کالجوں کا الحاق: ایچ ای سی کی غیر آئینی حاکمیت کا تنازعہ
- November 24, 2023 10:17 pm PST
اکمل سومرو
میری فیس بُک کی پوسٹ پر شعبہ سیاسیات کے میرے اُستاد اور پروفیسر نے سوال اُٹھایا : آج پتہ چلا کہ آئین کی تشریح کا اختیار پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے پاس آگیا ہے۔ پاکستان سن 47ء سے ہی آئینی بحران یا تشریحات کا شکار رہا ہے، ان تشریحات کے لیے کمیشن بنتے ہیں، آئینی حدود متعین ہوتی ہیں، پھر پامال ہوتی ہیں، آمریت کو آئینی چھتری مہیا کی جاتی ہے، اگر آئینی چھتری نہ میسر ہوتو پھر اپنا آسمان بنا لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں 2010ء کے بعد سے، آئینی حدود کا تنازعہ بار بار جنم لیتا رہتا ہے، جیسے ہی اختیارات کے دائرہ کار کا سوال اُٹھتا ہے ویسے ہی آئینی یا تشریحی مسائل جنم لیتے ہیں۔
سیاسیات میں تو آئینی مسئلے کو ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا گیا ہے اور اگر نوک کی چبھن سے بچنا مقصود ہوتو پھر یہ خاکی رنگ کا جوتا پہن لیا جاتا ہے، پاؤں میں نہیں گلے میں، پھولوں کا ہار تصور کر کے ، سینے سے لگایا جاتا ہے۔ سیاسیات میں تو یہ تنازعات نوآبادیاتی باقیات کی باہمی جنگ کا نتیجہ ہے لیکن تعلیم میں جب یہ تنازعات جنم لیں تو اس سے علم پروری کی جگہ علم دُشمنی اور علم دوستی کی جگہ آمرانہ حاکمیت مسلط کرنے کی بھونڈی کوشش ہوتی ہے۔
حال ہی میں، تعلیمی حدود کے تعین کا مسئلہ ایک بار پھر سنگین صورت اختیار کر گیا ہے، پہلے جب رانا صاحب تعلیمی وزیر بنے انھوں نے ایچ ای سی ترمیمی ایکٹ کے ذریعے سے صوبائی خودمختاری پر حملہ کیا، حالاں کہ بقول رانا صاحب، تعلیم کے ساتھ رانا کا کیا تعلق بنتا ہے اس کے باوجود انھوں نے زبردستی تعلق استوار کرنے کی کوشش کی۔ اب کی بار، ایکٹ کی جگہ پالیسی کے ذریعے سے ہائیر ایجوکیشن پر پنجاب کے آئینی اختیارات سلب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ تنازعہ ، پنجاب کی حدود میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی مداخلت سے متعلق ہے۔ پنجاب ایچ ای سی نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو مراسلہ بھیجا ہے جس میں کالجوں کے الحاق کی نئی پالیسی کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ایچ ای سی کی نئی پالیسی کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دینے کے باوجود پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے تجاویز پیش کرنے پر مجھے اعتراضات ہیں، جب ایک امر ہے ہی غیر آئینی تو پھر اس پر تجاویز دینا بھی غیر آئینی بنتا ہے، لیکن مجھے گویا یوں معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب ایچ ای سی وفاقی کمیشن کے ساتھ تنازعات کے برعکس درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہ رہا ہے۔
ہمیشہ یاد رکھیں، تنازعات کے پیچھے کی کہانی ہی اصل داستاں ہوتی ہے اور وہ داستاں معلوم ہوجائے تو تنازعہ یک دھاری یا دو دھاری ہے، بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ دو سرکاری اداروں کے مابین تنازعہ آئینی ہے البتہ اس کا محرک پنجاب میں پرائیویٹ کالجوں، یونیورسٹیوں کو آپریٹ کرنے والا وہ طاقت ور سرمایہ دار ہے جو فنانس کی طاقت سے سیاستدانوں، پالیسی ساز اداروں کو کنٹرول کی بھر پور صلاحیت حاصل کر چکا ہے وگرنہ ایسا کیسا ہو کہ گورنر پنجاب سرکاری یونیورسٹی کا دورہ کرنا بھی اپنی توہین سمجھیں اور لاہور کی پرائیویٹ یونیورسٹی کا دبئی میں کیمپس کھلوانے کے لیے گورنر ہاؤس میں ہی تمام بیوروکریسی کو طلب کر لیں اور کیمپس کھولنے کے لیے قانونی دستاویزات کی تیاری کے احکامات جاری کریں۔
جیسے سرمایہ دارانہ معیشت میں محنت کی جگہ زر کو اصل حقیقت تسلیم کیا گیا ایسے ہی سرمایہ دارانہ تعلیمی معیشت میں علم کو بہ طور کموڈیٹی تسلیم کیا گیا ہے کیوں کہ سرمایہ دار اس کموڈیٹی کو بہ طور پراڈکٹ تہرے منافع سے مارکیٹ میں غریب والدین کو بیچنے کے لیے اپنے کاروبار میں وسعت چاہتے ہیں اور ان سرمایہ داروں کی معاونت کے لیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے معیاری تعلیم کی جگہ کاروباری تعلیم کی ترویج کے لیے الحاق پالیسی جاری کی ہے۔
الحاق پالیسی میں ایچ ای سی نے پنجاب کے اختیارات کو بلڈوز کیا ہے، یہ کتنا خوف ناک و بھیانک منصوبہ ہے کہ پنجاب میں کسی کالج کو یونیورسٹی کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے ، پنجاب ایچ ای سی کی اجازت تک درکار نہیں حتیٰ کہ پنجاب ایچ ای سی اس پرائیویٹ کالج سے پوچھنے کا قانونی جواز بھی نہیں رکھتی، یہ دائرہ ایچ ای سی نے خود کھینچ دیا ہے اور دائرہ لگاتے ہوئے پنجاب کے آئینی اختیارات کو بھی خاکی بوٹ سے ڈھڈا کرانے کی کوشش کی گئی ہے حالاں کہ کمیشن کے پاس قلم ہے لیکن اقدامات بوٹ کی طرز پر کر رہا ہے۔
آئینی اختیارات ہونے کے باوجود، پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن ، ایچ ای سی سے اختیارات کے دائرے میں داخل ہونے کی سعی کر رہا ہے، یہ پی ایچ ای سی کی شرافت ہے، وگرنہ مشترکہ مفادات کونسل نے تین برس قبل ایچ ای سی کے اختیارات پر قانونی و آئینی دائرہ کھینچ دیا تھا۔
پنجاب ایچ ای سی تو کالج کی سطح پر ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرام کے اجراء کا بھی مخالف ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین ڈگریوں کو بھی کالجوں کے ہاتھوں فروخت کرنے کے لیے پیش کر دیا جائے۔ ایچ ای سی تو ایسے کالج کو بھی یونیورسٹی سے الحاق کرنے کی اجازت دے رہا ہے جس کے پاس دو کنال کی جگہ پرکرایہ کی عمارت ہے وہ بھی یونیورسٹی سے منسلک ہو اور ڈگریاں مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کردے ۔ پنجاب نے تو اعتراض اُٹھایا ہے کہ ایچ ای سی نئی الحاق پالیسی کے ذریعے سے اعلیٰ تعلیم کی مش روم گروتھ کو فروغ دینے جارہا ہے جس سے قومی تعلیمی ترقی کے امکانات کے برعکس کاروبار کو وسعت دینا ہے، تعلیم کاروبار نہیں بلکہ نالج اکانومی کا موثر ہتھیار ہوتا ہے۔
اگر آپ کے پاس 30 لاکھ روپے ورکنگ کیپٹل کے لیے موجود ہے تو مارکیٹ سے 800 سی سی آلٹو کار خریدنے کے بجائے کالج بنائیے ، کاروبار کیجئے کیونکہ ایچ ای سی نے آپ کے منافع کے لیے پالیسی بنائی ہے، پہلے گلی محلوں میں سکول کھلتے تھے اب گلی محلوں میں یونیورسٹیوں کے چھوٹے چھوٹے بچے کالجوں کی صورت میں پیدا ہوں گے۔
پنجاب میں ہائیر ایجوکیشن کو بہ طور کیموڈیٹی مارکیٹ میں فروخت کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے جاری کی گئی ایچ ای سی نے اپنی نئی پالیسی میں پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن ایکٹ 2014ء، پرائیویٹ کالج ایفیلیشن پالیسی پنجاب 2021 ء کو بھی اُردو بازار کی دکانوں پر ردّی میں فروخت ہونے والے کاغذوں کا ٹکڑا سمجھ لیا ہے۔
پنجاب کی تعلیم کو سیٹھوں کے حوالے کرنے کے لیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے یہ دوسرا حملہ کیا ہے جو نہ صرف خلاف آئین ہے بلکہ اختیارات کے آمرانہ رویہ کا شاخسانہ ہے، اعلیٰ تعلیم کے معیارات کو برقرار رکھنے اور انھیں کوالٹی ایجوکیشن کے ٹھوس فریم ورک میں لانے کے لیے دو قومی تعلیمی کمیشن کی ہرگز گنجائش نہیں ہے ، اگر یہ گنجائش پیدا کر دی گئی تو پھر اعلیٰ تعلیمی ڈگریوں کا وہی حشر نشر ہوگا جیسے چوری شدہ نئی گاڑیوں کا لاہور کی بلال گنج مارکیٹ میں ہوتا ہے۔