انگریز کا وفادار پنجاب کا طاقتور سید خاندان! دوسری قسط
- October 12, 2018 12:47 pm PST
اکمل سومرو
انگریز سرکار نے اپنے وفاداروں کے لیے مختلف عہدے اور خطابات تشکیل دیے تھے اور ان عہدوں و خطابات کی بنیاد پر افراد کی سماجی حیثیت کا تعین بھی کیا جاتا تھا چنانچہ خان بہادرکا خطاب بھی انہی میں سے ایک ہے۔
گزشتہ کالم میں فقیر سید خاندان کا شجرہ نسب پیش کیا گیا تھا۔ فقیر سید افتخار الدین 1886ء میں انگریز حکومت میں شامل ہوئے اور 1899ء میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوئے۔ پنجاب حکومت میں میر منشی کا عہدہ ملا بعد میں راولپنڈی بطور ریونیو اسسٹنٹ تبادلہ ہوگیا اور پھر اسسٹنٹ سیٹلمنٹ آفیسر مقرر ہوئے۔ اس کے بعد حکومت نے 1907ء میں انھیں افغانستان میں اتاشی مقرر کیا۔
انگریز سرکار نے انھیں وفاداری کےعوض لائل پور میں ایک ہزار ایکٹرز اراضی عطیہ کی اور لاہور میں 200 ایکٹرز اراضی دی گئی۔ فقیر سید افتخار الدین نے اپنی بیٹی مبارک بیگم کی شادی 1904ء میں سید مراتب علی سے ہوئی۔ سید مراتب علی کے والد سید وزیر علی کا تعلق لاہور کے علاقے رنگ محل سے تھا اور انھوں نے جنگ آزادی کے بعد 1858ء میں لاہور کنٹونمنٹ میں ایک دُکان سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا تھا. سید وزیر علی نے 1875ء میں فیروزپور میں کنٹونمنٹ میں بھی کاروبار کا آغاز کیا یہاں پر برطانوی فوج کے لیے بہت بڑی چھاؤنی قائم تھی اس طرح سید مراتب علی کے والد سید وزیر علی کا برطانوی فوجی افسران کے ساتھ تعلق بڑھتا چلا گیا۔
فقیر سید افتخار الدین انگریز کے مراعات یافتہ تھے، افغانستان میں اتاشی مقرر ہونے کی بناء پرسید افتخار الدین نے اپنے داماد کو افغان حکمرانوں کے ساتھ متعارف کرایا چنانچہ اس دوران بادشاہ کے وفد کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سید مراتب علی کو سونپ دی گئی، افغان حکمران خاندان کے ذریعے سے سید مراتب علی دہلی سلطنت پر قابض انگریز سرکار سے متعارف ہوئے۔ سید افتخار الدین کا داماد ہونے کی بناء پر برطانوی فوج کی نگہداشت کے متعدد کنٹریکٹس سید مراتب علی کو ملنا شروع ہوگئے.
ضرور پڑھیں: انگریز کا وفادار پنجاب کا طاقتور سید خاندان! پہلی قسط
سید مراتب علی پوری پوری رجمنٹ کی دیکھ بھال کرتے، برطانوی فوج کی رجمنٹس ایک شہر سے دوسرے شہر میں اوسطاً دو سال بعد شفٹ ہوجاتی تھی اور اس دوران بھی سید مراتب علی کو کنٹریکٹس ملتے رہے چنانچہ رنگون(برما)، چٹاکانگ، مدراس(ساؤتھ انڈیا)، بمبئی (ویسٹرن انڈیا)، پشاور، لنڈی کوتل میں موجود برطانوی فوجوں کی رجمنٹس کی دیکھ بھال کے کنٹریکٹ بھی سید مراتب علی کو دے دیے گئے۔ یہ فوجی چھاؤنیاں ہندستان میں آزادی کی تحریکوں اور حُریت پسند ہندستانیوں پر نگرانی رکھنے اور کسی بھی بغاوت کو فوری طور پر کچلنے کے لیے بنائی گئی تھیں اور ان چھاؤنیوں میں موجود سامراجی فوج کی خدمت گزاری سید مراتب علی کر رہے تھے۔
برطانوی فوج کی خدمت گزاری کے عوض سید مراتب علی کو بھاری معاوضہ دیا جا رہا تھا جس نے انھیں تیزی سے امیر کر دیا اور انگریز کو اپنی وفاداری کے لیے سید خاندان سے ہی نیا خون مل گیا۔
جنگ عظیم اول کے دوران 80 ہزار Italian فوجی قیدیوں کو بھوپال لایا گیا، ان فوجی قیدیوں کی دیکھ بھال کا کنٹریکٹ بھی برطانوی سرکار نے سید مراتب علی کو دیا۔ اس کے بعد مری میں جو برطانوی فوجی تفریح کی غرض سے جاتے تھے ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی سید مراتب علی کو سونپی گئی۔
ایک عاجز گھرانے سے اپنی زندگی کی شروعات کرنے والا سید مراتب علی 1932ء میں افغانستان جانے والے انڈین ٹریڈ وفد میں شامل ہوگیا، سید مراتب علی کی صلاحیت اور انگریز سے وفاداری کے عوض انھیں 1935ء میں انھیں Reserve Bank of India کا فاؤنڈنگ ڈائیریکٹر تعینات کر دیا گیا۔ ایف سی کالج سے متصل 60 ایکٹرز اراضی، لاہور جم خانہ کے سامنے قائم واپڈا کالونی کی ملکیت بھی سید مراتب علی کی تھی.
سید مراتب علی کے چار بیٹے تھے۔ سید امجد علی (1906ء)، سید افضل علی (1909ء) ، سید واجد علی (1911ء) اور سید بابر علی (1926ء) جبکہ پانچ بیٹیاں تھیں۔ سُریا، فاخرہ، گُلو، کشور اور سروت۔
امپریل فوج کے ساتھ مراسم ہونے کی بناء پربڑے بیٹے سید امجد علی فوج میں بھرتی ہوگئے لیکن دو سال بعد فوج چھوڑ دی اور والد سید مراتب علی نے انھیں برطانیہ بھیج دیا۔ لندن میں پہلی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے دوران سید مراتب علی سر ظفر اللہ کو فون کر کے کہا کہ سید امجد علی لندن میں ہیں کانفرنس میں شریک مسلم وفود کا اعزازی سیکرٹری انھیں بنا دیا جائے، اعزازی سیکرٹری کا عہدہ ملنے کے بعد سید امجد علی کو ہندستان کی متحرک سیاسی قیادت سے لندن میں ہی ملاقاتوں کا موقع میسر آیا یہ موقع بعد میں سیاسی کیرئیر میں بدل گیا چنانچہ سر فضل حسین نے جب پنجاب میں یونینسٹ پارٹی بنائی تو سید امجد علی کو اسسٹنٹ سیکرٹری کا عہدہ دیا گیا۔
برطانوی سامراج کی جانب سے 1937ء میں کرائے گئے مشروط انتخابات میں سید امجد علی الیکشن لڑا اور فیروز پور سے صوبائی اسمبلی کا ممبر بن گیا، پنجاب کے وزیر اعلیٰ سر سکندر حیات نے سید امجد علی کو پارلیمنٹری سیکرٹری تعینات کر دیا۔
سید امجد علی کے والد سید مراتب علی چونکہ امپریل فوج کے کنٹریکٹر تھے اس لیے انھیں اپنے خاندان کو صنعت کار کا درجہ دلانے میں بھی آسانی ہوئی، چنانچہ سید امجد علی نے انگریز کے کنٹرول پنجاب میں الیکشن جیتنے کے بعد لائل پور ایگری کلچر کالج کے پہلے پرنسپل اور ممبر اسمبلی Sir William Roberts کے ساتھ مل کر ریاست بہاولپور میں رحیم یار خان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کھولنے کا منصوبہ بنایا اوربمبئی میں کام کرنے والی Liver Brothers Company کو ریاست بہاولپور میں ویجیٹیبل گھی فیکٹری اور سوپ فیکٹری کے منصوبے پر کام کرنے کی آفر کی۔ بمبئی میں کام کرنے والی لیور برادرز کے ساتھ سید مراتب علی کے بیٹے سید واجد علی کے قریبی مراسم تھے کیونکہ وہ 1940ء سے لے کر 1947ء تک بمبئی میں ہی مقیم تھے۔
سید مراتب علی نے اپنے بیٹے سید امجد علی کو رحیم یار خان ریلوے اسٹیشن کے قریب 150 ایکٹرز زمین دلوائی، چونکہ ریاست بہاولپور کے نواب نے انگریز فوج کا جنگ عظیم دوئم میں ساتھ دیا تھا وہ بطورانعام انگریزوں نے بہاولپور میں انڈسٹری لگانے کی پیش کش کی۔ اسی ذیل میں سید مراتب علی نے اپنے بیٹے سید امجد علی کے ذریعے سے 150 ایکٹرز زمین پر ٹیکسٹائل انڈسٹری لگائی اور لیور برادرز کمپنی کو سوپ اور گھی فیکٹری لگانے کے لیے زمین آفر کی۔
سید امجد علی کو لیور برادرز کی ان دونوں فیکٹریوں کا فاؤنڈنگ ڈائریکٹر تعینات کیا گیا، لیور برادرز کے نام سے یہ کمپنی آزادی کے بعد بھی پاکستان میں 2002ء تک کام کرتی رہی اور پھر نام تبدیل کر کے Uniliver پاکستان لمیٹیڈ رکھ دیا گیا ہے آج پاکستان میں متعدد پراڈکٹس اسی کمپنی کی تیار کردہ ہیں۔
جنگ عظیم دوئم کے دوران ہی ہندستان میں آزادی کی تحریک تیز ہوگئی تھی اور جنگ کے بعد برطانوی سامراج اپنے فوجی اخراجات میں کمی کر رہا تھا چنانچہ جو Imperial Military Contracts سید مراتب علی کے لیے دو دہائیوں سے منافع بخش کاروبار بن چکے تھے اب اس کا مستقبل تاریک تھا اس لیے ملٹری کنٹریکٹ کا متبادل انڈسٹری میں تلاش کیا گیا اور اس کے لیے بھی انگریز سرکار سے معاونت لی گئی۔ سید مراتب علی کو برطانوی فوج کی خدمت کرنے اور انگریز سے وفاداری کے بدلے میں “سر” کا خطاب دیا گیا.
قیام پاکستان کے بعد سید امجد علی کو آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لیے 1950ء میں جانے والی سپیشل مشن ٹیم کے ساتھ بھیجا گیا، بعد ازاں سید امجد علی کو واشنگٹن میں پہلا اکنامک منسٹر تعینات کیا گیا اور حکومت پاکستان نے 1954ء میں انھیں امریکہ میں پاکستانی سفیر تعینات کر دیا ، سید امجد علی کو اقوام متحدہ کی اکنامک اینڈ سوشل کونسل کا چیئرمین تعینات کر دیا گیا۔
انگریزوں سے فوجی خدمت کے کنٹریکٹ لینے والے سید مراتب علی کے دوسرے بیٹے سید واجد علی دہلی میں برطانوی فوجیوں کی خدمت گزاری پر معمور تھے جس کے عوض اس سید خاندان کو پیسے ملتے تھے، دوسری جنگ عظیم کے دوران دہلی میں سید واجد علی ایک لاکھ فوجیوں کی نگہداشت کرتے رہے، سید واجد علی کی 1940ء میں شادی کے موقع پر گورنر پنجاب Sir Henry Craik نے خصوصی طور پر شرکت کی تھی۔
سید مراتب علی کے چوتھے بیٹے سید بابر علی ایچی سن کالج کے تعلیم یافتہ ہیں۔ سید مراتب علی نے برطانوی افسران سے قریبی مراسم ہونے کی بناء پر اپنے چوتھے بیٹے سید بابر علی کو 1934ء میں ایچی سن کالج داخل کرایا، ایچی سن کالج کی اس وقت ماہانہ فیس 105 روپے تھی اور کالج میں صرف 84 طلباء زیر تعلیم تھے۔
یہ وہی ایچی سن کالج ہے جہاں پر پنجاب کے جاگیر دار، سرمایہ دار، راجوں، والہیان ریاست اور انگریزوں کی حکومت کے وفادار خاندانوں کے بچوں کو تعلیم دی جاتی تھی، یہاں برہمنوں کا ایک خاص طبقہ تیار کیا جارہا تھا جہاں آج بھی زیر تعلیم بچوں کی اکثریت کا تعلق اسی رولنگ ایلیٹ کلاس سے ہے۔ سید بابر علی کی تعلیم اسی طبقے کے بچوں کے ساتھ ہوئی اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوگئے یہاں سے مئی 1945ء میں بی ایس سی کا امتحان پنجاب یونیورسٹی کے تحت پاس کیا جب یونیورسٹی نے اس نتیجہ کا اعلان کیا تو اُس وقت جنگ عظیم دوئم عروج پر تھی۔
دسمبر 1946ء میں سید بابر علی یونیورسٹی آف مشی گن امریکہ چلے گئے، مشی گن یونیورسٹی میں داخلے لیے سر ظفر اللہ نے سید بابر علی کی مدد کی تھی جبکہ سید بابر علی کی فیس کی ادائیگی کے لیے ڈالرز اور پاؤنڈز میں بنک ڈرافٹ ریزرو بنک آف انڈیا سے بنوائے گئے تھے یہ وہی بنک ہے جہاں پر سید بابر علی کے والد سید مراتب علی کو انگریزوں نے فاؤنڈنگ ڈائیریکٹر لگایا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد جب سر ظفر اللہ خان وفد کے ہمراہ امریکہ جانے لگے تو سید مراتب علی نے استدعا کی امریکہ میں موجود سید بابر علی کو وفد کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جائے اور نیو یارک میں سر ظفر اللہ خان نے سید بابر علی کو بلا لیا تھا اور1948ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران سید بابر علی بطور اسسٹںٹ کام کیا۔
یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک طالبعلم پاکستان کے اعلیٰ ترین وفد کے ساتھ غیر سرکاری طور پر نیو یارک میں مقیم رہے اور اُن کے ساتھ کام کرے جس کا اعتراف 11 جون 1948ء کو سر ظفر اللہ خان نے سید بابر علی کو لکھے گئے خط میں کیا۔ واضح رہے کہ اس وقت سید بابر علی کی عُمر صرف 22 سال تھی۔ انگریز کے مراعات یافتہ اس سید خاندان نے پیکجز، لمز، نیسلے کے ساتھ اشتراک سمیت دیگر ادارے کس طرح سے بنائے اور سید بابر علی کی شادی میں کون کون لوگ شریک ہوئے اور یہ شادی امریکہ میں کیوں ہوئی، اس کی تفصیلات آگے بیان کی جائیں گی۔
ایک طرف یہ سید خاندان انگریزوں کی وفاداری کے عوض طاقتور ہو رہا تھا تو دوسری جانب مذہبی شناخت کی بنیاد پر پیری، گدی نشینی کی سیاست کی بنیاد پر ملتان کے سید گیلانی خاندان، جھنگ کے بخاری سید خاندان وغیرہ کو انگریز کی جانب سے طاقت بخشی جارہی تھی یہ وہ خاندان تھے جنہوں نے 1857ء کی جنگ آزادی میں اس دھرتی سے غداری کی، مقامی لوگوں کی گرفتاریوں اور قتل و غارت گری کے لیے فوجی طاقت انگریزوں کو فراہم کی اور بطور انعام انگریزوں سے جاگیریں وصول کیں، انہی پیری اور گدی نشینی کی سیاست کو سید خاندان میں مضبوط کرنے کے لیے Land Alienation Act 1900 نافذ کیا گیا اور 1937ء سے لے کر 1946ء کے الیکشن تک پنجاب میں سجادہ نشینی کی سیاست کا نیا طاقتور طبقہ پیدا کر دیا گیا۔۔۔ جاری ہے۔۔۔۔