ہنزہ میں شرح تعلیم کیسے سو فیصد کے قریب پہنچی؟

  • November 30, 2016 7:28 pm PST
taleemizavia single page

ازکیٰ ضیاء

وادیء ہنزہ کا شمار دنیا کی خوبصورت ترین وادیوں میں کیا جاتا ہے۔ ہر سال لاکھوں سیاح یہاں سیر و تفریح اور سیاحت کی غرض سے آتے ہیں۔ نہ صرف یہاں کے بلند و بالا پہاڑ، سر سبز وادیاں اور پھلوں سے لدے باغات توجہ کا مرکز ہیں بلکہ یہاں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح تعلیم بھی ایک قابلِ توجہ امر ہے۔

حیران کن طور پرپاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت ہنرہ کی مجموعی شرح تعلیم 95 فیصد ہے۔ محض چند دہائیاں پیچھے چلے جائیں تو یہاں کی اکثریت ان پڑھ تھی اور تعلیم کا رواج عام نہیں تھا۔

تقسیمِ ہند سے قبل یہ علاقہ کشمیر کے خطے میں شامل تھا اور یہاں کی شرح تعلیم دو فیصد سے بھی کم تھی۔ اس علاقے میں سب سے پہلے ہندوستان کی برطانوی حکومت نے 1892 ء میں سکول قائم کیا جو جاگیرداروں اور امراء کے لیے تھا۔

عام طبقے میں سکول کی تعلیم کا کوئی تصور ہی نہ تھا۔ پہلا مقامی سکول 1912 میں بنایا گیا لیکن اس وقت تک بھی تعلیم کا حصول مخصوص طبقے تک محدود تھا۔

رسمی تعلیم کی توسیع کے لیے پہلا قدم سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم کے دور میں ہوا اور تعلیم عام عوام کے لیے بھی قابلِ رسا ئی ہو گئی۔ 1946 ء میں سر آغا خان کی رہنمائی اور مالی امداد سے سولہ “ڈائمنڈ جوبلی ” سکول قائم کیے گئے اور ہنزہ میں سکولوں کی کل تعداد ایک سے بڑھ کر سترہ ہو گئی۔

سکولوں کی مقامی دستیابی اور مالی طبقے یا خاندانی پس منظر سے قطع نظر تعلیم کا رحجان، دو ایسے عوامل تھے جنہوں نے وادیء ہنزہ میں تعلیمی شرح کو بڑھانے میں مدد دی۔

1947 ء میں برطانوی راج کے خاتمے کے بعد یہ علاقہ پاکستان کا حصہ بن گیا۔ کشمیر کے متنازعہ علاقے کاحصہ ہونے کے باعث یہ علاقہ سیاسی توجہ کا حامل بھی تھا۔ لہٰذا حکومت نے بھی یہاں ترقیاتی منصوبہ جات شروع کیے۔

یہ بھی پڑھیں؛ پنجاب کے بھٹہ سکول بمقابلہ لاہور نالج پارک

اکتوبر 1960 میں شاہ کریم الحسینی آغا خان چہارم نے وادیء ہنزہ کا دورہ کیا اور لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیتے ہوئے یہاں “ڈائمنڈ جوبلی” سکولوں کی تنظیم ِ نو کی اور لڑکیوں کی تعلیم کو مرکزِ توجہ رکھا گیا۔ تعلیمی اداروں کی دستیابی کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم کا رحجان بڑھا ۔ 1997 میں لڑکیوں کے داخلے 38 فیصد تھے اور 2005 کے اعدادو شمار کے مطابق لڑکیوں کے داخلے 67 فیصد تک بڑھے۔

وادیء ہنزہ میں تعلیم کی شرح بڑھانے میں ایک اہم کردار 1991ء میں قائم ہونے والے “کیمونٹی سکولوں” نے بھی ادا کیا۔ سرکاری سکولوں میں فراہم کی جانے والی تعلیم کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں نے کیمونٹی سکولوں کا آغاز کیا۔

گلمیت گوجال میں واقع “الامین” سکول یہاں کا سب سے پہلا کیمونٹی سکول تھا۔ مقامی اسماعیلی کیمونٹی کے سربراہ محمد ابراہیم کہتے ہیں کہ ” ہم سب نے مل کر کیمونٹی سکولوں کا آغاز کیا جو ایسے طالب علم پیدا کریں جن میں جدید دنیا کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت موجود ہو”۔

جلد ہی کیمونٹی سکولوں کی تعداد سرکاری سکولوں سے زیادہ ہو گئی اور اس کی بنیادی وجہ یہاں کا بلند معیارِ تعلیم تھا۔

اکیسویں صدی کے آغاز میں بہت سے تعلیمی منصوبے تیار کیے گئے جن کا مقصد تعلیم کے مواقع کو بہتر بنانا تھا خصوصاً غریب خاندانوں کے لیے بہتر تعلیم کی فراہمی بنیادی مقصد تھا۔1993 ء اور 2003 ء کے درمیان سوشل ایکشن پروگرام ایس اے پی کے تحت ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر بین الاقوامی امدادی اداروں کے تعاون سے قریباً 540 مخلوط تعلیمی ادارے قائم کیے گئے۔

تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود دیگر مسائل کی وجہ سے یہ ادارے بہت اعلیٰ معیار کے تو نہیں تھےلیکن ان اداروں کے قیام کی وجہ سے تعلیم کا رحجان عام ہونے میں کافی مدد ملی اور بچوں کے داخلے بھی بڑھے۔ مقامی لوگوں نے زندگی میں تعلیم کی ناگزیر اہمیت کو پہچانا اور والدین کو احساس ہوا کہ اپنے بچوں کے لیے بہترین کام جو وہ کر سکتے ہیں وہ انہیں زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں؛ سی ایس ایس میں 98 فیصد اُمیدوار کیوں فیل ہوئے؟

ہنزہ پبلک سکول کے پرنسپل مہرابان کریم کا کہنا ہے کہ”ہنزہ کے مقامیوں کے لیے تعلیم زندگی کی پہلی ترجیح ہے اور اس کے لیے وہ کچھ بھی فروخت کرنے کو تیار ہیں۔ وہ گھاس کھانے پر بھی راضی ہوتے ہیں لیکن اپنی اولاد کی تعلیم پرسمجھوتہ نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ چند ہی سالوں کی محنت سے ہماری شرح تعلیم 95 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ ”

قراقرم انٹرنیشل یونیورسٹی کے قیام سے اعلیٰ تعلیم کے مسائل میں بھی کمی آئی جسے 2002 میں قائم کیا گیا۔ یہ یونیورسٹی قریباً دو ہراز طلبہ کو بیچلرز اور ماسٹرز کی تعلیم فراہم کرتی ہے۔ یہاں علاقائی سماجی و اقتصادی ترقی سے متعلقہ مضامین پڑھائے جاتے ہیں تا کہ خطے کی ترقی میں مدد کی جا سکے۔

چونکہ وادی چین کی سرحد کے ساتھ واقع ہے اسی لیے حال ہی میں چینی زبان کا کورس شروع کر نے کی منصوبہ بندی بھی کی گئی تا کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان روابط بڑھائے جا سکیں ۔

پاکستان کے دیگر دیہی علاقوں کی نسبت گلگت بلتستان کے کچھ حصوں میں تعلیمی ترقی میں بہت تیزی سے اور کامیابی سے پیش رفت دیکھی جا سکتی ہے۔ تعلیمِ عام ہونے کی وجہ سے لوگوں میں شعور پیدا ہوا ہے اور یہ خصوصیت ہنزہ کو دوسرے شمالی علاقوں سے ممتاز کرتی ہے۔

یہاں کے مقامی اپنی بیٹیوں کی تعلیم پر بھی بھرپور توجہ دیتے ہیں۔ ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ ایجوکیشن ضلع ہنزہ نگر محمد حسن نے کہا کہ” ایک عورت کی تعلیم سے پورا معاشرہ تعلیم یافتہ ہو تا ہے اس کی نسبت ایک مرد کی تعلیم فرد واحد کے لئے ہوتی ہے۔ الحمد اللہ ضلع ہنزہ میں شرح تعلیم 98 فی صد ہے۔ جو کہ گلگت بلتستان کے دوسرے اضلاع کے لیے مثال ہے۔

یہ بھی پڑھیں؛ پاکستان کی اشرافیہ اور تعلیم کا حاکمیتی ماڈل

یقیناً وادی ء ہنزہ پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہے کہ کس طرح معاشرے میں تعلیم کی شرح بلند کی جا سکتی ہے۔ حکمران طبقات بالخصوص قومی سطح کی سیاسی جماعتوں کے منشور میں تعلیم ترجیح تو ہوتی ہے لیکن الیکشن جیتنے کے بعد اس کا اطلاق محدود پیمانے پر ہوتا ہے جس کی وجہ سے مطلوبہ تعلیمی اہداف حاصل نہیں ہوتے۔

پاکستان کو اس وقت ملینیئم ڈویلپمنٹ گول کے تحت پرائمری تعلیم کی شرح سو فیصد کرنے کا ہدف پورا نہ ہونے پرشدید چیلنجز کا سامنا ہے اور یہ چیلنج کسی ایک صوبے تک محدود نہیں ہے بلکہ پورا پاکستان ہی اس کی لپیٹ میں ہے۔ یہ ہدف پورا نہ ہونے پر ملک میں چائلڈ لیبر کی شرح پر بھی قابو نہیں پایا جاسکا۔

ہنزہ میں شرح تعلیم پاکستان کے تمام صوبوں کے مقابلے پر کم و بیش چالیس فیصد زائد ہے اور یہ صرف اس لیے ہے کہ وہ وہاں کی مقامی آبادی کا انتہائی مثبت کردار ہےاور تعلیم معاشرے کے بہت سے مسائل کے خاتمے کا باعث ہے۔


azkaa

ازکیٰ ضیاء یقین رکھتی ہیں کہ اکیسوویں صدی میں معاشی قوت کی بنیاد تعلیم ہی ہے۔ وہ ادب و فنون لطیفہ کے ساتھ تاریخ کے مطالعہ میں دلچسپی رکھتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *