امریکا، پاکستان کو کیسے ڈیل کرے؟
- April 25, 2022 12:07 am PST
مترجم: اکمل سومرو
عرض مترجم
پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات تقسیم ہند کے وقت سے ہی تزویراتی بنیادوں پر طے کیے گئے تھے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان، امریکی پالیسیوں کا مرکزہ رہا ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہد میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے تعلقات افغان تنازعہ کی بناء پر اُتار چڑھاؤ کا شکار ہوئے، بالآخر یہ کشیدگی ختم ہوئی اور افغان جنگ کے خاتمہ کیلئے امریکا نے پاکستان کو کردار سونپا۔ امریکی و نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلاء کے دوران بھی بعض امور طے نہ ہونے کی بناء پر، واشنگٹن کے اسلام آباد کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہی رہے اور سابق وزیر اعظم عمران کو امریکی صدر نے کولڈ شولڈر دکھائے۔ رد عمل میں عمران خان نے امریکی صدر جوبائیڈن کی ڈیموکریسی سمٹ میں شرکت سے انکار کر دیا، امریکا نے جواباً پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر رپورٹ شائع کر دی۔ اب عمران خان کی حکومت کے خاتمہ پر، امریکا کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کی جانب راغب کیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں امریکی سی آئی اے کے سابق عہدیدار بروس رائیڈل نے تازہ مضمون شائع کیا ہے جس کا بنیادی عنوان ہے کہ جوبائیڈن انتظامیہ نئے وزیر اعظم شہباز شریف سے کیوں مذاکرات کرے؟
چیدہ چیدہ نکات: پاکستانی فوج کو مضبوط کرنے کی امریکی پالیسی نے جمہوری حکومتوں کو ہمیشہ کمزور کیا
امریکی مشن کو مکمل کرانے میں کراچی بندرگاہ کا ہمیشہ تاریخی کردار رہا ہے
امریکا پاکستان کے از سر نو تعلقات کی تشکیل کیلئے شہباز شریف موزوں ہیں
شہباز شریف اینٹی امریکا تصورات کے قائل نہیں ہیں
پاکستان کو سی پیک کے مقابلے پر امریکا نیا اقتصادی منصوبہ دے
آئی ایس آئی پاکستان اور فوج کے ساتھ امریکی شراکت داری نے سول ملٹری توازن کو ہمیشہ غیر مستحکم کیا
جنرل باجوہ اور شہباز شریف امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات کے داعین ہیں، اس سے امریکا فائدہ اٹھائے اور شہباز شریف کو وائٹ ہاؤس مدعو کرے
بروس رائیڈل کا بروکنگ انسٹیٹیوٹ میں تازہ شائع شدہ مضمون ملاحظہ کیجئے:
افغانستان میں امریکی مداخلت کا خاتمہ اور پاکستان میں قیادت کی تبدیلی نے امریکہ کو دنیا کے پانچویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے ساتھ اپنے طویل عرصے سے غیر مستحکم تعلقات کو دوبارہ بحال کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ صدر جو بائیڈن کو نئے وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ اعلیٰ سطحی بات چیت شروع کرنی چاہیے، جو اگلے انتخابات سے قبل ایک سال تک اقتدار میں رہیں گے۔
گزشتہ 40 برسوں سے افغان جنگ کے دوران، پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی ہمارے مفادات کے گرد گھومتی رہی ہے ۔ 1980 کی دہائی میں، ہم نے فوجی آمر ضیاء الحق کے ساتھ مل کر افغان مجاہدین کو سوویت یونین کے خلاف مسلح کیا ۔ پھر ہم نے القاعدہ اور طالبان سے لڑنے کے لیے پاکستانی تعاون طلب کیا۔ افغانستان میں ہمارے افغان اتحادیوں اور نیٹو افواج کو رسد پہنچانے کے لیے دونوں جنگوں میں کراچی بندرگاہ انتہائی اہم تھی۔ ان جنگوں میں کامیابی واشنگٹن کی اولین ترجیح تھی۔
کیونکہ ہماری پالیسی افغانستان میں جنگ لڑنے پر مرکوز تھی، اس لیے پاکستان میں امریکا کے بنیادی شراکت دار آئی ایس آئی اور فوج تھی اور امریکا نے سویلین حکومت کی طرف کم توجہ دی۔ امریکا کی اس پالیسی نے غیر ارادی طور پر پاکستان میں ہمیشہ سول ملٹری توازن کو غیر مستحکم کرنے میں مدد کی، سویلین حکومتوں کی قیمت پر پاکستانی فوج کو تقویت دی گئی۔
گزشتہ اگست میں افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء نے بنیادی طور پر 243 ملین آبادی کے اس اہم جوہری ہتھیاروں سے لیس مسلم ملک کے بارے میں امریکی پالیسی کو آزاد کر دیا ہے۔ اب واشنگٹن ہندوستان اور چین کے ساتھ علاقائی استحکام، جنوبی ایشیا میں ترقی کی حوصلہ افزائی اور پاکستان میں منتخب جمہوری قوتوں کی مضبوطی کی حمایت میں، ہمارے وسیع تر مفادات کی قیمت پر افغانستان کے مسائل کو ترجیح دیے بغیر اسلام آباد کے ساتھ بات چیت کر سکتا ہے۔ امریکہ کو اسلام آباد میں فیصلہ سازی پر پاکستان کے قریبی اتحادی چین کے اثر و رسوخ کو کسی حد تک متوازن کرنے میں بھی دلچسپی ہے۔
خاص طور پر وائٹ ہاؤس اور بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان کو آج تک نسبتاً کم رسپانس دیا ہے۔ افغان جنگ کے خاتمہ اور طالبان کے قبضہ اور اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی امریکا پر کھلے عام تنقید کے بعد، انڈو پیسیفک میں چین کے ساتھ اس کے تعلقات کی بناء پر پاکستان ہماری ترجیحی فہرست میں شامل نہیں ہے اور اب پاکستان روس کی یوکرین کے خلاف جنگ میں مرکوز ہے۔
امریکی صدر بائیڈن نے عمران خان کو فون تک نہیں کیا جب وہ وزیراعظم تھے حالانکہ ہم نے گذشتہ خزاں میں بھی بحث کی تھی کہ بائیڈن کو عمران خان سے رابطہ کرنا چاہیے تھا۔ عمران خان نے اس رد عمل میں بائیڈن کی منعقد کردہ ڈیموکریسی سمٹ میں شرکت سے انکار کر دیا۔ وائٹ ہاؤس اب شہباز شریف کو بلائے۔ شہباز شریف پاکستان کے سب سے بڑے اور خوشحال صوبے پنجاب کے تین بار کے سابق وزیر اعلیٰ اور تین بار کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بھائی ہیں۔ عمران خان کے شریفوں پر بدعنوانی کے الزامات ہیں ، لیکن وہ پاکستان کے بنیادی ڈھانچے اور معیشت کو ترقی دینے کے خواہشمند عملی آدمی بھی ہیں۔ (ہم میں سے ایک، بروس، انہیں 30 سال سے زیادہ عرصے سے جانتا ہے۔) انہوں نے عام طور پر غیر ملکی مہم جوئی اور ہندوستان کے ساتھ تنازعات سے پرہیز کیا ہے۔ 1999ء میں کارگل میں فوجی آپریشن کی مخالفت ہی نواز شریف حکومت کا تختہ الٹنے کا باعث بنی۔
دوسری طرف عمران خان ایک نظریاتی ہیں۔ اس نے اقتدار میں اپنے عروج کے ساتھ ساتھ اپنے حالیہ زوال دونوں میں امریکہ مخالف بیان بازی پر انحصار کیا، اس موسم بہار میں پاکستانی سیاست میں مبینہ امریکی مداخلت کی مذمت کرتے ہوئے پہلے اقتدار میں رہنے کی کوشش کی اور اب وہ دوبارہ اقتدار میں آنے کی کوشش کر رہا ہے۔ عمران خان القاعدہ اور طالبان کے خلاف امریکی کارروائیوں کے سخت ناقد رہے ہیں۔
بدقسمتی سے، پاکستانی طالبان کی طرف سے افغان طالبان کی حمایت کے خطرے پر امریکا نے انتباہ کیا جو بعد ازاں بالکل درست ثابت ہوئی ہے۔ دونوں کے ساتھ پاکستان کی جھڑپوں میں حالیہ دنوں میں شدت آئی ہے۔ افغان طالبان نے اپنے پاکستانی طالبان اتحادیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے پاکستان کی درخواستوں کو نظر انداز کر دیا ہے۔
امریکہ اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات کا افغان عوام کو فائدہ ہوگا۔ واشنگٹن نے کابل میں نئی حکومت کی جانب کسی قسم کے جھکاؤ کا اظہار نہیں کیا ہے۔ افغان لڑکیوں کو اسکول جانے سے روک دیا گیا ہے اور کام کی جگہوں پر بھی لڑکیوں پر شدید دباؤ ہے۔ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اسلام آباد کا کابل میں کسی بھی بیرونی عنصر کے مقابلے میں زیادہ اثر و رسوخ ہے۔ مثال کے طور پر، یہ اپنے پڑوسی ملک کو تیل کی درآمد کنٹرول کرتا ہے۔ پاکستان طالبان حکومت کے ساتھ بات چیت کا مطالبہ کرنے میں سب سے آگے رہا ہے۔ ہمیں اس پر مزید غور کرنا چاہیے کہ اسلام آباد کے ساتھ کام کرنے سے وقت گزرنے کے ساتھ افغان عوام کی مشکلات کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
شریف حکومت کے پاس ایک معتدل فوجی قیادت ہے جس کے ساتھ آنے والے مہینوں میں انھوں نے کام کرنا ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یوکرین پر روس کے حملے پر کھل کر تنقید کی ہے، یہ جنگ پر عمران خان کے “غیر جانبداری” کے موقف سے واضح انحراف ہے۔ جب یوکرین پر حملہ ہوا تو اتفاق سے عمران خان ماسکو میں تھا۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ ان کے تعلقات کا کوئی وجود نہیں تھا، خان کے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ تعلقات — جنہوں نے اگست کے بعد سے انہیں تین بار فون کیا — اور چینی صدر شی جن پنگ امریکہ سے روس اور چین کی طرف جھکاؤ کی طرح نظر آئے۔ امریکی سازشی بیانیے پر انحصار کرتے ہوئے جب عمران کی حکومت گرنے والی تھی، اس نے اس پوزیشن کو مستحکم کیا۔ دوسری طرف، امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے بارے میں جنرل باجوہ اور شہباز شریف نے کھلے عام بات کی ہے ۔ نئی حکومت کو عمران خان کے امریکی سازشی بیانیے کے پیش نظر امریکہ کے ساتھ مشغول ہونے کے لیے ایک نازک توازن پر چلنا پڑے گا، جس کی فوج اور شریف نے تردید کی ہے لیکن عمران خان کے حامی اس بیانیہ پر قائل ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ کے لیے نئی حکومت سے بات چیت کا موقع ختم نہیں ہوا ہے۔ شہباز شریف کو کمزور معیشت ورثے میں ملی جو اب ان کا بنیادی مسئلہ ہے اور ان کے پاس وقت بھی محدود ہے۔ اس دوران عمران خان دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے پرعزم ہیں۔ اس کی حمایت کافی ہے؛ اس نے پاکستان کے بڑے شہروں میں بہت بڑی ریلیوں کی قیادت کی ہے ، جس میں امریکہ مخالف بیان بازی پر انحصار کیا گیا ہے۔ وہ نئی حکومت کو “امپورٹیڈ حکومت” کہہ کر اور اس کے اراکین کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کے بارے میں آواز اٹھا کر اس کی قانونی حیثیت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کی پارٹی نے پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیے ہیں۔ آخر میں شریفوں اور خان دونوں کے لیے اہم اگلا الیکشن ہے۔ پاکستان کی سیاست تیزی سے غیر یقینی ہوتی جا رہی ہے۔ بات چیت شروع کرنے کا یہ ایک فوری وقت ہے۔
امریکی صدر کی پاکستان کے ساتھ مسلسل روابط کی ایک بڑی وجہ دنیا کے دوسرے سب سے بڑے مسلم ملک میں جمہوری عمل کو مضبوط کرنا ہے۔ پاکستان کے کسی بھی منتخب وزیراعظم نے پانچ سال اپنے عہدے پر مکمل نہیں کیے۔ اکثر فوج نے منتخب حکومت کو گرانے کے لیے مداخلت کی ہے۔
امریکی صدر اور اس کی ٹیم آمریت کے خلاف پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی کیلئے شہباز شریف اور ان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے ساتھ مل کر بلا تاخیر سویلین حکمرانی کیلئے امریکی حمایت پر زور دے۔ اس سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں استحکام کے ایک نئے دور کا آغاز ہونا چاہیے، جس نے بہت زیادہ عروج دیکھا ہے – اس سے قبل بنیادی طور افغانستان میں امریکہ کے مقاصد کی بنیاد پر تعلقات استوار کیے گئے۔
اس لحاظ سے کہ فوری ایجنڈے میں کیا ہونا چاہیے، سب سے پہلے یہ تصور ہو گا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اب صرف سلامتی پر مرکوز نہیں رکھا جا سکتا، حالانکہ یہ ایک ضروری جہت ہو گی، افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں ہونے کے ساتھ، حملوں میں اضافہ۔ اسلامک اسٹیٹ خراسان گروپ اور پاکستانی طالبان کی طرف سے، اور اسلام آباد کے جوہری ہتھیاروں اور نئی دہلی کے ساتھ مشکل تعلقات کو دیکھتے ہوئے ایجنڈے کا ایک اور پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ اقتصادی تعلقات کو اس طرح مضبوط کرنے کی راہیں تلاش کی جائیں جو پاکستان کی غیر استعمال شدہ اقتصادی صلاحیت (بالآخر پاکستان اور امریکہ دونوں کے فائدے کے لیے) استعمال کرے، مثال کے طور پر پاکستان کے چھوٹے لیکن بڑھتے ہوئے ٹیک سیکٹر لو بروئے کار لایا جائے۔۔ ایک اہم اثر یہ ہے کہ اس سے پاکستان کو چین پاکستان اقتصادی راہداری کے علاوہ کچھ اور ملتا ہے۔
سرمایہ کاری کے لحاظ سے دیکھا جائے تو؛ پاکستان کی مضبوط معیشت ملک پر فوج کی گرفت کو بھی کم کرے گی یہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو بنیادی طور پر تبدیل کرنے کا ایک بڑا موقع ہے