دینیات کا نصاب تعلیم اور جدید سماج

  • August 20, 2017 2:03 pm PST
taleemizavia single page

ارشد محمود

تعلیم کا مقصد فقط کسی فرد کو خواندہ بنانا یا اسے اپنی روٹی روزی بہتر طور پر کمانے کے قابل کرنا ہی نہیں ہونا چاہیے۔ تعلیم انسان کی فکری، تمدنی، تہذیبی اور مادی ترقی میں ایک زبردست نہایت گہرا اور کثیر الجہتی کردار ادا کرتی ہے۔

آزادی فکر کی فضا سے محروم تعلیمی عمل شخصیت میں بے شمار پیچیدگیاں پیدا کرسکتا ہے۔ اول ذہانت میں اضافہ نہیں ہوگا جو تعلیم کا بنیادی مقصد ہے۔ دوسرا صرف نقالی آئے گئی۔ علم اور ٹیکنالوجی کو خود تخلیق کرنے سے قاصر رہیں گے۔ تیسرا، دوہری شخصیت کا شکار ہوتا ہے۔ ایک طرف جدید دُنیا کی چمک اپنی طرف کھینچے گی دوسری طرف قدامت پرستی پاؤں کی زنجیر بنی ہوگی۔

نتیجہ یہ نکلے گا کہ معاشرہ خود سے ہی برسرپیکار ہوجائے گا۔ یہ وہ صورتحال ہے جس کا شکار پاکستان کا سماج ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہورہا ہےاس کے لیے جراءت مندانہ تجزیے اور خود تنقیدی کی ضرورت ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ بحثیت قوم ہم چاہتے کیا ہیں؟

کیا ہم ایک جدید مہذب ریاست کے زیر سایہ ترقی یافتہ صنعتی قوم بننا چاہتے ہیں یا صدیوں پرانے کسی قبائلی، نیم فیوڈل اور ناخواندہ معاشرے کی پاکیزہ اخلاق و اقدار کو گلے لگائے رکھنا چاہتے ہیں؟

پڑھیں؛ کیا تعلیم فارمیشن کا نام ہے؟

تاریخی قوانین اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ معاشرہ تو ترقی یافتہ ہو لیکن اس کے نظریات اور اقدار صدیوں پرانے کسی بوسیدہ معاشرے سے متعلق ہوں۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ دین دار اور اخلاقیات کی علمبردار قوموں کے مقدر میں سیاسی اور اقتصادی پس ماندگی کیوں لازمی طور پر لکھی ہے؟

جب تہذیب و تمدن کا ارتقاء تیزی سے ہونے لگا تو دنیاوی علوم تعلیمی نصاب کا حصہ بننے لگے۔ انسان کے عمل اور سوچ کے دائرے وسیع ہوئے تو دنیاوی علوم کیفیتی اور کمیتی لحافظ سے علم الہیات سے سبقت لے گئے۔

دنیاوی و مادی علوم نے کائنات کے بارے میں انسان کی آگاہی میں ایسے اضافے کیے کہ علم الہیات کے دائرہ کار میں آنے والے موضوعات بھی سائنسی علوم کے انکشافات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

چنانچہ غیر سائنسی علوم یعنی سوشیالوجی، فلسفہ و نفسیات، اقتصادیات، تاریخ، اخلاقیات اور فنون و جمالیات سبھی نے علم الہیات سے خود مختار حیثیت اختیار کر لی جن کا منبع انسان کے مشاہدات و تجربات اور سائنسی دریافتوں پر مبنی حقائق بنے۔

اگر فلسفہ تعلیم اور تعلیم کے مقاصد کو سامنے رکھیں تو نصاب تعلیم میں دینیات پر زور دینے سے معکوس نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ تعلیم کاؤنٹر پراڈکٹیو بن جاتی ہے اور ان مقاصد کا ہی قتل ہو جاتا ہے جن کے لیے تعلیم دی جارہی ہوتی ہے۔

پڑھیں؛ مطالعہ پاکستان کا المیہ

محض مذہبی تعلیم دینے سے طالبعلم کے اندر سے آزادی فکر کا بیج نہیں پھوٹ سکے گا وہ زندگی اور کائنات کے یکطرفہ اور محدود نقطہ نظر میں بند ہوکر رہ جائے گا۔

محض مذہبی تعلیم پر زور دینے سے فرقہ پرستی اور کٹر پسندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اذہان تنگ دائرے میں بند ہوجاتے ہیں ایسے بند ذہن معاشرے کی ترقی و ارتقاء کے لیے خطرناک بن جاتے ہیں۔

ضرورت سے زیادہ مذہبی لگاؤ سائنسی انداز فکر کو پنپنے سے روکتا ہے۔ سائنس کی کلاس میں قوانین فطرت پڑھائے جاتے ہیں اور ارتقاء پر توجہ رکھی جاتی ہے مگر دینیات کی کلاس میں ایسا عقیدہ تخلیق دیا جاتا ہے جس سے اس دُنیا کے سب جمادات، نباتات اور حیوانات کے ارتقائی سفر کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا نہیں کرتا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا نصاب میں مذہب کی تعلیم شامل ہونی چاہیے؟دینیات کا مضمون اب نرسری سے لے کر یونیورسٹی کی اعلیٰ پیشہ وارانہ تعلیم بطور لازمی مضمون پڑھایا جاتا ہے۔ تعلیمی مفکر پال ہرسٹ کے مطابق سکولوں کا بنیادی کام علم کی ترسیل ہے عقائد سیکھانا نہیں ہوتا۔ اگر کسی کومذہبی تعلیم حاصل کرنی ہے تو اس کے لیے الگ سسٹم ہونا چاہیے۔ دینیات کی تعلیم حاصل کرنے پر کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے لیکن سب کو زبردستی تعلیم دینا جدید زمانے کے تقاضوں کے منافی ہے۔

مذہب کی تعلیم دیتے وقت ہمیں ایک فرق رکھنا چاہیے کہ ہم طلباء کو مذہب میں تعلیم یافتہ کرنا چاہتے ہیں یا انہیں مذہبی شخص بنانا مقصود ہے اگر دوسری بات ہے تو پھر وہ تعلیم نہیں رہے گی بلکہ تبلیغ بن جائے گی۔

ضرور پڑھیں؛ پاکستان کی اشرافیہ اور تعلیم کا حاکمیتی ماڈل

دینیات کے استاد کا کام یہ ہے کہ وہ طلباء کو مذہبی طور پر تعلیم یافتہ کرے، انہیں مذہب کے بارے میں غیر متعصب طریقے سے معلومات پہنچائے۔ دینیات کے اُستاد کو مبلغ کا درجہ نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ایسا کرنا تعلیم کی روح کے منافی ہوگا۔

پرائمری سے مڈل تک کے دینیات کے نصاب میں ہم نے بڑے بڑے مقدس متن زبانی یاد کرنے کے لیے رکھے ہوئے ہیں اس سے دورس منفی نتائج نکلتے ہیں بچوں کو رٹا لگانے کی عادت پڑ جاتی ہے اور وہ دیگر مضامین کے سوالوں کے جواب بھی رٹا لگا کر یاد رکھتے ہیں۔

بنیادی طور پر اب ہمیں اپنے نظام تعلیم کی از سر نو تشکیل کرنا ہوگی اور جس میں ہمیں مقاصد و اہداف مقرر کر کے نصاب میں وہ چیزیں داخل کرنا ضروری ہیں جس کے ذریعے سے ہم اپنے سماج کو ترقی کی جانب لے جا سکیں۔


arshad-mehmood

ارشد محمود لبرل خیالات رکھتے ہیں اُنہوں نے تعلیم اور ہماری قومی اُلجھنیں کے نام سے کتاب لکھی جسے بے حد پذیرائی ملی۔

  1. محترم آپ کا کالم ذہنی غلبے اور پسماندہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ آپ اپنے مطالعہ کو تھوڑا وسیع کریں۔۔۔۔۔۔ کچھ مغربی نظامِ تعلیم کا مطالعہ بھی کر لیں۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *