افغان مشن، ڈالرز کی تقسیم اور بینکاروں کا کردار
- September 1, 2021 1:21 pm PST
اکمل سومرو
عالمی بالا دستی کے تصورات کو عملی صورت میں نافذ کرنے کے لیے انسانوں کو تہہ و بالا کرنا، اقتصادی بدحالی مسلط کرنا، محکوم اقوام کے قومی وسائل غارت کرنا اور استعماری مقاصد کے ماتحت سیاسی و مذہبی تصورات کو متعارف کرانا، امپریل ازم کی بنیادی روح ہے۔ اس عالمی امپریل ازم کی مرکزہ امریکی ریاست ہے اور امپریل ازم کے اتحادی نیٹو کی صورت میں موجود ہیں۔
قوموں پر اقتصادی غلامی مسلط کرنا، عالمی اداروں کے ذریعے سے ملکوں کی خود مختاری کو چیلنج کرنا امپریل ازم کے اہداف میں شامل ہے۔ یہ اہداف پینٹاگون، نیشنل سیکیورٹی ایجنسی، سی آئی اے، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، سیکیورٹی کونسل، فیٹیف، یو این ایچ سی آر، ڈبلیو ایچ او، عالمی عدالت اور بینکوں کے ذریعے سے حاصل کیے جاتے ہیں۔
تیسری دُنیا کے ممالک کی یہ تقسیم بھی انھی اہداف کے تحت کی گئی ہے اور قوموں پر پسماندگی مسلط کرنے کے لیے یہاں کے سماج کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر کے منافرت کو فروغ دیا جاتا ہے، یہی کچھ افغانستان میں گزشتہ ایک صدی کی غم ناک اور الم ناک تاریخ ہے۔ نوآبادیاتی عہد اور مابعد نوآبادیاتی عہد میں جدیدیت کے نام پر امپریل ایجنڈا نافذ کیا جاتا رہا ہے۔ افغانستان پہلے، برطانوی ایمپائر کے لیے بفر ریاست کے طور پر کام کرتا رہا اور نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذ کے بعد، دو عالمی طاقتوں کے درمیان بفر ریاست بنایا گیا۔ قومی و عالمی میڈیا پر ایک مہینے سے مسئلہ افغانستان نشر کیا جارہا ہے۔
افغان مسئلہ نے موجودہ شکل کیسے اختیار کی اس کے لیے ہمیں تاریخ کے اوراق پر پڑی گرد ہٹانا ہوگی۔ آج کی اس تحریر میں، افغان جہاد کے ایک حصہ کو اُجاگر کرنا ہے۔ افغان جہاد میں ان مجاہدین کو کیسے فنانس کیا گیا اس موضوع پر انگریزی میں تو بہت مواد موجود ہے لیکن اُردو میں تفصیلی مواد میسر نہیں ہے۔ بالخصوص اس جہاد کے دوران عالمی سطح پر قائم ہونے والے بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل یعنی بی سی سی آئی کے کردار پر مواد پڑھنے کو نہیں ملتا، مرحوم بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب شہاب نامہ میں اس بینک سے متعلق سرسری سے گفتگو کی ہے۔
افغانستان میں کیمونسٹ حکومت قائم ہونے اور اس حکومت کو بچانے کے لیے سوویت یونین کی افغانستان میں فوج کشی کے فیصلے نے امریکا کو نئی گریٹ گیم کھیلنے کا موقع فراہم کر دیا۔ افغانیوں اور پاکستانیوں نے اس گریٹ گیم کی قیمت چکائی۔ افغانستان میں کیمونسٹ حکومت اور سوویت یونین کے خلاف اسلام کے نام پر مجاہدین کے گروہ کو منظم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ جرنیل ضیاء نے مجاہدین کو براہ راست اسلحہ نہ دینے کے لیے سی آئی اے کو قائل کیا تاکہ پاکستان کو افغان مشن پر کنٹرول رہے۔ افغان مزاحمت کو سات گروپس میں تقسیم کیا گیا جو “پشاور سیون” کے نام سے مشہور تھے۔
ایک گروپ حزب اسلامی کے گلبدین حکمت یار، حزب اسلامی کے دوسرے ونگ جلال الدین حقانی، تیسرا گروپ جماعت اسلامی کے برہان الدین ربانی جس کے ملٹری کمانڈر احمد شاہ مسعود تھے، گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کو 600 ملین ڈالرز دیے گئے جبکہ چوتھا گروپ عبد الرسول سیف کی قیادت میں اتحاد اسلامی کے نام سے قائم ہوا، اس گروپ کو سعودی عرب کی حمایت حاصل تھی۔ پانچویں گروپ محاذ ملی اسلام (نیشنل اسلامک فرنٹ) کو برطانوی ایم آئی سکس کی سپورٹ تھی۔ پشاور میں جماعت اسلامی کی معاونت سے مکتب الخدمت قائم کیا گیا جہاں مجاہدین کی نرسری تھی اس مکتب کو ابتداء میں 200 ملین ڈالرز کی فنڈنگ کی۔
پینٹاگون میں بننے والے اس منصوبے کے کرداروں کا تعین ہوا اور ان کرداروں کو معاشی وسائل فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کر کے اسے عملی شکل دی گئی۔ مارک کرٹس کی کتاب سیکرٹ افیئرز کے مطابق، دسمبر 1979ء میں امریکی وائٹ ہاؤس میں منصوبہ ساز ممالک کا اجلاس ہوا، اگلے روز امریکی تھنک ٹینک فارن پالیسی ایسوسی ایشن سے خطاب میں برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے کیمونزم کے مقابلے پر اسلام کے تصورات پیش کیے جس کا مقصد مجاہدین کی حمایت کرنا تھا۔
افغان مشن کے لیے امریکا نے اپنے خفیہ فنڈز جسے “بلیک بجٹ” کہا جاتا ہے، کا استعمال کیا۔ جہاد کے زمانے میں بلیک بجٹ کا حجم 36 ارب ڈالرز تک پہنچ گیا تھا۔ یہ بجٹ افغان مشن کے تمام کرداروں میں تقسیم کرنے کے لیے مختص تھا۔ اس کے علاوہ، سعودی عرب، مشرق وسطیٰ، برطانیہ نے بھی امپریل پاور کو مالی وسائل فراہم کیے۔ افغانستان میں جہاد کے عنوان سے ڈیزائن کی گئی گریٹ گیم میں ان مالی وسائل کی تقسیم کے لیے بینک کا سہارا لیا گیا چنانچہ اس سٹرٹیجک ڈیپتھ کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل کا انتخاب کیا گیا۔
یہ بینک کیسے قائم کیا گیا؟ اس بینک کے قیام کی داستان فلمی کہانی لگتی ہے لیکن حقائق سے بھر پور کہانی۔ بی سی سی آئی کے پہلے سربراہ آغا حسن عابدی مقرر ہوئے، عابدی نے حبیب بینک کی ملازمت چھوڑی، اس کے بعد یونائیٹڈ بینک قائم کیا اب یہ بینک بھی چھوڑ کر ایک عالمی مشن کیلئے ان کی ذہانت کا استعمال کیا گیا۔ یہ عالمی مشن، دراصل امریکا کا افغان مشن تھا جو سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے ڈیزائن کیا گیا۔
آغا حسن عابدی اپنی انفرادی صلاحیتوں کی بناء پر تقسیم ہند کے بعد ہی یہ بھانپ چکے تھے کہ طاقت کے ایوانوں میں اپنی گرفت کیسے مضبوط رکھنی ہے۔ گویا انھوں نے ابتداء میں ہی پاکستان کی سیاسی، ملٹری اور بیوروکریسی اشرافیہ کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کر لیے تھے۔ امریکی کانگرس کی رپورٹ کے مطابق حبیب بینک چھوڑنے کے بعد، عابدی نے جب 1959ء میں یونائیٹڈ بینک قائم کیا تو پاکستان کے سابق وزیر اعظم آئی آئی چندریگر کو بینک چیئرمین مقرر کیا۔
اس کے بعد ایوب خان کی حکومت میں بھی انھوں نے طاقت کے اصل سرچشمہ کا انکار نہیں کیا۔ ایوب خان کے وزیر اطلاعات کو بی سی سی آئی کے پرموشنل میگزین “ساؤتھ” کا انچارج مقرر کر دیا۔ جرنیل ایوب خان فارغ ہونے کے بعد، جب بھٹو برسر اقتدار ہوئے تو عابدی ان کی حکومت کے ساتھ مل گئے۔
فوجی بغاوت سے بھٹو کا تختہ اُلٹا گیا تو انھوں نے جرنیل ضیاء الحق کے ساتھ وفاداری تبدیل کر لی، حالاں کہ جولائی 1978ء میں بھٹو کے خلاف جب ضیاء الحق نے وائٹ پیپر پر مبنی جرائم کی تفصیلات جاری کیں تو اس میں آغا حسن عابدی کا نام بھی شامل تھا اور وائٹ پیپر میں لکھا گیا کہ عابدی نے بھٹو کو انتخابی مہم کے لیے غیر قانونی طور پر تین کروڑ روپے تک فنڈنگ فراہم کی تھی۔ عابدی طاقت ور ایوانوں تک پہنچنے کی مہارت رکھتے تھے اور یہی مہارت جہاد افغانستان کے لیے بی سی سی آئی بینک میں کام آئی۔
امریکی کانگریس کی رپورٹ کے مطابق، بی سی سی آئی قائم کرنے کے لیے بینک آف امریکا نے 25 لاکھ ڈالرز فراہم کیے جبکہ ابو ظہبی کے شیخ زید نے 5 لاکھ ڈالرز بی سی سی آئی کو مہیا کیے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بینک کے ابتدائی اثاثہ جات کے لیے بھی شیخ زید نے5 کروڑ ڈالرز دیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائزیشن پالیسی کے تحت بینکوں سے فارغ ہونے والے بینکاروں کو عابدی نے بی سی سی آئی میں بھرتی کر لیا۔ عالمی فنانشل مارکیٹ میں اس بینک کی ساکھ کے لیے بھی بینک آف امریکا نے معاونت کی۔
بینک آف امریکا کے اعلیٰ افسران کو بی سی سی آئی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا ممبر تعینات کیا گیا، اس کے ساتھ مشرق وسطیٰ، یورپین بینک آف امریکا، نیشنل بینک آف جارجیا ( یہ بینک خفیہ طور پر بی سی سی آئی کی ملکیت تھا) کے منجھے ہوئے بینکاروں کی ٹیم بی سی سی آئی گلوبل جہاد فنانسنگ کا حصہ بنی۔ بی سی سی آئی کی تیزی سے گروتھ ہوئی اور اس گروتھ کے پیچھے وہ خفیہ شیئر ہولڈرز تھے جن کے ناموں کو افشاں کرنے پر قانونی پاپندی عائد تھی۔ چنانچہ بی سی سی آئی نے امریکا، کینیڈا، افریقا، لاطینی امریکا اور مشرق وسطیٰ سمیت دُنیا کے 70 ممالک میں اپنی شاخیں کھول لیں۔
امریکی صدر جمی کارٹر کے دور میں ہی افغان جہاد کی پرائیویٹ فنانسنگ کا بندوبست کر لیا گیا تھا اور اس فنانسنگ کے لیے اس بینک کو بروئے کار لایا گیا اور سعودی عرب کی انٹیلی جنس ایجنسی کے کمال اعظم نے مدد کی۔ کمال اعظم نے بی سی سی آئی بینک کے سربراہ آغا حسن عابدی سے ملاقات کی اور سوویت یونین کے خلاف افغان آپریشن میں سی آئی اے کی مدد کے لیے امور طے کیے۔ Unholy Wars کتاب میں جان کولی نے لکھا ہے کہ سی آئی اے کو ساتھ ملانے کے بعد، عابدی امریکی صدر جمی کارٹر کے قریب ہوگئے۔ بی سی سی آئی کے لندن، سوئزر لینڈ اور میامی میں خفیہ اکاؤنٹس تھے اور ان اکاؤنٹس کے ذریعے سے پیسے بینک کے مرکزی کھاتے میں منتقل کیے جاتے تھے۔
سوویت یونین کے خلاف جنگ افغانستان میں لڑی جارہی تھی اور اس جنگ کا ایندھن مجاہدین تھے، ان مجاہدین اور پاکستان میں قائم ٹریننگ کیمپس تک ڈالرز پہنچانے کا انتظام اس بینک کے تحت کیا جارہا تھا اس بینک میں ڈرگز، خفیہ آرمز ڈیلز اور بلیک اکانومی کا پیسہ بھی منتقل کیا جارہا تھا۔ سعودی شہزادہ خالد ابراہیم اور لیفٹیننٹ جنرل فضل حق پر ان خفیہ ڈیلز کے الزامات بے نظیر بھٹو نے عائد کیے تھے جو حکومت ملنے کے بعد واپس لے لیے گئے۔
دوسری جانب سی آئی اے، بی سی سی آئی پاکستانی برانچز کے ذریعے سے افغان مجاہدین تک ڈالرز پہنچا رہا تھا اور افغان جہاد کے دوران ہی اس خفیہ فنانشل آپریشن کی باز گشت امریکی اخبارات میں سنی گئی۔ نیوز ویک نے 1991ء میں ہی رپورٹ شائع کی کہ بی سی سی آئی پاکستان کی برانچز میں سی آئی اے نے دو ارب ڈالرز منتقل کیے، یہ ڈالرز افغان جہاد میں امریکا کا ساتھ دینے والے مجاہدین، پاکستانی سیاستدان، ضیاء الحق اور دیگر سہولت کاروں میں تقسیم ہوتے رہے، سعودی عرب، برطانیہ براہ راست ان مجاہدین کو مالی وسائل فراہم کرتا رہا۔
افغان جہاد ختم ہونے اور سوویت یونین کے حصہ بخرے ہوتے ہی بی سی سی آئی فراڈ کا سیکنڈل لایا گیا اور اس بینک پر عالمی دہشت گردی کو فروغ دینے، ڈرگ مافیا کی پُشت پناہی، منی لانڈرنگ جیسے الزامات لگائے گئے اور اس بینک کو بند کرا دیا گیا اور اس سارے کھیل کی ذمہ داری بینک کی انتظامیہ اور آغا حسن عابدی پر عائد کر دی گئی۔ اُس وقت امریکی سینیٹر جان کیری کی نگرانی میں قائم ہونے والی انویسٹی گیشن کمیٹی نے 583 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ میں بی سی سی آئی کے آپریشن کی تفصیلات جاری کی تھیں۔
سوویت یونین کے افغانستان سے انخلاء کے دو ہفتوں بعد ہی، افغان مشن کے مرکزی کردار جرنیل ضیاء الحق طیارہ حادثہ میں ہلاک ہوئے، سی آئی اے کی ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات کے مطابق اس طیارے پر سٹنگ میزائل داغا گیا تھا یہ وہی سٹنگ میزائل ہیں جو امریکی صدر کی منظوری کے بعد افغان مشن میں استعمال ہوتے رہے۔ سوویت یونین کے خلاف امریکی مشن کی کامیابی کے بعد ہی بی سی سی آئی بینک کے خلاف امریکا میں دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں بند کر دیا گیا۔
امریکا کی ایماء پر یہ بینک افغان مشن کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کا بندوبست کرتا رہا لیکن جب اس بینک کی سیاہ کاریاں منظر عام پر آئیں تو افغان فنانسنگ کے معاملے کو بینک کا انفرادی فعل قرار دیا گیا اور امریکا نے بہ طور ریاست اس فنانشل کھیل سے الگ رہنے کا تاثر دیا گیا یوں یہ بینک تاریخ میں گمنام کر دیا گیا۔
آغا حسن عابدی بینک کی بندش سے پہلے ہی اسے خیر باد کہہ چکے تھے اور افغان مشن میں مالی معاونت کا الزام محض اس بینک پر عائد کر کے استعماری منصوبہ سازوں کے چہروں پر پھر سے نقاب ڈال دیا گیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے نوآبادیاتی عہد میں برطانوی سامراج نے افریقی انسانوں کو غلام بنا کر دو سال تک ان کی تجارت کی اور ان غلاموں کی بنیاد پر لندن میں بڑے بڑے بینک قائم ہوئے اور ان بینکوں کے انسانی جرائم کو محض ان کا فعل قرار دیا گیا اور ریاست کے کردار کو الگ کر دیا گیا۔ اس بینک کو بند کرنے کے بعد اس کے تمام اثاثہ جات اور دولت امریکی ریاست نے ہڑپ کر لی۔
افغان جہاد کی داستان ختم نہیں ہوئی بلکہ مجاہدین، دہشت گرد قرار پائے، جہادی ڈالرز نے پاکستان کے سماج میں فرقہ واریت کی جڑیں مضبوط کیں اور پھر افغانستان کو ایک نئی استعماری جنگ میں دھکیل دیا گیا، نائن الیون کو بنیاد بنا کر امریکا نے افغانستان میں فوج کشی کر دی اور اب ایک نئے عہد کا آغاز ہوا، پاکستان کو پھر سے کردار سونپا گیا، اس پر آئندہ کالم میں بات کریں گے۔ ہمیں یہ واضح رہنا چاہیے کہ عالمی استعمار اپنی ریاستوں کو میدان جنگ بنانے کی بجائے تیسری دُنیا کے ممالک کو ایندھن بناتا ہے۔ امریکہ کی افغانستان میں پسپائی کے بعد استعمار کی اس خطہ میں گریٹ گیم ایک نیا رُخ اختیار کرے گی اور پھر سے نئے کرداروں کو نیا ٹاسک سونپ دیا جائے گا۔