غلاموں کی تجارت میں امریکی یونیورسٹیوں کا کردار

  • July 9, 2022 11:54 pm PST
taleemizavia single page

اکمل سومرو لاہور

تاریخ، وہ کسوٹی ہے جو ماضی کے جھروکوں سے کسی بھی ریاست، قوم، تہذیب، روایات اور سیاسی و سماجی  کا جائزہ لینے میں معاونت کرتی ہے۔ تاریخ نویسی یا مطالعہ تاریخ پیچیدہ مسئلہ ہے تاہم اتنا پیچیدہ بھی نہیں کہ سلجھایا نہ جا سکے۔ گزشتہ ایک صدی میں عالمی سماج نے جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے نتائج دیکھے ہیں۔ دونوں افکار کی پیدائش مغرب میں ہوئی گویا اس میں گلوبل ساؤتھ کے سماجی تجربات اور علمی مشاہدات کو مناسب جگہ مہیا نہیں کی گئی۔ جدیدیت نے عالمی سرمایہ داریت کی جڑیں مضبوط کیں اور ردّ عمل میں مابعد جدیدیت نے سرمایہ داریت کے خلاف کسی بھی منظم فکر کے ذریعے تنظیمی قوت پیدا ہونے کے عمل میں رکاوٹ پیدا کی۔ دونوں سکول آف تھاٹ کے مفکرین نے بالواسطہ یا بلاواسطہ کیپٹل ازم کو مضبوط کیا۔ جدیدیت کی طرح، مابعد جدیدیت کا مرکز بھی مغربی یورپ اور امریکا بنا جو دراصل گلوبل کیپٹل ازم کا مرکزہ ہیں۔مابعد جدیدیت کی بنیاد تین ستون پر ہے۔ اوّل، ڈی کنسٹرکشن، دوم؛ بیانیہ اور سوم؛ تشخص۔

آخر الذکر عنصر کو امریکا نے جدیدیت اور مابعد جدیدیت میں اپنے قومی مفاد کے تحت عالمی سطح پر استعمال کیا۔ علم کی ترسیل و پھیلاؤ کا مرکزہ، امریکی جامعات ہیں اور اس علم کو مربوط طریقے سے پیش کر کے سرمایہ دارانہ معیشت کے لیے فوائد سمیٹنا، ہمیشہ بنیادی اہداف میں شامل رہا ہے۔ امریکی جامعات ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتراک اور فنڈنگ سے اپنی علمی ہیت و علمی رعب قائم رکھنے میں کامیاب ہوچکی ہیں۔ نئی تحقیق، نئے علوم کی دریافت، سائنسی ایجادات، ٹیکنالوجی کی ترویج کے لیے یہی ملٹی نیشنل کمپنیاں امریکی یونیورسٹیوں کو فنڈنگ مہیا کرتی ہیں اور پھر نئی ایجادات کو عالمی سماج کے استحصال میں استعمال کرتی ہیں۔ ہر ایجاد میں منافع کا حصول کارفرما ہوتا ہے، مقصد دولت سمیٹنے کے لیے جدت طرازی پر مبنی مادی تصورات کو کیپٹلائزڈ کرنا ہوتا ہے۔

سرمایہ دارانہ معیشت کی تقویت کے لیے امریکا نے 1955ء سے لے کر اب تک ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی گرانٹ 3 ارب 50 کروڑ ڈالرز سے 138 ارب 90 کروڑ ڈالرز تک بڑھا دی ہے۔ یہ امداد امریکی حکومت کی جانب سے ہاورڈ، سٹینفورڈ سمیت امریکا کی عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹیوں کو مہیا کی جاتی ہے۔ کانگرس کی حالیہ سرکاری رپورٹ کے مطابق، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی مد میں 468 ارب ڈالرز سالانہ گرانٹ مہیا کی جاتی ہے۔ گویا امریکا ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر سالانہ 656 ارب ڈالرز خرچ کرتا ہے۔ اگرچہ یہ کمپنیاں دولت پوری دُنیا سے سمیٹتی ہیں لیکن بیشتر ایجادات کے لیے فنڈنگ امریکی اداروں کو کی جاتی ہے نتیجتاً تیسری دُنیا کے ممالک کی حیثیت صرف صارف سماج کی حد تک برقرار رہتی ہے۔

 مابعد جدیدیت کے دانش ور، اپنے افکار میں سماج کا تحلیل و تجزیہ تو گہرائی سے پیش کرتے ہیں اور بیانیہ کی طاقت کے عناصر بھی بیان کرتے ہیں لیکن مابعد جدیدیت کے مقامی و عالمی مفکرین امریکی تشخص قائم کرنے کے لیے استعماری حربوں، استعماری تاریخ اور انسانی سماج کے المناک حقائق کو سرمایہ دارانہ معیشت سے جوڑنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں، غالباً ان دانش وروں کی روزی روٹی بھی انھی جدید اداروں سے پیوستہ رہنے میں ہی کارفرما ہے۔کیا غاصب تاریخ کے حامل کرداروں، اداروں یا افراد پر مسیحائی کی ملمعہ کاری کرنے سے جبر و استبداد پر مبنی حقائق کو دفن کیا جاسکتا ہے؟ کیا ماضی میں انسانی جرائم کے مرتکب اداروں یا افراد کو سماجی خدمت کے تناظر میں پرکھا جاسکتا ہے؟ والٹر ڈی مگنولو نے تو ڈارکر سائیڈ آف ماڈرینیٹی کتاب میں لکھا کہ نوآبادیاتی عہد میں مغربی یورپ کی ترقی کیلئے ایشیاء، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کی اقوام نے عہد ظلمت، جبر و استبداد، تاریکی اور پسماندگی کی صورت قیمت چکائی۔

کیا تعلیمی حلقوں میں کبھی یہ بحث ہوئی کہ دُنیا کی ٹاپ کلاس یونیورسٹی، ہاورڈ کے بانیان اور صدور انسانی غلاموں کی تجارت کا کاروبار کرتے تھے؟ اور کالونائزیشن کے عہد میں افریقی غلاموں سے بھرے ہوئے بحری جہازوں سے غلام خرید کر انھیں استعماری مقاصد کے لیے برؤئے کار لاتے تھے۔ افریقیوں کو زبردستی امریکا فروخت کیا جاتا اور ان سے زبردستی ریلوے ٹریک کی تعمیر سے لے کر صنعتوں میں استحصال پر مبنی مزدوری سمیت دیگر کام کرائے جاتے تھے۔ میں ذیل میں چند امریکی یونیورسٹیوں کا تذکرہ کروں گا جن کی تعمیر میں غلام افریقیوں کا خون شامل ہے۔

یہ واقعی تکلیف دہ ہے کہ جب تعلیم کا ذکر ہو تو نسل پرستی کی بنیاد پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں کی تاریخ بڑی حد تک بحر اوقیانوس کی دُنیا میں غلاموں کی تجارتی معیشت کے عروج سے جڑی ہے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ غلاموں کی تجارت سے حاصل شدہ منافع نے امریکا کی باوقار یونیورسٹیوں کو فنڈز فراہم کرنے میں مدد کی جس میں ہاوروڈ، کولمبیا یونیورسٹی، پرنسٹن یونیورسٹی، ییل یونیورسٹی، ورجینیا یونیورسٹی نمایاں ہیں، ان یونیورسٹیوں نے افریقیوں کو غلام بنانے اور ان کی مدد سے تعمیراتی منصوبوں کی تکمیل کی بھیانک تاریخ کی وارث ہیں۔

مذکورہ یونیورسٹیوں کی تاریخی عمارات پر نظر ڈالیں تو گویا یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکی تہذیب و تمدن میں ان عمارتوں میں پنپنے والے علوم نے ہی امریکا کو طاقت ور ملک بنایا، یہ عمارتیں پسماندہ ممالک کے طلباء پر یقیناً اپنی تاثیر و مرعوبیت پیدا کرتی ہوں گی لیکن ان یونیورسٹیوں کی پُر شکوہ عمارتوں کی بنیادوں میں کیا کیا سفاکیاں اور المناک داستانیں ہیں وہ شاید گمنام دریچوں میں بند ہو چکی ہیں۔

 تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ دُنیا کی قدیم جامعہ، ہاورڈ یونیورسٹی بھی غلاموں کی تجارت سے فائدہ اُٹھانے والوں میں شامل ہے۔ ہاورڈ یونیورسٹی کے اولین صدور و منتظمین اور عطیہ دہندگان نے غلاموں کی تجارت سے دولت کمائی۔ سترہویں صدی کے وسط تک، نوآبادیاتی عہد میں انسانی غلام یہاں لائے گئے، ان سے جبری جسمانی مشقت کرائی جاتی، ان غلاموں کے مالک اکثر ممتاز خاندانوں کے سربراہ تھے جو ہاورڈ یونیورسٹی کو ریگولر عطیات جمع کراتے۔

یونیورسٹی کے قیام سے لے کر 1636ء تک، میساچوسٹس کی سپریم جوڈیشل کورٹ نے غلاموں کی تجارت کو غیر قانونی قرار دے رکھا تھا تاہم اس کے باوجود ہاورڈ کے صدور، پروفیسرز نے افریقیوں کو غلام بنا کر رکھا، غلام مردوں، عورتوں نے ان صدور کی خدمت کی۔ اس پورے عرصے میں، اور 19 ویں صدی تک، یونیورسٹی اور اس کے عطیہ دہندگان نے غلاموں کی تجارت سے وسیع مالی فوائد حاصل کیے۔ ٹیکسٹائل مینوفیکچرنگ انڈسٹری میں سرمایہ کاری کا منافع بڑھانے کے لیے کپاس کی پیداوار کے لیے ان غلاموں سے کھیتی باڑی کرائی گئی۔ ہاورڈ یونیورسٹی کے صدور نے یہاں دوہرا منافع کمایا، کپاس کی پیداوار سے الگ اور کاٹن انڈسٹری میں سرمایہ کاری سے منافع الگ سمیٹا گیا۔ یوں افریقی غلاموں نے ٹیکسٹائل صنعت کی ترقی میں کردار ادا کیا۔ غلام مزدوروں کی محنت سے تیار شدہ کپاس ٹیکسٹائل کی پیداوار کا انجن اور امریکی معیشت کا پہیہ بنی۔ استحصال پر مبنی اس تکونی تجارت کیلئے غیر مقدس اتحاد کو قائم رکھنے میں ہاوروڈ یونیورسٹی سمیت آئیوی لیگ میں شامل دیگر یونیورسٹیوں کا جبرو استبداد پر مبنی کردار نمایاں تھا۔

جیمز پرکنز نے علم فلکیات اور علوم ریاضی کی پروفیسر کی نشست قائم کرنے کے لیے ہارورڈ یونیورسٹی کو 20 ہزار ڈالرز مہیا کیے، یہ پروفیسر شپ کا عہدہ 1842ء میں قائم کیا گیا۔ پرکنز اینڈ کمپنی افریقی غلاموں اور چین میں افیون کی تجارت کرتی تھی۔ جان میکلن نے پروفیسر آف آنشیئنٹ اینڈ ماڈرن ہسٹری قائم کرنے کے لیے 1834ء میں فنڈنگ دی۔ ہاورڈ یونیورسٹی میں لارنس سکول کے قیام کیلئے 1847ء میں ایک لاکھ ڈالرز عطیہ کیے۔  بینجامن بیسی نے 3 لاکھ 20 ہزار ڈالرز مالیت کی زمین مختص کی، ہاورڈ یونیورسٹی کو ملنے والے ایسے عطیات کی ایک طویل فہرست ہاورڈ یونیورسٹی اینڈ دی لیگیسی آف سلیوری کی رپورٹ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

امریکا کے مشہور ڈکنسن کالج کے بانی عطیہ کنندگان میں سے 60 فیصد ٹرسٹیز غلاموں کی تجارت کرتے تھے، جان ڈکنسن، بینجامن رش اور جیمز ولسن نمایاں ہیں۔ غلاموں کی تجارت کرنے والے جان آرمسٹرانگ، جیمز بُچانن، تھامس کوپر، جان منٹگمری کے ناموں پر ڈکنسن کالج میں عمارتیں قائم کی گئیں۔ غلاموں کی خرید و فروخت کرنے والے براؤن خاندان کے نام پر براؤن یونیورسٹی قائم کی گئی۔ براؤن یونیورسٹی کی تعمیر میں افریقی غلاموں سے جبری مزدوری کرائی گئی۔ یہ یونیورسٹی امریکا کی آئیوی لیگ کا حصہ ہے۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے بانی نے 272 افریقی غلاموں کو فروخت کرکے یونیورسٹی کی مالی معاونت کی، ان انسانوں کی قیمت فروخت ایک لاکھ پندرہ ہزار ڈالرز تھی جو کہ اب 30 لاکھ ڈالرز سے زائد بنتی ہے۔ 25 ہزار ڈالرز ڈاؤن پیمنٹ ملنے پر، 17 ہزار ڈالرز جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی عمارت کا قرضہ اتارنے کے لیے خرچ ہوئے۔

پرنسٹن یونیورسٹی کی غلاموں کی تجارت سے گہرے تعلقات تھے، یونیورسٹی کے بانیان میں شامل 23 ٹرسٹیز میں سے 16 ٹرسٹیز غلاموں کی خرید و فروخت اور تجارت کرتے تھے۔ یونیورسٹی کے پہلے 9 صدور افریقی غلاموں کی تجارت میں ملوث تھے، 1766ء میں پانچویں صدر سموئیل فنلے کی وفات پر پرنسٹن یونیورسٹی میں ہی غلاموں کی آکشن کی گئی۔  ییل یونیورسٹی کا تو نام بھی غلاموں کے تاجر ایلیھو ییل سے منسوب ہے۔ یونیورسٹی آف پینسلوانیا کے پہلے صدر بینجامن فرینکلن بھی غلاموں کی تجارت سے وابستہ تھے اور وہ اپنے اخبار پینسلوانیا گزٹ میں انسانوں کی خرید و فروخت کے اشتہارات بھی شائع کرتے تھے جبکہ یونیورسٹی کے 8 ٹرسٹیز اس کاروبار سے وابستہ تھے۔

امریکا کی عالمی شہرت یافتہ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے بانی جان ہاپکنز 1850ء میں غلاموں کے تاجر تھے اور وہ انسانی غلاموں کو بینکوں سے قرضہ حاصل کرنے کے لیے بہ طور ضمانت پیش کرتے تھے۔ یونیورسٹی آف ورجینیا بھی غلاموں کی تجارت کا مرکز رہی۔ 1817ء سے 1865ء کے درمیان 4000 افریقی غلام یونیورسٹی آف ورجینیا کی ملکیت تھے۔ یہ غلام کیمپس کے تعمیراتی پراجیکٹ پر جبری مشقت کرتے۔ اس یونیورسٹی کے بانی تھامس جیفرسن نے 600 انسانی غلاموں کی خرید و فروخت کی۔

اب مذکورہ یونیورسٹیوں نے اپنے انسانی جرائم کو تسلیم کر لیا ہے اور ان جرائم پر مبنی الگ الگ رپورٹس بھی جاری کر دی ہیں، ان رپورٹس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کی تاریخی یونیورسٹیوں کی جڑوں میں غلام انسانوں کا خون سینچا گیا ہے اور علمی ابتری قائم کرنے کے لیے انسانوں پر غلامی کے طوق ڈالے گئے، یونیورسٹیوں کی یہ سفاکیاں تاریخ کا سیاہ باب ہیں۔ امریکا عہد رفتہ میں اپنی یونیورسٹیوں کی امیج بلڈنگ کرنے اور ان کی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کرتا ہے جس کی تفصیلات اوپر درج کی گئی ہیں۔ اس مضمون کا مقصد، نئے علوم کی تخلیق میں امریکی یونیورسٹیوں کی اہلیت کا انکار کرنا نہیں ہے بلکہ علمی ترقی کے اُس ماضی کو کُریدنا ہے جس کی وجہ سے عالم جنوب اور عالم شمال کے درمیان حاکم و محکوم کا تصور تشکیل دیا گیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *