پاکستان اور بنگلہ دیش میں 80 فیصد کمپیوٹر سافٹ ویئرچوری شدہ

  • August 26, 2017 6:52 pm PST
taleemizavia single page

ویب ڈیسک

کاپی رائٹس کا مسئلہ عالمی سطح پر اس جدید دور کا بڑا چیلنج ہے، کاپی رائٹس کی روک تھام کے حوالے سے اقدامات کے باوجود سن دو ہزار پندرہ میں ایشیاء پیسیفک ریجن میں ساٹھ فیصد غیر لائسنس اور چوری شدہ سافٹ ویئر استعمال ہو رہے ہیں۔


ایپل، مائیکرو سافٹ، انٹل، اوریکل اور اڈوب جیسی کمپنیوں پر مشتمل، ’دی سافٹ وئیر الائنس‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس ایشیا میں زير استعمال غیر لائسنس شدہ سافٹ وئیر کی ماليت 19.1 ارب ڈالر تھی۔

چوری شدہ سافٹ وئیر کا سب سے زیادہ استعمال بنگلہ دیش ، پاکستان اور انڈونیشیا میں ہے جہاں 80 فیصد سافٹ وئیر غیر لائسنس شدہ ہے۔

عالمی سطح پر اوسطً 40 فیصد سافٹ وئیر چوری شدہ ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر چوری شدہ سافٹ وئیر کے استعمال میں پچھلے دو برس کے دوران چار فیصد کمی آئی ہے لیکن اس کے مقابلے میں ايشا میں صرف ايک فیصد کمی آئی ہے۔

اس سافٹ وئیر الائنس کے ایشیا پیسیفک خطے کے سینئر ڈائریکٹر ٹارون ساونی کی رائے میں اس مسئلے کے حل کے لیے مزید اقدامات درکار ہيں، خصوصاً بینکنگ سیکٹر میں۔ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا۔

گزشتہ دو برسوں میں چوری شدہ سافٹ ویئر کے استعمال میں کمی آئی ہے لیکن ترقی پذیر ممالک میں اب بھی پائیریٹڈ سافٹ ويئر کا استعمال بہت زیادہ ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بہت سے کاروبار سائبر سکیورٹی کی پرواہ نہیں کرتے اور غیر لائسنس شدہ سافٹ ویئر کے استعمال کے حوالے سے بھی ان کا رویہ غیر ذمہ دارانہ ہے۔

اس کے علاوہ اس رپورٹ ميں شامل ایک پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ بینکنگ، انشورنس اور سکیورٹی انڈسٹری میں 25 فیصد چوری شدہ سافٹ وئیر استعمال ہو رہا ہے۔


اس رپورٹ کے لیے کيے جانے والے سروے ميں 22000 کمپیوٹر صارفین اور 2000 انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کو شامل کيا گيا تھا۔