ڈارون نے دو مسلمان سائنسدانوں سے نظریہ ارتقاء چوری کیا
- February 12, 2019 10:42 pm PST

رپورٹ: تعلیمی زاویہ
نظریۂ ارتقا انسان کی فکری تاریخ کے طاقتور ترین نظریات میں سے ایک ہے اور جتنا اس نے انسانی فکر پر اثرات ڈالے ہیں، شاید ہی کسی اور نظریے نے ڈالے ہوں۔
عام طور پر چارلز ڈارون کو اس نظریے کا بانی سمجھا جاتا ہے، لیکن حیاتیاتی ارتقا کا تصور ہزاروں برس پہلے موجود تھا۔
ڈارون کے نظریے کے بنیادی ستون دو ہیں، ‘نیچرل سیلیکشن’ یا قدرتی انتخاب اور ‘ڈیسینٹ ود ماڈی فیکیشن’ یا ترمیم کے ساتھ سلسلۂ نسب کا چلنا۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، ڈارون نے اس نظریے کو بنیاد فراہم کی، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ قدرتی انتخاب کا ذکر ڈارون سے ایک ہزار سال پہلے مسلمان مفکر جاحظ پیش کر چکے تھے جو ڈارون کے نظریے سے حیرت انگیز طور پر مشابہہ ہے۔
جاحظ کا پورا نام ابو عثمان عمرو بحرالکنانی البصری تھا اور وہ 776 عیسوی میں بصرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خاندان بےحد غریب تھا اور ان کے دادا ساربان تھے۔جاحظ خود بچپن میں بصرہ کی نہروں کے کنارے مچھلیاں بیچا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بدہیت تھے جس کی وجہ سے لوگ ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔
عربی لفظ جاحظ کا مطلب ایسا شخص ہے جس کے دیدے باہر کو نکلے ہوئے ہوں لیکن جاحظ نے ان رکاوٹوں کو آڑے نہیں آنے دیا اور تہیہ کر لیا کہ اپنے مخالفوں کو علم کی روشنی سے شکست دیں گے۔
اس مقصد کے لیے انھوں نے تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ خود لکھنے پڑھنے کے ساتھ ساتھ فارغ اوقات میں مختلف علمی محافل میں جا کر تقاریر اور مباحثے سنا کرتے تھے۔ اس زمانے میں معتزلہ فرقہ جڑ پکڑ رہا تھا اور ان کی محافل میں مذہبی مسائل، فلسفہ اور سائنس پر دھواں دھار بحثیں ہوا کرتی تھیں۔ جاحظ نے باقاعدگی سے ان محفلوں میں شرکت شروع کر دی جس سے انھیں اپنے نظریات وضع کرنے میں مدد ملی۔
یہ عباسی سلطنت کے عروج کا زمانہ تھا۔ عباسی خلیفہ ہارون الرشید اور مامون الرشید کا دور، کتب خانوں، علمی بحثوں، اور بیت الحکمہ کا دور۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا بھر سے علوم و فنون عربی زبان میں ترجمہ ہو رہے تھے، اور مسلم دنیا نت نئے نظریات سے روشناس ہو رہی تھی۔
مسلمانوں نے ابھی حال ہی میں چینیوں سے کاغذ بنانے کا کارآمد فن سیکھا تھا جس نے علم و دانش کے میدانوں میں انقلاب بپا کر دیا تھا۔ نوجوان حاحظ نے اس ماحول کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور مختلف و متنوع موضوعات پر ایک کے بعد ایک تصنیف پیش کرنا شروع کر دی۔
جلد ہی ان کی شہرت دور و نزدیک تک پہنچ گئی یہاں تک کہ خود عباسی خلیفہ مامون الرشید بھی ان کے قدردانوں میں شامل ہو گئے۔ بعد میں خلیفہ المتوکل نے انھیں اپنے بچوں کا استاد مقرر کر دیا۔
جاحظ نے سائنس، جغرافیہ، فلسفہ، صرف و نحو اور علم البیان جیسے کئی موضوعات پر قلم اٹھایا۔ اس زمانے میں لکھی گئی بعض فہرستوں میں ان کی کتابوں کی تعداد دو سو کے قریب بتائی گئی ہے، تاہم ان میں سے صرف ایک تہائی محفوظ رہ سکی ہیں۔
جاحظ کی ‘کتاب البخلاء’ (بخیلوں کی کتاب) نویں صدی کے عرب معاشرے کا زندہ مرقع ہے جس میں انھوں نے متعدد لوگوں کی جیتی جاگتی تصویریں پیش کی ہیں۔
جانوروں کا انسائیکلوپیڈیا
یوں تو جاحظ نے دو سو سے زائد کتابیں لکھیں، جن میں سے ارتقا کے سلسلے میں ‘کتاب الحیوان’ سب سے دلچسپ ہے۔ اس انسائیکلوپیڈیائی کتاب میں انھوں نے ساڑھے تین سو جانوروں کا احوال بیان کیا ہے۔ ویسا ہی احوال جو آج آپ کو وکی پیڈیا پر مل جاتا ہے۔
اسی کتاب میں جاحظ نے چند ایسے تصورات پیش کیے جو حیرت انگیز طور پر ڈارون کے نظریۂ ارتقا سے مشابہ ہیں۔ ان نظریات کو بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
بقا کی جدوجہد
جاحظ لکھتے ہیں کہ ہر جاندار ہر وقت بقا کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ جانور زندہ رہنے کے لیے خود سے چھوٹے جانوروں کو کھا جاتے ہیں، مگر خود بڑے جانوروں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ یہ جدوجہد نہ صرف جانوروں کی مختلف نسلوں کے درمیان پائی جاتی ہے بلکہ ایک ہی نسل کے جانور بھی ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں۔
جاحظ اس بات کے قائل تھے جانوروں کی ایک نسل مختلف عوامل کی وجہ سے دوسری نسل میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
ماحولیاتی عوامل کا اثر
جاحظ کا خیال تھا کہ خوراک، ماحول اور پناہ گاہ ایسے عوامل ہیں جو جانوروں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور انھی کے زیرِ اثر جانوروں کی خصوصیات بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔ یہ خصوصیات ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی رہتی ہیں اور جانور بتدریج اپنے ماحول میں زیادہ بہتر طریقے سے ڈھلنے لگتا ہے۔ اس طرح بہتر خصوصیات والے جانور بقا کی دوڑ میں کامیاب رہتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں: ‘جانور اپنی بقا کی مسلسل جدوجہد میں مگن ہیں اور وہ ہر وقت خوراک حاصل کرنے، کسی کی خوراک بننے سے بچنے، اور اپنی نسل آگے بڑھانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔’
یہ وہی نظریہ ہے جو بعد میں ‘بقائے اصلح’ (survival of the fittest) کہلایا۔
جاحظ کے ان خیالات کا اثر بعد میں آنے والے مسلمان مفکرین پر بھی ہوا، چنانچہ ہمیں ان کی بازگشت فارابی، ابن العربی، رومی، البیرونی، ابنِ خلدون اور دوسرے حکما کے ہاں ملتی ہے۔
علامہ اقبال نے بھی جاحظ کا ذکر کیا ہے۔ اپنے خطبات کے مجموعے ‘ری کنسٹرکشن آف ریلیجیئس تھاٹ ان اسلام’ (اسلامی مذہبی فکر کی تشکیلِ نو) میں لکھتے ہیں کہ ‘یہ جاحظ تھا جس نے نقلِ مکانی اور ماحول کی وجہ سے جانوروں کی زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔’
ارتقا کے بارے میں مسلمانوں کے یہ تصورات 19ویں صدی کے یورپ میں خاصے عام تھے۔ حتیٰ کہ ڈارون کے ایک ہم عصرجان ولیم ڈریپر نے 1878 میں نظریۂ ارتقا کو ‘محمڈن تھیوری آف ایوولوشن’ یعنی ‘مسلمانوں کا نظریۂ ارتقا’ سے موسوم کیا تھا۔
ڈارون نے جاحظ کے خیالات سے کتنا استفادہ کیا تھا اس پر ابھی شواہد جمع کرنا باقی ہیں، بعض ویب سائٹوں پر لکھا ہے کہ وہ عربی جانتے تھے.۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ارتقا کے نظریے کا موجد ڈارون نہیں ہے لیکن انھوں نے اپنے مشاہدات اور گہرے غور و فکر کے بعد اس نظریے کو ٹھوس عقلی اور استدلالی بنیاد فراہم کر دی جس نے دنیا کا فکری و علمی نقشہ ہمیشہ کے لیے بدل کے رکھ دیا۔
تاہم جاحظ کا یہ اعزاز ضرور ہے کہ جو بات 19ویں صدی میں ڈارون کو سوجھی، اس کی طرف وہ ایک ہزار سال قبل ہی اشارہ کر چکے تھے۔
علم و دانش اور کتابوں سے عشق جاحظ کی موت کا سبب بھی بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ 92 سال کی عمر میں شیلف سے ایک کتاب نکالتے ہوئے بھاری بھرکم شیلف ان کے اوپر آ گرا اور یوں اسلامی تاریخ کا یہ یکتا دانشور کتابوں ہی کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔
اسی طرح اپنی تصنیف اخلاق ِ ناصری “میں ، ناصر الدین طوسی نے ارتقاء کا ایک بنیادی نظریہ پیش کیا ہے۔
یہ چارلس ڈارون کی پیدا ئش سے تقریبا 6 سو سال پہلے کی بات ہے۔ وہ اپنے ارتقا ء کے نظریے کا آغاز اس خیال سے کرتے ہیں کہ کبھی کائنات برابر اور مماثل عناصر پر مشتمل تھی۔
طوسی کے مطابق بتدریج اندرونی تضادات ظاہر ہونے لگے اور نتیجتاً ، کچھ مادوں نے دوسروں کی نسبت سے تیزی سے اور مختلف طریقے سے نشونما پانا شروع کیا۔
اس کے بعد وہ عناصر سے معدنیات ، پھر پودوں ، پھر جانوروں ، اور اس کے بعد انسانوں تک کے ارتقائی عمل کی وضاحت کرتا ہے۔ طوسی پھر جانداروں کے حیاتیاتی ارتقاء میں موروثی تغیّر کی اہمیت بیان کرتا ہے۔
ناصر الدین طوسی کے مطابق” جوجاندار نئی خصوصیات تیز ی سے حاصل کر سکتے ہیں وہ زیادہ متغیر ہیں . نتیجتاً وہ دوسری مخلوق پہ سبقت لے جاتے ہیں ۔اندرونی اور بیرونی ماحولیاتی ہم آہنگی جسمانی ساخت میں تبدیلی کا باعث ہیں۔
چھ سال پہلے دو ہزار تیرہ میں گوگل نے ناصر الدین طوسی کی آٹھ سو تیرہوویں برسی کے موقع پر اپنا ڈوڈل اُن کے نام کیا تھا۔
آزربائیجان کی حکومت نے دو ہزار نو میں طوسی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا جسے بہت سراہا گیا۔
ناصر الدین طوسی ایک ایرانی جید عالم اور کثیرالتصانیف مصنف تھے ۔ وہ تعمیرات، فلکیات اورحیاتیات کے ماہر تھے۔ وہ کیمیا دان ،ریاضی دان ، فلسفی ، طبیب ، ماہر طبیعیات ، سائنس دان ماہرِ الٰہیات اور مرجع تقلید بھی تھے۔
ان کا تعلق اسماعیلی فرقے اور بعد ازیں اسلامی عقیدے کے اثنا عشریہ شیعہ مسلک سے تھا۔ مسلمان عالم ابن خلدون(1332-1406) کی نظر میں طوسی بعد میں آنے والے ایرانی علماء کرام میں سب سے بڑا عالم تھا۔
طوسی کی قریباً ڈیڑھ سو تصانیف ہیں جن میں سے پچیس فارسی میں اور باقی عربی میں ہیں۔ فارسی ، عربی اور ترکی زبان میں ایک رسالہ بھی ہے۔
نیشاپور میں اپنے قیام کے دوران ، طوسی نے ایک غیر معمولی عالم کے طور پر ساکھ قائم کی۔ طوسی کی نثری تحریروں کا مجموعہ کسی بھی اسلامی مصنف کی تحریروں کے مجموعات میں سب سے بڑا مجموعہ ہے۔
انہوں نے عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں لکھا ۔ ناصر الدین طوسی نے مذہبی ( ” اسلامی “) موضوعات اور غیر مذہبی یا لادینی مضامین ( ” قدیم علوم “) دونوں پر لکھا ہے۔
ان کی تصانیف میں اقلیدس ، آرشمیدس ، بطلیموس ، آٹولیکس اور بیت عنیاہ کے تھیوڈو سس کے کاموں کے حتمی عربی نسخے بھی شامل ہیں۔
طوسی جانداروں کی ماحول سے مطابقت کی صلاحیت کو بیان کرتا ہے کہ” جانوروں اور پرندوں کی دنیا پر نظر ڈالیں تو ان کے پاس وہ سب ہے جو دفاع ، تحفظ اور روز مرہ زندگی کے لیے ضروری ہے۔
ان کے پاس طاقت ، ہمت اور مناسب اوزار [ اعضاء ] موجود ہیں ۔ ان میں سے کچھ اعضاء حقیقت میں ہتھیار ہیں ۔
مثلاً سینگوں کی شکل میں نیزہ ، دانت اور پنجوں کی شکل میں چاقو اور سوئیاں ہیں اور پاؤں اور کھروں کی شکل میں لاٹھی موجود ہے۔
بعض جانوروں کے کانٹے اور سوئیاں تیر کی طرح ہیں۔ جانور جن کے پاس حفاظت کے دوسرے ذرائع موجود نہیں ہیں۔
مثلاً ہرن اور لومڑی وہ پرواز اور چالاکی کی مدد سے خود کو محفوظ رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ، مثال کے طور پر ، شہد کی مکھیاں ، چونٹیاں اور کچھ پرندوں کی انواع اپنی حفاظت کے لیے گروہوں میں متحد ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
طوسی نے جانداروں کی تین اقسام شناخت کی ؛ پودے ، جانور اور انسان ۔
طوسی نے لکھا ہے کہ” جانور پودوں سے برتر ہیں کیونکہ وہ شعوری طور پر حرکت کرنے، خوراک کے پیچھے جانے، تلاش کرنے اور مفید اشیا ء کھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
جانوروں اور پودوں کی انواع ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں ۔ اوّلاً جانورپودوں سے زیادہ پیچیدہ ہیں ۔
مزید برآں عقل جانوروں کی سب سے فائدہ مند خصوصیت ہے۔ عقل کی وجہ سے وہ نئی چیزیں سیکھ سکتے ہیں اور جدید غیر موروثی صلاحیتیں اپنا سکتے ہیں۔
مثلاً ایک سدھایا ہوا گھوڑا یا شکاری باز حیوانوں کی دنیا میں ارتقا کے برتر مرحلے پر ہیں۔ انسانی کمال کا پہلا قدم یہاں سے شروع ہوتا ہے۔
پھر طوسی ترقی یافتہ جانوروں سے انسانوں تک کے ارتقائی عمل کی توضیح پیش کرتا ہے. ایسے انسان (غالباً آدم نما بندر ] مغربی سوڈان اور دنیا کے دیگر دور دراز کونوں میں رہائش پذیر ہیں۔
وہ اپنی عادات ، اعمال اور برتاؤ میں جانوروں کے قریب تر ہیں۔ انسانوں میں ایسی خصوصیات ہیں جو اسے دیگر مخلوق سے ممتاز کرتی ہیں۔ ان میں ایسی خصوصیات بھی ہیں جو اسے حیوانوں ، سبزیوں اور حتیٰ کہ بے جان اشیا ء سے مماثل قرا ر دیتی ہیں انسانوں کی خلقت سے قبل ، جانداروں کے درمیان اختلافات قدرتی بنیاد پر تھے۔
اگلا قدم روحانی کمال ،ارادے ، مشاہدے اور علم کے ساتھ منسلک ہو گا۔ ان تمام حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان ارتقائی سیڑھی کے وسطی قدم پر رکھا جاتا ہے ۔ اپنی موروثی فطرت کے مطابق ، انسان نچلے درجے کی مخلوق سے تعلق رکھتا ہے ، اور صرف اپنی قوت ِ ارادی کی مدد سے وہ اعلی ارتقائی سطح تک پہنچ سکتا ہے ۔