوں کے دماغ کا وہ حصہ کام کرنے لگا جس کا تعلق پڑھنے کی صلاحیت سے ہوتا ہے لیکن جو بچے ٹائپ کر رہے تھے ان میں ایسا نہیں ہوا۔ اس سے سائنسدانوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر بچے کوئی چیز لکھتے ہیں تو اس سے انھیں پڑھنے میں مدد ملتی ہے۔
اس مقالے کے مصنفین میں سے ایک، ڈاکٹر کیرن جیمز کہتی ہیں کہ کوئی چیز سیکھنے میں ہاتھوں کی حرکت اہم ہوتی ہے۔ ہاتھ سے لکھنے سے دماغ میں ایسے نظام کی تخلیق میں مدد ملتی ہے جو آپ کی دماغی صلاحیت میں اضافے کے لیے اہم ثابت ہوتا ہے۔‘۔
بعد میں ڈاکٹر جیمز نے اس موضوع پر مزید تحقیق کی اور ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ کسی دوسرے شخص یا استاد کو جوڑ کر حروف لکھتے ہوئے محض دیکھتے ہیں اور خود نہیں لکھتے تو اس کے فوائد اتنے نہیں ہوتے جتنا خود لکھنے سے ہوتے ہیں۔
آہتسہ آہتسہ جوڑ کر حروف لکھنے کے حق میں یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ اگر آپ کسی لیچکر کے دوران نوٹس لینا چاہتے ہیں تو الگ الگ حروف لکھنے کی بجائے جوڑ کر لکھنا زیادہ آسان اور تیز ہوتا ہے۔
لیکن اگر آپ ٹائپ کرنے میں ماہر ہوں تو آپ جُڑے ہوئے حروف سے لکھنے والے کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے نوٹس لے سکتے ہیں۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ سکول کے ابتدائی برسوں کے بعد بھی حروف جوڑ کر لکھنے کا کوئی فائدہ ہے؟
اب تک کی تحقیق کے نتائج کے مطابق ہاتھ سے لکھنے کا فائدہ یہ ہے کہ آپ بڑے ہو کر بھی ان چیزوں کو نہیں بھولتے جو آپ نے لکھ کر سیکھی تھیں۔ سنہ 2014 میں امریکہ کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی ایک تحقیق میں بالکل یہی چیز ثابت ہوئی تھی کہ ’قلم کی بورڈ سے زیادہ طاقتور ہے۔‘
اس تحقیق میں یونیورسٹی کے طلبا میں لیپ ٹاپ کے استعمال کا جائزہ لیا گیا تھا۔ تحقیق کے مطابق لیپ ٹاپ کے استعمال سے ’سیکھنے کا عمل خراب ہو جاتا ہے، کیونکہ اس کے استعمال سے آپ کے دماغ میں چیزیں پروسیس کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔‘
مذکورہ تحقیق میں طلبا سے کہا گیا کہ وہ لیکچر کے نوٹس لیپ ٹاپ یا قلم سے لکھ کر لیں اور بعد میں دیکھا گیا کہ طلبا کو کتنے اعداد وشمار یا لیکچر میں بتائی جانے والی پیچیدہ باتیں یاد تھیں۔
تجربے سے ثابت ہوا کہ وہ طلبا جو ہاتھ سے لکھ رہے تھے ان کو معلومات پر زیادہ عبور تھا اور ان کی سمجھ زیادہ گہری تھی ڈاکٹر جیمز کہتی ہیں کہ ’جب کوئی شخص آپ کو کوئی بات بتاتا ہے اور آپ اسے ہاتھ سے لکھتے ہیں ۔۔۔ تو اپنے الفاظ میں لکھتے ہیں۔ تو ہوتا یہ کہ وہ خود آپ کی اپنی تحریر بن جاتی ہے۔
اس کے برعکس اگر آپ اپنے نوٹس ٹائپ کرتے ہیں تو وہ کم وبیش وہی ہوتے ہیں جو استاد نے کہے ہوتے ہیں، آپ کے اپنے الفاظ نہیں۔
خوش خطی اور خطاطی کی روایت
اس کے علاوہ اس بحث کے کچھ تہذیبی پہلو اور مسائل بھی ہیں۔ حروف جوڑ کر لکھنے کے حامی کہتے ہیں کہ وہ نسل جو حروف جوڑ کر لکھنے کی عادی نہیں وہ ہاتھ سے لکھے ہوئے ان نسخوں سے کچھ نہیں سیکھ سکتے جو سینکڑوں سال پہلے لکھے گئے تھے۔ اس کے علاوہ ہمیں خوش خطی کے نمونے اچھے بھی لگتے ہیں، جیسے بڑے اہتمام سے لکھی ہوئی دستاویزات اور شادی کے دعوت نامے وغیرہ۔
اسی طرح اگر آپ کی لکھائی خراب ہے تو امتحان میں آپ کو نمبر بھی کم ملتے ہیں۔ امریکہ کی کارنیگی فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ امتحان میں چاہے آپ نے وہی لکھا ہو جو کسی دوسرے طالبعلم نے لکھا ہو، لیکن اگر آپ کی لکھائی صاف نہیں ہے تو آپ کو کم نمبر ملتے ہیں۔
آخر میں ہم یہی کہ سکتے ہیں کہ حروف جوڑ کر لکھنے کے بارے میں ابھی تک بین الاقوامی سطح پر کوئی اتفاق رائے موجود نہیں ہے۔ اسی لیے کئی لوگ کہتے ہیں کہ سکولوں میں بچوں کو روایتی کرسِو لکھائی سکھانے میں جو وقت صرف کیا جاتا ہے، شاید اس کے فوائد اتنے زیادہ نہیں۔