میشل فوکو اور ڈسکورس کی تشکیل

  • May 20, 2017 1:14 pm PST
taleemizavia single page

ڈاکٹر ناصر عباس نیئر

میشل فوکو انسانی فکراور علم کا مفکر، مورخ اور نقاد ہے۔ اس نے انسانی فکر کو ایک ثقافتی تشکیل قرار دیا ہے۔ فوکو نے سماجی اور ثقافتی عوام کے تجزیے میں ساختیاتی لسانیات کے اصولوں اور طریق کار کو نہیں برتا یعنی وہ سماجی تشکیل کو ایک متن کے طور پر نہیں پڑھتا۔

فوکو نے آرکیالوجیکل اور بعد ازاں جینیالوجیکل طریق مطالعہ سے کام لیا۔ فوکو ساختیاتی اور پس ساختیاتی مفکرین کی مانند انسانی علم، تجربے، زندگی اور کائنات سے متعلق اپنے وژن کی بنیاد الہام یا انفرادی شعور میں نہیں دیکھتا بلکہ تمام انسانی علم اور وژن کو ان ثقافتی ساختیوں کی پیداوار قرار دیتا ہے جنہیں محض ان کی کارکردگی کی مدد سے ہی نشان زد کیا جاسکتا اور سمجھا جا سکتا ہے۔

فوکو بیک وقت اپنے مطالعاتی مواد، مطالعاتی منہاج اور اپنے ڈسکورس یعنی کلامیہ کو لامرکز رکھتا ہے وہ مرکز سے کسی بھی نوع اور کسی بھی سطح کی وابستگی کے خلاف اس لیے ہے کہ اس وابستگی کا لازمی مطلب ایک بنیاد اور اتھارٹی کو قبول کرنا ہے۔

فوکو کے ڈسکورس کی لامرکزیت کی وجہ سے اُس کے آئیڈیالوجیکل موقف کا تعین بھی محال ہے۔ فوکو کی فکر کی تشکیل جس مواد کے تحقیقی مطالعہ سے ہوئی ہے وہ “پاگل پن اور تہذیب”، کلینک کی ابتداء، انسانی سائنسیں اور جنسیت کی تاریخ ہیں۔ اس ضمن میں خاص بات یہ ہے کہ فوکو نے اپنی ان کتابوں میں پاگل پن، طب، سائنسوں اور جنسیت کے مغربی تصورات کی تاریخ پیش نہیں کی بلکہ ان کا تاریخی تجزیہ کیا ہے۔

فوکو کے نظام خیال میں اس کے ضابطہ علم اور ڈسکورس یعنی کلامیہ کے نظریات کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ ہر چند دونوں باہم مربوط ہیں۔ مگر تفہیم میں آسانی کی خاطر دونوں کو الگ بحث میں لایا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں؛ بیانیہ ذہن کو کیسے کنٹرول کرتا ہے؟

فوکو کے پیش نظر مغربی فکر اور ثقافت کی تاریخ ہے وہ اس تاریخ میں رونما ہونے والے مدو جزر کی نوعیت کو جاننا چاہتا اور تعبیر کرنا چاہتا ہے۔ ضابطہ علم کے تصور کو بطور کلید استعمال کرتا ہے۔

ضابط علم، ان ضوابط اور قوانین کا مجموعہ ہے جو ایک ایک خاص زمانے میں تمام فکری، علمی، سائنسی اور لسانی سرگرمیوں (ڈسکورس) کے پس پردہ بطور ایک کُل کار فرما ہوتے ہیں۔

فوکو اس بات کا قائل ہے کہ ایک تاریخی دور کا خاتمہ اور دوسرے کا آغاز کسی فلسفہ یا نظریہ سے نہیں بلکہ سماجی طاقت کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ ملحوظ خاطر رہے کہ سماجی طاقت، سیاسی یا آئینی طاقت کے مترادف نہیں۔ ایک عہد کا دوسرے عہد سے تعلق کس نوعیت کا ہے اس پر ہیگل اور فوکو متفق نہیں ہیں۔

ہیگل کے مطابق فکر کا تسلسل انسانی شعور کی طرح ہے جو سیکھتا، یاد رکھتا اور آگے منتقل کرتا ہے۔ وہ مطلق خیال یا وحدت میں یقین رکھتا ہے۔ فوکو نے اپنی کتاب دی آرڈر آف تھنگز میں ضابطہ علم کی تاریخ پیش کی ہے۔ اس نے گزشتہ پانچ صدیوں کی چار بڑے ضابطہ علم کو نشان زد کیا ہے۔

نشاۃ ثانیہ، کلاسیکی، جدید اور پس جدید۔ اس ضمن میں فوکو نے مختلف علوم کے باہمی ارباط کا مطالعہ کیا ہے۔ نشاۃ ثانیہ کا ضابطہ علم کا سب سے بڑا امتیاز وحدت ہے۔ انسان اور غیر انسان میں تفریق موجود نہیں ہے۔ اسی وجہ سے کوئی انسانی سائنس بھی نہیں ہے۔ نہ اس کی ضرورت کا احساس ہی ہے۔

سترہویں صدی کے آغاز میں کلاسیکی دور شروع ہوتا ہے۔ نشاۃ ثانیہ کی وحدت میں دراڑ پڑتی اور ایک سادہ ثنویت جنم لیتی ہے۔ انسان اور نا انسان کی تفریق اُبھرتی ہے، طبعی دُنیا معروض بنتی ہے جسے انسانی ذہن بطور موضوع سمجھتا ہے اور اس کے نتیجے میں طبعی سائنسیں اور سماجی سائنسیں رواج پاتی ہیں۔

یہ پڑھیں؛ بیانیے کا جنم کیسے ہوتا ہے؟

اٹھارویں صدی کے خاتمے پر نیا ضابطہ علم کا ظہور ہوتا ہے۔ اب انسان کا سامنا ان قوتوں سے ہوتا ہے جو اشیاء کے باطن میں کار فرما ہیں۔ انہیں آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ فقط ان کے اثرات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ گویا اب علم بصارت کی زد سے باہر ہے۔ طبعی سائنسوں میں ٹھوس اجسام کے براہ راست مشاہدے کی جگہ بجلی، حرارت اور مقناطیسیت ایسے غیر ٹھوس عوام کو جگہ ملتی ہے۔ جنہیں فقط ان کے اثرات کی رو سے گرفت میں لیا جاسکتا ہے۔

معاشیات میں قابل مشاہدہ اسباب کی جگہ اس انسانی محنت نے لے لی ہے اسباب جس کی پیداوار ہیں اور جو دراصل اسباب کی گزشتہ تاریخ میں پوشیدہ ہے۔ اب عمل طبعی سائنسوں کی قوتوں کی مانند اشیاء کی قدرو قیمت کا پیمانہ اور معیار ہے۔ مارکس اس معاشی فکر کا نمائندہ ہے۔

حیاتیات میں زندہ عضویہ کے مطالعہ میں یہ تصور رائج ہوتا ہے کہ خارجی اعضاء اور خدوخال داخلی نظام کو ظاہر اور مجسم کرتے ہیں۔ عضویے کے اندرونی وظائف کا مشاہدہ ممکن نہیں مگر ان وظائف کو خارجی اعضاء کی کارکردگی کے حوالے سے گرفت میں لیا جاسکتا ہے۔

اس طرز فکر نے ڈارون کے فلسفہ ارتقاء کی پیش روی کی جس میں عضویوں کی گزشتہ اور پوشیدہ تاریخ کو مرکزیت حاصل ہے۔ اسی طرح زبان کے مطالعہ میں تاریخی لسانیات کا آغاز ہوتا ہے۔ زبانوں کے واحد عظیم پیٹرن کلاسیکی خواب پاش پاش ہوجاتا ہے۔ اس کی جگہ زبانوں کی کثرت لے لیتی ہے اور ہر زبان ایک ماضی اور ارتقاء کی تاریخ رکھتی ہے۔

مختلف انواع کی مانند اب زبان پہلے کی طرح شفاف نہیں ہے بلکہ ایسی قوتوں سے لبریز ہے جنہیں زبان بولنے والے کبھی براہ راست مشاہدہ نہیں کر سکتے۔

جانیئے؛ سائنسی بیانیہ اور مابعد نوآبادیات پر مکالمہ

فوکو پس جدید فکر کی موجودہ صورتحال کو معرض بحث میں لانے کے بجائے اس کے مستقبل کی ممکنہ صورت کی پیش گوئی کرتا ہے۔ اُس کے خیال میں پس جدید فکر نہ تو خالص منطقی و استدلالی علم کی حامل ہوگی نہ اس کی یکسر نفی پر استوار بلکہ ایک خاص قسم کی سریت کی علم بردار ہوگی۔

وہ ڈسکورس کی تمام صورتوں کو ایک لفظ، تمام کتابوں کو ایک صفحہ اور پوری کائنات کو ایک کتاب میں یکجا کرنے کا آرزو مند ہے۔ وہ ایک ایسی بصیرت کا متلاشی ہے جو معلوم اور نامعلوم دونوں کو بیک وقت گرفت میں لے سکے۔ وہ پس جدید فکر کی موجودہ روش ساٹھ اور ستر کی دہائی سے بیزاری کا اظہار بھی کرتا ہے۔

ڈسکورس کے معنی یہ بھی ہیں کہ آگے اور پیچھے دوڑنا۔ فرانسیسی زبان میں اسے تاریخ کی متخالف اصطلاح کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ تاریخ ایک ایسا بیانیہ ہے جو غیر شخصی اور معروضی ہے۔ جبکہ ڈسکورس تحریر کی وہ قسم ہے جس میں مصنف کی ذات قاری کی شخصیت سے ہم کلام ہوتی ہے۔

انگریزی میں ڈسکورس متعدد معانی میں رائج ہے۔ یہ کسی بھی موضوع پر عام گفتگو سے لے کر کسی عالمانہ موضوع پر مدلل اور پُر مغز مقالے کے لیے مستعمل ہے۔ لسانیات میں اس سے مراد وہ تجزیہ ہے جو جملوں کے روابط اور ان روابط کے قوانین کے مطالعہ سے عبارت ہے۔

فوکو کی نظر میں اجتماعی اور ثقافتی زندگی میں ہر جگہ اور ہر شے ڈسکورس ہے۔ تمام طبعی اور انسانی سائنسیں، علوم و فنون ڈسکورس ہیں۔ وہ سب کچھ جو کہا جاتا اور کیا جاتا ہے یعنی زبان اور عمل ڈسکورس کے اندر ہیں۔

پڑھیں؛ پاکستان کی اشرافیہ اور تعلیم کا حاکمیتی ماڈل

گویا ڈسکورس کے وجود میں آنے اور کارفرما ہونے کے اپنے قوانین ہیں، جو باہر سے نہیں، خود ڈسکورس کے اندر سے، ڈسکورس کی تشکیل کے عمل میں نمودار ہوتے ہیں اور اس پر لاگو ہوجاتے ہیں۔ ڈسکورس اپنا معروض اور معروضیت کا معیار خود مقرر کرتا ہے۔ ڈسکورس چونکہ سماجی قوتوں کے زیر اثر ہے لہذا سماجی قوتوں کے مراکز ڈسکورس کی موڈایلیٹی تشکیل دیتے ہیں اور پھر دُنیا ویسی اور اتنی ہی دکھائی دیتی ہے جس کی اجازت ڈسکورس دیتا ہے۔

ڈسکورس یہ بات متعین کرتا ہے کہ کس کو کس بات کہنے کا حق ہے اور کس کو نہیں ہے۔ چنانچہ اس سے مختلف ڈسکورسز کے درمیان کشمکش شروع ہوتی ہے، فکر و نظر سے لے کر اعمال و افعال سب ڈسکورس کے زیر اثر ہوتے ہیں۔

ہر ڈسکورس بعض پاپندیوں کے تحت خود کو منکشف کرتا ہے۔ فوکو ان پاپندیوں سے مراد تاریخی، سماجی اور سیاسی بندشوں کا محدود مفہوم نہیں لیتا، بلکہ انہیں ایسے قوانین سے موسوم کرتا ہے جو ڈسکورس کے اندر مخفی رہ کر کام کرتے ہیں اور جو یہ طے کرتے ہیں کہ کیا کہا جاسکتا ہے اور کیا نہیں۔ کون کس موضوع پر اتھارٹی ہے اور کون نہیں ہے، کیا درست ہے اور کیا غلط، کیا مفید اور کیا غیر ضروری ہے۔

فوکو کے مطابق ہر ڈسکورس میں طاقت اور خواہش شامل ہوتی ہے چونکہ ڈسکورس صداقت طلبی کا داعی بھی ہوتا ہے اس لیے وہ خواہش اور طاقت دونوں کو چھپاتا ہے۔ اُس کے نزدیک طاقت ایک مادی شے ہے اور جہاں طاقت ہے وہاں سیاست بھی ہے۔ وہ سیاست کو محض عمومی طبقاتی تعلقات میں مقید نہیں کرتا بلکہ اس میں خانگی تعلقات، مکتبی تعلقات، اولاد اور والدینی تعلقات، سیاسی، معاشی، جنسی سب روابط شامل ہیں۔

فوکو کے اپنےاستدلال کے مطابق ہر ڈسکورس یا فکر اپنے عہد کے ضابط علم سے مستیز ہوتی ہے اور فوکو کے نظریات بھی بیسویں صدی کے ضابط علم کی پیداوار ہیں۔


nasir abbas nayyar

ناصر عباس نیئر نقاد اور مابعد نوآبادیات پر اپنا ایک نظریہ رکھتے ہیں وہ اورئینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں اور اُردو سائنس بورڈ میں بطور ڈائریکٹر جنرل بھی تعینات ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *