پاکستان کی اشرافیہ اور تعلیم کا حاکمیتی ماڈل

  • March 26, 2019 1:32 pm PST
taleemizavia single page

مسعود خالد

آمرانہ بادشاہتوں، جاگیردارانہ ملکیتوں کے دور میں حاکم اور محکوم کے درمیان تعلقات کو جاگیر داراور رعایا کے رشتے کا نام دیا جاتا ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ بادشاہوں اور جاگیرداروں نے کئی خطوں پر طویل حکمرانی کی ہے۔

اس دور میں غلام اور آقا کا رشتہ وجود میں آیا۔ اس رشتے میں اُوپر سے دیے گئے احکامات کو بلاحجت تسلیم کیا جاتا ہے۔ غلامی کا یہ نظام حاکمیت اور کنٹرول کو قبول کرنے کے لیے رعایا کو مجبور کرتا ہے۔

سماج میں موجود اس طرح کا ماڈل، حاکمیتی ماڈل کہلاتا ہے۔ حاکمیتی ماڈل صرف سماجی ڈھانچہ ہی نہیں ہوتا بلکہ خاندان کا ماڈل، جاگیرداری معاشرے میں سیاسی پارٹیوں کا ماڈل، پیروں، مریدوں کا ماڈل یہاں تک کے سکول اور کلاس روم کا ماڈل بھی ہوسکتا ہے۔

عقائد، حکایات، اقدار نہ صرف اس حاکمیتی ماڈل کو زندگی کا اٹل حصہ بنا کر پیش کیے جاتے ہیں کہ یہ محکوموں کی بھلائی کا پروگرام ہے۔

ہندستان کے جغرافیائی خطے میں بسنے والی عوام بادشاہی دور سے نکل کر سیدھا کالونیل دور یعنی نوآبادیاتی دور میں چلے گئے۔ ہمارے تدریسی نظام کی جڑیں بھی حاکمانہ اور غیر منصفانہ نوآبادیاتی دور میں پیوست ہیں۔

چونکہ نوآبادیاتی آقاؤں نے ہمارے سماجی ارتقاء کو اپنے کالونیل مقاصد کی مطابقت میں تشکیل دیا ہے اس لیے ہماری تعلیمی ترقی بھی نوآبادیاتی آقاؤں کے بدلتے مفادات کے آج بھی تابع ہیں۔

تدریس یا تعلیم کے حاکمیتی ماڈل میں تعلیم خبری ہوتی ہے اور اُستاد مرکوز۔ اُستاد ہمیشہ سچی خبر دیتا ہے اور اس کا فرض ہے کہ طلباء کے خالی ذہنوں کو معلومات سے بھر دے۔

کیوں کہ اُستاد سب کچھ جانتا ہے، طلباء کچھ نہیں جانتے، اُستاد پڑھاتا ہے، طلباء سیکھتے ہیں، اُستاد طلباء کو نظم وضبط کا پاپند بناتا ہے اور طلباء کو اس کے مطابق ڈھلنا ہے۔

اُستاد بنیادی طور پر سبق تقسیم کار اور کنٹرولر ہوتا ہے، تدریس کے اس طریقے کو حاکمیتی ماڈل کہا جاتا ہے جو طلباء کو حالات کے مطابق ڈھلنے، احکامات کو من و عن تسلیم کرنے اور قابل انتظام وجود بنانے میں مدد کرتا ہے۔

تعلیم کے عظیم مفکر پولو فرائرے نے تعلیم کے حاکمیتی ماڈل کو بینکنگ نظریہ تعلیم کا نام دیا ہے۔ فرائرے ایسی تعلیم کو انسانوں کو سدھانے کا عمل اور غلامی کی مشق قرار دیتا ہے۔

کمرہ جماعت میں طلباء کو غلامی کی جو عملی مشق کرائی جاتی ہے اس کے بعد فارغ التحصیل ہونے کے بعد یہ نوجوان معاشرے کا حصہ بننے پر حکمران طبقے کا اُتنا ہی تابعدار ہوتا ہے۔ جتنا کمرہ جماعت میں اُستاد کا ہوا کرتا تھا۔

اس طرح سے ڈھلا ہوا انسان حاکمیتی ماڈل کے ذریعے تعمیر کردہ معاشرے کی عمارت کا ایک تعمیری بلاک ہوتا ہے۔ اس تعلیم کے ذریعے سے تعلیم بطور مشق اس میں یہ سوچ پیدا کرتی ہے کہ وہ سماج کے حالات کو نہیں بدل سکتا۔

اس سوچ کے پیدا ہونے کے بعد وہ انفرادیت کا شکار ہوتا ہے اور پھر ماورائیت، مابعد الطبعیات پر یقین میں پختگی پیدا ہوتی ہے، یہاں تک کہ وہ اونچی سطح پر اور نظر نہ آنے والی حاکم اقلیت کے فیصلوں کو اپنی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کو قدرت کا فیصلہ سمجھنے لگتا ہے۔

تدریس کا حاکمیتی ماڈل ایسا تحکمانہ اور خطیبانہ نظام ہے جو اُستاد، نصاب اور امتحان کے گرد گھومتا ہے۔

اس میں طالب علم کے لیے ذاتی تجربہ کرنے، تعلیم کو اپنے تجربے کا حصہ بنانے، اپنی انفرادی اصلیت دریافت کرنے، مروجہ نظریات و تصورات سے بالاتر ہوکر سوچنے کی گنجائش ہی پیدا نہیں ہونے دیتا۔

بچے جو پیدائشی طور پر متجسس ہوتے ہیں سیکھنے، مفہوم و تکیمل کی اپنی ضروریات پورا کرنے، تخلیق اور ہمدردی کی اپنی صلاحیتوں کو کام میں لانے کے بھوکے ہوتے ہیں مگر تدریس کے حاکمیتی ماڈل کے ذریعے حرف بہ حرف مطابقت پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔

یہاں تک کہ یہ بچے اس تعلیمی نظام سے ڈگری یافتہ ہونے کے بعد بغیر کسی تنقید کے عاجزی کے ساتھ اپنی محکومی تسلیم کر لیتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا تدریس کے حاکمیتی ماڈل تعلقات ناگزیر ہیں؟ یا اس کا کوئی قابل عمل متبادل موجود ہے؟

کیوں کہ درست انتخاب کے لیے ہمیں متبادلات کو سمجھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں جب یورپ میں تعلیم پیداواری عمل کا حصہ بن گئی تو پیداوار میں اضافے کے لیے نئے نصاب متعارف کرائے گئے اور تدریس کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی لائی گئیں۔

مگر حاکمیتی ماڈل کو اب بھی برقرار رکھا گیا کیونکہ یہ صنعتی اسمبلی لائن کے لیے مناسب تھا۔ جہاں صنعتی مشین میں کارکنوں کو محض ایک پرزے کی طرح اوپر کے احکامات بلاحجب اور ان پر عمل کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔

تعلیم پر سب کے برابر حق کا آئین اور قانون کی کتابوں میں موجود ہونا اور عملی طور پر صرف سرمایہ دار طبقے کا اس حق سے فائدہ اُٹھانا، طبقاتی معاشرے کا بنیادی تضاد ہے۔

جب سرمایہ داری کے تضادات کو حل کرنے کے لیے سائنسی سوشلزم کا نظریہ وجود میں آیا تو اس کے اثرات زندگی کے ہر شعبے پر مرتب ہوئے۔

امریکی مفکر تعلیم جان ڈیوی نے نظریہ پیش کیا کہ عملی ذہن، پہل کرنے کا حوصلہ، خود اپنی تخلیقی ذہانت کے ذریعے اپنے مسائل کو حل کرنے کی انسانی صلاحیت پر اعتماد اور شخصی آزادی کو تعلیم کا مقصد قرار دیا۔

لیکن تدریس کے حاکمیتی ماڈل سے ایسے مقاصد کا حصول ممکن نہیں تھا۔ کیوں کہ حاکمیتی ماڈل تو ذہنوں کو ایسی تربیت دینا چاہتا ہے جس سے موجودہ دُنیا سے پہلے کے ڈھانچے میں تغیر نہ لایا جاسکے بلکہ اسے قائم رکھنے کی مہارت پیدا ہو۔

اس کے برعکس ان مقاصد کا حصول ایسے طریقہ تدریس سے ممکن تھا جس میں ذہنوں کی اس طرح تربیت کی جائے کہ اذہان ترقی پذیر، تدریجی اور ارتقائی تغیر کے ساتھ چلنے کے قابل ہوجائیں اور انسانیت کے اجتماعی مفادات کےمحافظ ہوں۔

ایسے طریقہ تدریس کو تدریس کا شراکتی ڈھانچہ کہا جاتا ہے۔ پولو فرائرے نے اسے آزادی بخش تعلیم کا نام دیا ہے۔ آزادی بخش تعلیم شعور اور تجزیہ پر مشتمل ہوتی ہے نہ کی معلومات کی منتقلی پر۔

شراکتی تعلیم یعنی تعلیم بذریعہ تعاون۔ شراکتی عمل سے بچوں کے تجسس کو تقویت دینا، مہم جوئی کے ذریعے سیکھنے میں نوجوانوں کی مدد کرنا ہوتا ہے۔ جس میں اُستاد کنٹرولر کی بجائے آسانی پیدا کرنے والے اور اسباق کو بچوں کے ذہنوں میں جمع کرانے کی بجائے مکالماتی یا شراکتی انداز سے ذہنوں کو وسعت دیتا ہے۔

یہی وہ سب کچھ ہے جس میں طلباء دُنیا اور اس میں اپنے مقام کے بارے میں تصورات وضع کرتے ہیں۔

پاکستان کا تعلیمی ماڈل جدید نوآبادیاتی ضروریات کے پیش نظر حاکمیتی اُصولوں پر استوار کیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہمارے طالب علم یہاں کے تشکیل شدہ نظام کو سمجھنے سے قاصر ہیں بلکہ نادانستہ طور پر اس نظام کے معاون بن جاتے ہیں۔

حاکمیتی ماڈل کی بناء پر ہی پاکستان کا جاگیردار، صنعت کار، خاندانی سیاست دان کے قبضے میں سیاسی نظام ہے جس میں یہاں کا بیوروکریٹ سانجھے دار ہے۔


masood

مسعود خالد نوآبادیاتی دور کے سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی ڈھانچہ پر متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔وہ پاکپن میں قائم سانجھ تنظیم کے بانی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *