طویل غیر حاضری پر 2 ہزار اساتذہ نوکریوں سے نکالنے کا حکم
- May 11, 2024 10:32 pm PST
کوئٹہ: غضنفر بگٹی
وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز احمد بگٹی نے طویل غیر حاضری پر 2 ہزار اساتذہ کو فارغ کرنے اور محکمہ تعلیم میں خالی آسامیاں کنٹریکٹ پر پر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ فیصلہ محکمہ تعلیم کے اجلاس میں اساتذہ کی غیر حاضری، غیر فعال اسکولوں اور تعلیمی عملے کی کمی سمیت کئی مسائل پر بات چیت کے دوران کیا گیا۔
اجلاس میں چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان، ایڈیشنل چیف سیکرٹری (ترقیات و منصوبہ بندی) عبدالصبور کاکڑ، وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری عمران زرکون اور دیگر حکام نے شرکت کی۔
وزیراعلیٰ بگٹی نے اساتذہ کی غیر حاضری پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ملازمت سے برطرف کرنے کا فیصلہ کیا۔ وزیراعلیٰ نے محکمہ تعلیم کو غیر ضروری مداخلت سے نجات دلانے کا عزم کیا۔
انہوں نے چیف سیکرٹری کو دو ماہ میں برطرفی کا عمل مکمل کرنے کا حکم دیا۔
اجلاس میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے سکولوں میں بائیو میٹرک سسٹم لگانے کا فیصلہ بھی کیا گیا اور اس نظام کو فعال بنانے کی ذمہ داری تعلیمی ادارے کے سربراہ کی ہو گی۔ حکام نے وزیراعلیٰ کو بتایا کہ بائیو میٹرک سسٹم کا ایک پائلٹ پروجیکٹ ابتدائی طور پر ڈیرہ بگٹی اور موسیٰ خیل میں شروع کیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ نے افسران کو ہدایت کی کہ وہ اساتذہ کا احتساب کرنے کے لیے ضلعی تعلیمی بورڈز میں بلدیاتی نمائندوں کو شامل کریں۔ انہوں نے کہا کہ معیاری تعلیم نسلوں کے روشن مستقبل کے لیے اہم ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ محکمہ تعلیم کو ہر قسم کی غیر ضروری مداخلت سے نجات دلائیں گے اور تقرریاں کسی سیاسی دباؤ کے بغیر میرٹ پر کی جائیں گی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ وہ تعلیمی اداروں کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے بلوچستان کے دور دراز علاقوں کا اچانک دورہ کریں گے اور اگر اساتذہ غیر حاضر پائے گئے تو کسی قسم کی نرمی نہیں برتی جائے گی۔
غیر فعال اسکولوں کے معاملے پر، سی ایم بگٹی نے کہا کہ یہ مسئلہ اہم ہے۔ غیر فعال اسکول صرف وہ نہیں ہیں جہاں اساتذہ، معاون عملہ یا طلباء غیر حاضر ہیں، بلکہ ایسے اسکول بھی ہیں جہاں عمارتیں بااثر افراد نجی مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں، وزیراعلیٰ نے وضاحت کی۔
وزیر اعلیٰ بگٹی نے کہا کہ وہ اپنی مدت کے دوران تمام مسائل حل کرنے کا دعویٰ نہیں کریں گے لیکن تعلیم کے شعبے کے لیے “کم از کم درست سمت کا تعین کریں گے”۔
سیکرٹری تعلیم صالح محمد نصیر نے اجلاس کو بتایا کہ بلوچستان میں 80,000 سے زائد سرکاری اساتذہ، 7,000 سے زیادہ سنگل روم اسکول اور 3,300 کے قریب غیر فعال اسکول ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت ایک بچے کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے ہر ماہ 5,625 روپے خرچ کر رہی ہے، لیکن اس رقم کے اچھے نتائج نہیں نکل رہے ہیں۔ تعلیم کے شعبے پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود سکول نہ جانے والے بچوں، گھوسٹ ٹیچرز اور غیر فعال سکولوں کے اعدادوشمار ایک بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں۔
محکمہ تعلیم کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اساتذہ کی کمی کی وجہ سے پچھلے دو مہینوں کے دوران تقریباً 3500 سکول بند ہو چکے ہیں۔ “صوبائی محکمہ تعلیم کو عملے کی شدید کمی کا سامنا ہے اور سیاسی اور محکمانہ مجبوریوں کی وجہ سے 2019 سے اساتذہ کی بھرتی کرنے سے قاصر ہے۔