گلگت بلتستان کے آتش زدہ سکولوں کی پندرہ دن میں تعمیر کا حکم
- August 4, 2018 7:36 pm PST
اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے گلگت بلتستان کے علاقوں دیامر اور چلاس میں دہشت گردوں کی جانب سے لڑکیوں کے اسکولوں کو نذرِ آتش کرنے کے واقعے پر ازخود نوٹس لے لیا۔
چیف جسٹس نے مذکورہ معاملے پر سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری کشمیر و گلگت بلتستان اور وفاقی حکومت سے 48 گھنٹے کے اندر جواب طلب کرلیا۔
اطلاعات کے مطابق دیامر میں ایک درجن اسکولوں کو نذر آتش کرنے کے بعد گزشتہ رات داریل میں ایک اور اسکول کو جلا دیا گیا، واقعہ گزشتہ شب پیش آیا جس کی مقامی افراد اور پولیس کے اہم ذرائع نے تصدیق کی۔
تاہم صوبائی حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے واقعے کے بارے لاعلمی کا اظہار کیا، جس کے بعد دو دنوں میں جلائے جانے والے سکولوں کی تعداد 13 ہوگئی۔
اس حوالے سے علاقہ پولیس کا کہنا ہے کہ سرچ آپریشن جاری ہے جس میں اب تک 2 درجن سے زائد افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ فیض اللہ کا کہنا ہے دیامر واقعات میں 10 افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست لیا گیا جبکہ انتہائی خطرناک دو درجن سے زائد جرائم پیشہ افراد انتظامیہ کے حوالے کرنے کے لیے دیامر جرگہ کو ناموں کی فہرست فراہم کر دی گئی ہے۔
اس کے ساتھ ہدایت جاری کی گئی ہے کہ ان افراد کو 3 سے 4 روز میں انتظامیہ کے حوالے کیا جائے بصورت دیگر سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
گلگت بلتستان کے مشیر اطلاعات شمس میر کا کہنا تھا کہ کچھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن سے تفتیش جاری ہے اور اسی کی مدد سے اصل مجرمان تک پہنچا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن نے اس حوالے سے ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا جس میں بالخصوص دیامر اور بالعموم گلگت کے دیگر اسکولوں کی سیکیورٹی کے لیے جامع حکمت عملی پر غور کیا گیا۔
مشیر اطلاعات گلگلت بلتستان نے آگاہ کیا کہ دیامر واقعات کی ابتدائی رپورٹ وزیر اعلیٰ کو پیش کر دی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ شرپسند عناصر نے منظم انداز میں ضلع کے مختلف اسکولوں پر حملے کر کے پہلے توڑ پھوڑ کی بعد ازاں نذر آتش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ واقعات اور ماضی کے حملوں میں مماثلت پائی جاتی ہے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ واقعات میں غیر مقامی افراد کے ملوث ہونے اور مقامی سہولت کاروں کے حوالے سے اہم معلومات ملی ہیں۔
مشیر اطلاعات کے مطابق ملزمان تک پہنچنے کے لیے متعدد موبائل نمبروں کے رابطے کا ریکارڈ حاصل کیا جارہاہے، انہوں نے بتایا کہ سیکیورٹی پلان جلد مکمل کر کے فوری طور پر نافذ کردیا جائے گا۔ واقعے کے پس پردہ عناصر کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جس طرح منظم طریقے سے یہ کارروائی کی گئی ہے اس میں بیرونی عناصر کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ادھر وزیرِ اعلیٰ گلگت بلتستان نے خاکستر ہونے والی درسگاہوں کو 15 روز میں دوبارہ تعمیر کروانے کے احکامات جاری کردیے۔ درسگاہوں کو نذرِ آتش کرنے والے واقعات پر جرگہ ہوا جس میں انتظامیہ، آئی جی پولیس، کمشنر دیامر اور صوبائی وزراء نے شرکت کی۔ ترجمان گلگت بلتستان نے شرکا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ان واقعات پر نامعلوم افراد کے خلاف 6 مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اسکولوں کو جلانے کے واقع میں وہی نیٹ ورک ملوث ہے جس نے 2003 میں اسکولوں پر حملے کیے تھے۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز گلگت بلتسان میں نامعلوم شرپسندوں نے رات کے اندھیرے میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے قائم 12 درسگاہوں کو نذر آتش کردیا تھا۔ مقامی افراد کے مطابق چلاس شہر میں قائم لڑکیوں کے اسکول رونئی اور تکیہ میں شرپسندوں نے مبینہ طور پر دھماکے بھی کئے تھے۔
اس کے علاوہ ضلع دیامر کی تحصیل داریل میں قائم آرمی پبلک اسکول سمیت گیال گاؤں میں قائم لڑکیوں کے اسکول، تبوڑ میں 2 اسکول اور کھنبری میں قائم ایک اسکول کو بھی آگ لگائی گئی تھی۔
مقامی افراد کے مطابق چلاس کے علاقے دیامر میں تحصیل تانگیر میں جنگلوٹ میں قائم آرمی پبلک اسکول سمیت گلی بالا اور گلی پائین میں قائم لڑکیوں کے مزید2 اسکولوں کو بھی نذر آتش کیا گیا۔ اس ضمن میں موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق گلگت بلتستان کے علاقے چلاس میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے قائم کل 9 اسکولوں کو شرپسندوں نے نشانہ بنایا۔
لڑکیوں کے اسکولوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات سامنے آنے کے بعد مقامی پولیس نے علاقے میں شرپسندوں کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن کا آغاز کردیا تھا سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) دیامر روئے اجمل کے مطابق مقامی افراد نے چلاس میں 12 اسکولوں کو نذر آتش کرنے کی اطلاع دی تھی، جس کے بعد تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔ تاہم اب سپریم کورٹ نے تعلیم دشمن عناصر کی مذموم کارروائی پر از خود نوٹس لے کر متعلقہ حکام کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی ہے۔