مطالعہ پاکستان ادھورے سچ و جھوٹ کی کہانی

  • October 21, 2018 2:12 pm PST
taleemizavia single page

زنیرہ ثاقب

”ہم سب کون ہیں؟ “
”مسلمان“

”لیکن ٹیچر میں تو مسلمان نہیں۔ میں تو۔ “
”چپ چوہڑا کہیں کا“

”چپ کافر کہیں کا“
”چپ رہ یہاں رہنا ہے تو چپ رہ“
٭٭٭ ٭٭٭

”ہندو کون ہیں؟ “
”ہندو انڈیا کے رہنے والے رذیل لوگ ہیں۔ یہ ہمارے دشمن ہیں
”لیکن ٹیچر میں تو ہندو ہوں۔ میں تو پاکستانی ہوں ”
”ہندو ہو تو ہندوستان جاؤ نا ”
٭٭٭ ٭٭٭

”1965 میں ہندوستان نے رات کے اندھیرے میں پاکستان پر حملہ کر دیا۔ “
”پاک فوج نے جم کر مقابلہ کیا اور آخر کار 17 دن بعد ہندوؤں کی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ “

”لیکن ٹیچر آپریشن جبرالٹر تو پاکستان نے شروع کیا تھا؟ “
”کیا کہا؟ “

”اور تاشقند معاہدے میں تو سیز فائر کا ذکر ہے“
”کیسا غدار بچہ ہے۔ پاکستان کا نام بدنام کرتا ہے۔ چل مرغا بن مرغا“
٭٭٭ ٭٭٭

”ج سے جگ، چ سے چڑیا، ح سے حبشی“
”حبشی؟ حبشی کہنا تو کوئی اچھی بات نہیں“

”کیوں بے! تجھے بڑی ہمدردی ہے کالوں سے۔
”چلو بھی آج سے اس کو بھی کالی اندھی بولا کرو“
٭٭٭ ٭٭٭

”دو قومی نظریہ یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں اور یہ مل کر نہیں رہ سکتی۔ اسی لئے ہم نے پاکستان بنایا“
” لیکن اگر یہ دونوں مل کر نہیں رہ سکتی تو 1000 سال ہندوستان میں جب مسلمان حکمران تھے تو کیسے مل کر رہتی تھیں ”
“چلو چلو بچو بریک کا ٹائم ہو گیا“
٭٭٭ ٭٭٭

”تو یہ رہی پاکستانی کی تاریخ“
”ٹیچر اس میں تو بنگلہ دیش کا کوئی ذکر ہی نہیں“
”بنگلہ دیش تو پرانی خبر ہوئی چلو آج بلوچستان کو پڑھتے ہیں ”

٭٭٭ ٭٭٭
”جہاد کیا ہوتا ہے“
”جہاد اللہ کی راہ میں کافروں کے خلاف جنگ کو کہتے ہیں“

”کافر کون ہوتا ہے ”
”جو مسلمان نہ ہو“

”پاکستانی ہندو، عیسائی، یہودی، قادیانی، شیعہ، سب کافر ہیں؟ ان کے خلاف جہاد فرض ہے؟ “
” کیا بے بہت سوال کرتا ہے۔ چل نکل یہاں سے۔ جا جا کر انہی کافروں سے پڑھ۔ چل بھاگ

پاکستان میں اسلامیات اور مطالعہ پاکستان لازمی مضامین ہیں۔ تاہم اگر آپ غیر مسلم ہیں تو آپ کے لئے اسلامیات لازمی مضمون نہیں ہے۔ آپ اس کی جگہ ایتھکس یعنی اخلاقیات پڑھ سکتے ہیں۔ بات تو بہت اچھی ہے۔ لیکن کیا آپ کو پتا ہے کہ پاکستان میں کتنے اسکول اخلاقیات کا مضمون پڑھاتے ہیں؟

یہ بھی پڑھیں!

مطالعہ پاکستان کا المیہ
دینیات کا نصاب تعلیم اور جدید سماج
کیا تعلیم فارمیشن کا نام ہے؟
میشل فوکو اور ڈسکورس کی تشکیل
تاریخ کی کتب سے اصل جناح کی تلاش

پچھلے سال کے پی کے کی حکومت نے صوبے کی تاریخ میں پہلی دفعہ اخلاقیات کی کتابوں پر کام شروع کیا ہے۔ اس سے پہلے اخلاقیات کی کتاب کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ یہی حال سندھ میں ہے۔ جہاں جامشورو بورڈ نے پہلی دفعہ اخلاقیات کی کتاب کو نصاب میں شامل کیا ہے۔

یہ ہے جناب آپ کے سرکاری اسکولوں کا حال۔ جب کتاب ہی نہیں، نصاب ہی نہیں تو بچوں نے اسلامیات ہی پڑھنی ہے۔ میں خود بہت سارے طالب علموں سے ملی ہوں جو کہ کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں لیکن چاروں قل ان کو فر فر آتے ہیں۔ وجہ؟

اخلاقیات کا مضمون تھا نہیں تو اسکولوں میں اسلامیات پڑھنا پڑی۔ اب پرائیویٹ اسکول کی طرف آ جائیں۔ سوائے چرچوں سے منسلک اسکولوں کے (جیسے کے کانونٹ وغیرہ) زیادہ تر اسکول اس مضمون کو آفر ہی نہیں کرتے۔ اس کی وجہ؟ وجہ یہ ہے کہ 50 بچوں کی کلاس میں بمشکل 1-2 بچے اقلیتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب 1-2 بچوں کے لئے ایک ٹیچر رکھی جائے۔ یہ تو منافع نہ ہوا ناں۔

اب بات کرتے ہیں کہ ہماری نصاب کی کتابوں میں اقلیتوں کے خلاف کہاں جھوٹ بولا جاتا ہے اور نفرت سکھائی جاتی ہے؟ بے شمار مثالیں ہیں جو کہ یہاں بیان کی جا سکتی ہیں لیکن تھوڑے کو بہت سمجھنے پر اکتفا کرتے ہوئے اور کچھ پیش خدمت ہیں۔ باقی آپ خود ڈھونڈ لیجیے، اچھے خاصے پڑھے لکھے تو ہیں۔

فیڈرل منسٹری آف ایجوکیشن کی کی سوشل اسٹڈیز کی کتاب جو کہ کلاس 4 کے لئے لکھی گئی ہے کچھ یہ بات کرتی ہے:

The Muslims of Pakistan provided all the facilities to the Hindus and Sikhs who left for India. But the Hindus and Sikhs looted the Muslims in India with both hands and they attacked their caravans, buses and railway trains. Therefore about 1 million Muslims were martyred on their way to Pakistan.

جی ہاں جانی نقصان ہوا تھا بہت زیادہ ہوا تھا۔ لیکن ہم بھی دودھ دھلے تو تھے نہیں۔ یہاں جو مارا ماری آپ نے ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ کی ہیں اس کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ بس 10 سال کے بچے کے دماغ میں میں یہ بات ڈال دیں گے ہم نے ان کو کچھ نہ کہا ہاں انھوں نے ہمارے ساتھ بہت خون خرابہ کیا۔ یہ بھی آپ مذہب کے نام پر سکھا رہیں ہیں۔ آگے چلیں اسی کتاب میں لکھا ہے کہ:

India invaded Lahore on the 6th of September, 1965 without any ultimatum. After 17 days, the Indian authorities laid down arms acknowledging the bravery and gallantry of the Pak Army and civilians.

جھوٹ پر جھوٹ۔۔ تاشقند معاہدے اور سیز فائر کا ذکر ہے۔ نہ پاکستان نے ہتھیار ڈالے تھے اور نہ انڈیا نے۔ ہاں پاکستانی کی فوج بہت بےجگری سے لڑی اور اپنے سے بہت بڑی آرمی کو ناکوں چنے چبوا دیے لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ یہ جنگ آپریشن جبرالٹر کے نتجے میں شروع ہوئی تھے۔

عرض ہے کہ اور کچھ نہیں تو شہاب نامہ ہی پڑھ لیں جس میں بہت سے لوگوں کے پسندیدہ قدرت اللہ شہاب (میرے نہیں) نے اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ جنگ اسی آپریشن کے نتیجے میں چھڑی تھی۔ جب ہم جھوٹ پڑھاتے ہیں تو بچے یہ سیکھ لیتے ہیں کہ ہمارا ملک سب ٹھیک کرتا ہے اور زیادتی ہمیشہ ہمارے ساتھ ہوتی ہے۔

اب یہ پوچھنے کی جرات تو مجھ میں نہیں کہ کارگل جنگ کس وجہ سے چھڑی تھی کیونکہ بہت سے لوگ اس کو بھی دل پر لے جائیں گے۔ خیر بات کہیں اور نکل گئی چلیں نفرتوں کی طرف واپس چلتے ہیں۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی دسویں جماعت کی کتاب کچھ یہ بیان کرتی ہے:

“Because the Muslim religion, culture and social system are different from non-Muslims, it is impossible to cooperate with Hindus.”

جب آپ سیدھا سیدھا ہندوؤں سے اتنی نفرت سکھائیں گے تو خاک اس ملک میں امن آئے گا۔ 5-15 سال کے بچے یہ سب پڑھ پڑھ کر بڑے ہوتے ہیں۔ ہندوؤں کو اپنا قدرتی دشمن سمجھتے ہیں۔ مار دھاڑ کو، جنگوں کو اپنا جینے کا طریقہ سمجھتے ہیں۔ پھر آپ کہتے ہیں امن نہیں ہے اس ملک میں۔ کے پی کے کی ایک کتاب بچوں کو یہ سکھاتی ہے کہ اگر خود جہاد نہیں کر سکتے تو کم از کم جہاد کرنے والوں کی مالی مدد کرو۔ پھر لوگ پوچھتے ہیں یہ جو مدرسے خود کش حملہ آور تیار کرتے ہیں ان کی فنڈنگ کہاں سے آتی ہے۔

بنگلہ دیش کے بارے میں بھی سن لیجئے۔ ایک اور ٹیکسٹ بک کیا کہتی ہے:

“A large number of Hindu teachers were teaching in the educational institutions in East Pakistan. They produced such literature which created negative thinking in the minds of Bengalis against the people of West Pakistan.”

کہتے ہیں آدھا سچ جھوٹ سے زیادہ برا اور خطرناک ہوتا ہے۔ بس یہ وہ آدھا سچ ہے جو ہم اپنی آنے والی نسلوں کے دماغوں میں گھول رہے ہیں۔ یہیں سے بچے سیکھتے ہیں کہ کیسے اپنی غلطیاں ہمیشہ دوسروں کے سروں پر ڈال کر بری الذمہ ہو جانا ہے۔ یہیں سے بچے سیکھتے ہیں کہ اس ملک میں جو مقدس گائے ہے اس کے بارے میں بات کرنا بھی ممنوع ہے۔

آنکھیں کھول کر جینا سیکھ لیجئے۔ ریت میں سر دے کر کہتے ہیں اس ملک میں کچھ غلط نہیں ہو رہا۔ غلطی تسلیم کرنا خرابی کو سدھارنے کا سب سے پہلا قدم ہے یہ مانا جائے کہ کوئی غلطی ہے۔ نہ ہم دودھ کے دھلے ہیں نہ یہ ملک ہمیشہ معجزوں کے سہارے چلے گا۔ آئیں آنکھیں کھولیں اور کچھ نہیں تو اپنے دل سے نفرت کی سیاہی مٹانی شروع کریں۔ لمبا سفر ہے لیکن شروع تو کرنا چاہیے۔


زنیرہ ثاقب سماجی مسائل پر لکھنے کا شوق رکھتی ہیں، اُن کا ماننا ہے کہ سماجی مسائل کو حل کرنے کے لیے انھیں تسلیم کرنا ضروری ہے.(بشکریہ ہم سب)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *