میڈیکل انٹری ٹیسٹ: نصاب میں تبدیلی طلباء کیلئے ذہنی اذیت

  • October 20, 2020 6:37 pm PST
taleemizavia single page

تابندہ کوکب

آج بھی جب کسی بچے سے پوچھا جاتا ہے ’بیٹا بڑے ہو کر کیا بنو گے؟‘ تو اکثر کا جواب ہوتا ہے ’ڈاکٹر‘۔ اب چاہے وہ بڑے ہو کر کچھ بھی بن جائیں لیکن یہ گویا ہمارا قومی جواب ہے۔

لیکن آج کل پاکستان کے یہی بچے جو اپنے اس خواب کی تعیبر کے لیے کئی ماہ سے دن رات محنت کر رہے ہیں کافی پریشان ہیں کیونکہ میڈکل کالج میں داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ ان کے لیے درد سر بن گیا ہے۔

پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کے قانون کے مطابق رواں برس پہلی بار پورے ملک میں طلبہ ایک ہی انٹری ٹیسٹ دیں گے۔ قانون کے مطابق سب کو ایک ہی نصاب کے تحت یہ امتحان دینا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آج تک ہر صوبے اور ہر ادارے کا نصاب الگ رہا ہے۔

سونے پر سہاگہ پی ایم سی نے امتحانات کے لیے 15 نومبر کی تاریخ کا اعلان تو کر دیا لیکن نصاب اب جاری کیا ہے جب امتحانات میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ طلبہ کو ڈر ہے کہ وہ چھ ماہ سے جو پڑھ رہے ہیں اگر امتحان میں اس میں سے کچھ بھی نہ آیا تو ان کا مستبقل داؤ پر لگ جائے گا۔

پی ایم سی کے نصاب کے حوالے سے بیانات

پی ایم سی نے پانچ اکتوبر کو ایک بیان جاری کیا جس میں دیگر اطلاعات کے ساتھ طلبہ سے یہ بھی کہا گیا کہ میڈیکل کے انٹری ٹیسٹ کے لیے نمز یعنی نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز امتحانات کا انعقاد کرے گی اور تمام طلبہ نمز کی جانب سے جاری کیے گئے نصاب کے تحت تیاری کریں۔

اس فیصلے پر تمام صوبوں سے ردعمل آیا جس کی وجہ نصاب میں عنوانات کا ممکنہ فرق تھا۔ اس کے بعد پی ایم سی نے سات اکتوبر کو اعلان کیا کہ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج داخلہ ٹیسٹ کے لیے کوئی ایسا حصہ یا موضوع شامل نہیں کیا جائے گا جو صوبائی سطح پر موجود نصاب سے الگ یا اضافی ہو۔

پی ایم سی کے بیان میں واضح طور پر زور دے کر کہا گیا کہ ان امتحانات کے لیے رواں برس کوئی نیا نصاب جاری نہیں کیا جائے گا۔ تاہم بعد میں جو نصاب جاری کیا گیا اس پر طلبہ نے ناراضی کا اظہار کیا۔ ان کے بقول یہ نصاب دراصل نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کا ہی نصاب ہے جسے نقل کیا گیا ہے۔

بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ حکومت کی جانب سے پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم کو بین الاقوامی معیار پر لانے کی کوشش میں پی ایم سی کے اندر ’سیاسی بنیادوں پر تعیناتیاں کی گئی ہیں‘ اور جلدی میں بنا سوچے سمجھے ایسے فیصلے کیے جا رہے ہیں جنھیں بار بار تبدیل کیا جا رہا ہے جو طلبا کے لیے ذہنی اذیت کا سبب بن رہے ہیں۔

پی ایم سی کا نصاب کے بارے میں کیا کہنا ہے؟

پی ایم سی کے صدر ارشد تقی کا کہنا ہے کہ وہ وہی کر رہے ہیں جو ان کے آنے سے پہلے بنائے گئے قانون میں کہا گیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میڈیکل کمیشن کے قانون کے مطابق مستقبل کے ڈاکٹروں سے داخلے کے امتحان سنٹرل ایڈمیشن ٹیسٹ کے تحت لیے جائیں گے۔ ان کے بقول اس سے پہلے چار سے پانچ یونیورسٹیاں یہ انٹری ٹیسٹ لیا کرتی تھیں۔

ارشد تقی کے بقول ’رواں برس وقت کی کمی کی وجہ سے پی ایم سی چونکہ خود انٹری ٹیسٹ کے لیے نصاب تیار نہیں کر سکتا تھا اس لیے انھوں نے نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز سے درخواست کی کہ وہ ان کے لیے نصاب تیار کریں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے تمام بورڈز اور یونیورسٹیز سے اپنے نمائندے بھیجنے کے لیے کہا تاکہ اس حوالے سے مشاورت کی جا سکے۔ تفصیلی مشاورت کے بعد تمام ادارے اور بورڈز کے نصاب کا مشترکہ مواد اس نصاب میں شامل کیا ہے۔‘

ان کے بقول ‘تمام اداروں نے تحریری طور پر یا اپنے نمائندے بھیج کر اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ یہ نصاب مناسب ہے اور اس میں کچھ بھی ایسا نہیں جو ان کے نصاب سے الگ ہو۔ ‘

پی ایم سی کے صدر کا کہنا تھا نمز نے ان کے کہنے پر ایک ’مثالی پرچہ ترتیب دیا ہے جو آن لائن شائع کر دیا گیا‘۔

وہ کہتے ہیں ‘اگر طلبہ کو اس میں بھی کوئی ایسا موضوع نظر آتا ہے جو ان کے نصاب میں نہیں تو وہ اس کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔`

ارشد تقی کا کہنا تھا ‘ابھی یہ سارا عمل مسلسل تبدیلی اور بہتری سے گزر رہا ہے اس لیے اگر کوئی مسائل سامنے آئے تو ہم اس کا دوبارہ جائزہ لیں گے۔‘

انھوں نے یقین دہانی کروائی کہ اب چونکہ طلبہ کے خدشات ان کے علم میں آ چکے ہیں اس لیے وہ اس معاملے میں معلومات طلب کریں گے۔

ارشد تقی نے تسلیم کیا کہ موجودہ صورتحال میں وہ طلبہ سے زیادہ ذہنی دباؤ میں ہیں۔ ان کے بقول کچھ تبدیلیاں ان کے اختیار سے بھی باہر ہیں۔ تاہم انھوں نے کہا کہ ‘یہ ہمارے بھی بچے ہیں۔ اس لیے وہ اُسی کی تیاری کریں جو انھوں نے پڑھا ہے اگر امتحان کچھ ایسا ویسا آیا تو اسے دیکھا جائے گا۔’

قانون ہے کیا؟

پی ایم سی کے صدر کا کہنا تھا کہ اگرچہ داخلے کے امتحان سنٹرل ایڈمیشن ٹیسٹ کے تحت لیے جائیں گے۔ تاہم سرکاری میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے صوبائی حکومتیں اپنی پالیسی بنا سکتی ہیں جس میں وہ سابقہ جماعتوں کے حاصل کردہ نمبرز اور کوٹہ کے تحت فیصلہ کرنے میں خود مختار ہیں۔

اس قانون کے تحت صوبے اس پالیسی کا اعلان کم از کم ایک سال پہلے کریں گے۔ جسے پی ایم سی میرٹ کے تحت جانچ کر اس کی توثیق کرے گا۔ اس پالیسی کو عام کیا جائے گا۔

تمام ادارے میڈیکل کی تعلیم کی فیس کے حوالے سے کم از کم تین ماہ پہلے تفیصلات بتائیں گے اور پی ایم سی اس کی بھی توثیق کرے گا۔

صرف رواں برس کے لیے چونکہ نجی اداروں نے اب تک پالیسی کا اعلان نہیں کیا تھا اس لیے ان کے داخلے پی ایم سی کے ذریعے کیے جائیں گے۔ اور یہ آن لائن پورٹل کے ذریعے ہوگا۔ اس سے تمام کالجز کے لیے ایک ہی پلیٹ فارم ہونے کی وجہ سے طلبہ کی ہر کالج میں الگ الگ جمع کروائی جانے والی فیس کی بچت ہو گی۔

سندھ حکومت کی جانب سے نصاب اور انٹری ٹیسٹ کے طریقہ کار پر اعتراض کے حوالے سے پی ایم سی کے صدر ارشد تقی کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت دو اعتراضات کے ساتھ عدالت گئی تھی جس کے بعد انھوں نے قانون کیا کہتا ہے اس سے متعلق ایک بیان بھی جاری کیا۔

ارشد تقی نے بتایا کہ نئے قانون کے مطابق میڈیکل کالج کے داخلے کے لیے طلبہ کا انٹری ٹیسٹ میں کم از کم 60 فیصد نمبرز لینا لازمی قرار دیا گیا ہے اور سندھ کا مؤقف ہے کہ اسے 33 فیصد کیا جائے۔ ان کا یہ مطالبہ عدالت کی جانب سے رد کیا جا چکا ہے۔

ان کے بقول دوسرا سندھ حکومت کا مؤقف تھا کہ وہ صوبے کے اندر اپنے انٹری ٹیسٹ خود لیں گے جس پر ہائی کورٹ نے حکمِ امتناع جاری کیا ہے اور سندھ حکومت کو عدالتی کارروائی تک امتحان لینے سے روک دیا ہے۔

ارشد تقی کے بقول قانون کے مطابق پاکستان میں ڈاکٹر بننے والے ہر طالب علم کے لیے اب پی ایم سی کے تحت امتحان دینا لازمی ہے۔

طلبہ میں مایوسی اور غصہ

سوشل میڈیا پھر تو پی ایم سی کے اس فیصلے کے بعد بھونچال سا آ گیا ہے۔ تمام طلبا و طالبات جو مہنیوں سے انٹری ٹیسٹ کی تیاریوں میں لگے تھے گویا شدید غصے میں پھٹ پڑے۔

پاکستان میں ٹوئٹر پر ’بائیکاٹ پی ایم سی سلیبس‘ ٹرینڈ کرتا رہا۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ پی ایم سی بار بار بیانات بدل کر انھیں ذہنی اذیت میں مبتلا کر رہا ہے۔

مریم شوکت نامی صارف کا کہنا تھا ‘ہمارا تعلیمی نظام طلبہ کے کریئر اور ذہنی صحت کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ اگر آپ لوگوں سے کچھ ہو نہیں سکتا تو پی ایم سی کو ختم کر دیں۔’

انھوں نے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ادارے کو ٹیگ کرتے ہوئے کہا کہ اس ‘معاملے کا نوٹس لیں ورنہ آپ ڈاکٹر نہیں ذہنی مریض پیدا کریں گے۔’

بشکریہ بی بی سی اُردو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *