ایچ ای سی ترمیمی بل: صوبائی جامعات وفاق کا لقمہ؟
- July 14, 2023 12:22 pm PST
اکمل سومرو
ادارہ جاتی تشکیل میں حکمرانی کے تصورات ، اگر حاکمیت و رعایا کے تحت پروان چڑھیں تو اس امر کا قوی امکان ہوتا ہے کہ ادارہ جاتی تشکیل کے برعکس ادارہ جاتی تباہی نتیجہ کے طور پر سامنے آئے گی۔ دستور پاکستان نے پارلیمان کو خود مختار و بالاتر ریاستی ستون قرار دے رکھا ہے، پارلیمان کی ساخت میں کالونیل طرز حکمرانی کے تناظر میں ایسے عناصر بھی رکھے گئے ہیں جو کو بوقت ضرورت بروئے کار لا کر جمہور یت کے بنیادی تصورات کو روندنا آسان ہوجاتا ہے۔ ان عناصر میں خواتین کی مخصوص نشستیں ، جمہوریت کی بنیادی آئینی تعریف کے منافی ہے۔ جمہوری منشاء کے برخلاف اور پارٹی لیڈر شپ کی آمریت زدہ ذہنیت کی عکاسی و غیر جمہوری طریقے سے ایوان تک پہنچنے والی خواتین قومی اداروں پر حملہ آور ہوں تو پھر سوالات اُٹھانا، ہر پاکستانی کا بنیادی دستوری حق ہے۔
یہ حملہ، پاکستان کی اعلیٰ تعلیم پر کیا جائے تو ہر ذی شعور باشندہ، اپنی آواز بلند کرے گا۔ قانون سازی، آئین سازی کی بنیاد قومی ریاستی ترقی کے اُصولوں پر ہو تو اس کا دفاع کرنا بھی ہمارا فرض ہے لیکن اگر قانون سازی کی بنیادوں میں شخصی و گروہی مفادات کے سامنے قومی مفادات گروی رکھ دیے جائیں تو ایسے قوانین کے پیچھے چھپے حقائق عیاں کرنا ضروری ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کا ترمیمی بل پرائیویٹ ممبر کے ذریعے سے پارلیمان میں پیش ہوا، اس بل نے تعلیمی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا، یہ بل کیسے تیار ہوا؟ اس بل کی تیاری میں کمیشن کے حکام نے کیا کیا مخفی کردار نبھایا، یہ نا قابل بیان داستان ہے۔
ترمیمی بل کی تفصیلات پر مکالمہ کرنے سے پہلے، کیا قومی اسمبلی کے اراکین کو اس سے آگاہی حاصل کرنا ضروری نہیں تھی۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ انہوں نے یہ بل پارلیمان میں پیش کر کے صوبائی خود مختاری اور آئین پاکستان کی 18 ویں ترمیم پر حملہ کیا ہے ؟۔ جن تین افراد نے کمیشن کا ترمیمی بل پیش کیا ان میں الیکشن لڑے بغیر، خواتین کی مخصوص نشست کے ذریعے لودھراں سے ن لیگ کی ٹکٹ پر ڈاکٹر ثمینہ مطلوب ، وزیر اعظم شہباز شریف کے مشیر خاص طارق فاطمی کی اہلیہ زہرا ودود فاطمی اور ن لیگ سرگودھا سے ڈاکٹر ذوالفقار علی بھٹی شامل ہیں۔
یہ مصدقہ خبر ہے کہ سرگودھا میں پرائیویٹ کالج کی سرمایہ کاری میں ایک ایم این اے اور کمیشن کا سب سے اہم ترین اور بڑے افسر کے شیئرز ہیں، اب اس ترمیمی بل پر ان دونوں کے درمیان کیا سودے بازی ہوئی، اس کی حقیقت تو انکوائری کمیشن کے ذریعے سے کھل کرسامنے آسکتی ہے، البتہ یہ طے ہے کہ جس طرح مخصوص نشستوں والی خواتین ایم این ایز کو اس مہم جوئی میں شامل کیا گیا ہے یقیناً پس پشت کہانی خوفناک ہوگی۔ اس کہانی میں وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین کے کردار کو خارج از امکان قرارنہیں دیا جاسکتا۔ مجھے قوی یقین ہے کہ پرائیویٹ بل پیش کرنے والے تینوں اراکین کو اس بل کا ترجمہ بھی شاید درست طریقے سے نہ آتا ہو۔
اب دوبارہ وفاقی حکومت اعلی تعلیم اور صوبائی حکومت پر حملہ آور ہے اور اس دفعہ ترمیمی بل وزارت تعلیم اسلام آباد نے تیار کیا ہے ۔ورلڈ بینک کی گرانٹ سے قائم کیے گئے ایچ ای سی کے دستوری ڈھانچہ میں ترمیم کی آخر 21 سال بعد کیوں ضرورت پیش آگئی؟ کیا یہ ضرورت قومی تقاضے کے تحت پیدا ہوئی ہے؟ یا اس ضرورت کے محرکات، ذاتی خواہشات کے تابع ہیں؟ اور یہ بل کسی شعبہ قانون کے خود ساختہ ماہر نے جو یقیناً لاء ڈویژن ، ایجوکیشن ڈویژن یا فنانس ڈویژن کا کل پرزہ ہوگا جس نے اتنی بھی زحمت گوارہ نہ کی کہ پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ایکٹ سے چرائی گئی تمام شقوں کے جملوں میں ہی تبدیلیاں کر دیتا۔ نا اہلی و بد انتظامی کی حالت نہ گفتہ بہ کا اندازہ لگائیے کہ کمیشن کا جو ترمیمی بل کا مسودہ جمع کرایا گیا ہے وہ چربہ سازی کی بدترین مثال ہے۔ جو کمیشن پاکستان کی یونیورسٹیوں سے چربہ سازی کا خاتمہ کا تھانیدار ہے اسی کمیشن کی دستوری دستاویز سرقہ پر مبنی ہے۔
ایچ ای سی ترمیمی بل کا پس منظر، کیا ہے؟ نیا بجٹ پیش ہونے سے پہلے ایچ ای سی اور پنجاب کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہوا۔ پنجاب ایچ ای سی نے فروری میں اسلام آباد ایک خط لکھا، اس خط میں مطالبہ کیا گیا کہ پنجاب کی سرکاری یونیورسٹیوں کی مالی معاونت کے لیے کمیشن ٹھوس اقدامات کرے اور نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے مطابق پنجاب کی سرکاری یونیورسٹیوں کو فنڈنگ دی جائے ۔ پنجاب کو 44 فیصد فنڈنگ کا حصہ دیا جارہا ہے جبکہ این ایف سی شیئر 51.74 فیصد ہے۔ صوبے کی سرکاری یونیورسٹیوں میں فنڈنگ کے مسائل ہونے کی وجہ سے معیار تعلیم گر رہا ہے چوں کہ پنجاب کی عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ وفاقی بجٹ میں شامل ہوتا ہے لہذا پنجاب کی عوام کا بنیادی حق ہے کہ ان کے پیسے منصفانہ طریقے سے ان کی تعلیم پر بھی خرچ کیے جائیں۔
ایچ ای سی نے 47 روز بعد ، پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو جوابی خط میں اس مطالبہ کو مسترد کر دیا اور پنجاب کی سرکاری یونیورسٹیوں کے لیے بجٹ میں اضافہ کو غیر قانونی قرار دے دیا، کمیشن نے پنجاب پر یہ بھی واضح کر دیا کہ صوبے کی سرکاری یونیورسٹی کی مالی معاونت این ایف سی ایوارڈکے تحت نہیں کی جاتی۔ یوں خطوط کا یہ تبادلہ کمیشن کے ترمیمی بل کی صورت میں سامنے آیا۔ لیکن ابھی کہانی کے مزید نئے رُخ بھی دیکھیے۔
وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین نے، اپنے حلقے کی سیاست، ایچ ای سی افسران سے ذاتی رفاقتوں کو عزیز گردانتے ہوئے قومی مفادات کو گزند پہنچانے سے بھی گریز نہیں کیا، وہ خود کو تعلیم کا مابدولت تصور کرنے لگے ہیں۔ جب یہ خط کا معاملہ سامنے آیا تو رانا تنویر نے چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار کو فون کھڑکا دیا اور پنجاب سے ایم این اے ہونے کے باوجود پنجاب کی سرکاری یونیورسٹیوں کے خلاف ایک تقریر جھاڑ دی اور صوبائی یونیورسٹیوں کو مالی معاونت دینے کی مخالفت کر دی۔ خواجہ آصف کی قومی اسمبلی میں یونیورسٹیوں کے خلاف تقریر، وائس چانسلرز کو ڈاکو کہنے کی باز گشت کئی دن تک رہی، یونیورسٹیوں کے خلاف یہ تقریر بھی اسی پس منظر کی ایک قسط تھی۔ کمیشن ترمیمی بل کے ہر کریکٹر کا اپنا اپنا رول تھا۔
پنجاب کی 12 کروڑ عوام پر سرکاری تعلیم کے دروازے تنگ کر کے انھیں پرائیویٹ یونیورسٹیوں کا نوالہ بنانے کا یہ بنیادی محرک لگتا ہے اس بل میں شامل ترامیم کی کاپی اس وقت میرے سامنے ٹیبل پر پڑی ہے۔ اب پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن ایکٹ سے چرائی گئی ترامیم بھی ملاحظہ کیجئے:
ایچ ای سی پاکستان کی یونیورسٹیوں کی واحد ریگولیٹری اتھارٹی ہوگی۔ سرکاری و پرائیویٹ یونیورسٹیوں کو چارٹر دینے کی مجاز ایچ ای سی ہوگی۔چیئرمین ایچ ای سی کی مدت ملازمت 4 سال ہوگی۔ ریگولیشن، سروس سٹیچوز اور چانسلر کو ایڈوائس دینے کا اختیار بھی ایچ ای سی کو سپرد ہوگا۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان ملک کی تمام یونیورسٹیوں کا آڈٹ کرنے کا مجاز ہوگا۔ قومی و بین الاقوامی سطح پر اداروں، انڈسٹری کے درمیان تعلقات فروغ دینے میں کردار ادا کرے گا، ٹیچنگ اور ریسرچ کے درمیان توازن قائم کیا جائے گا۔ یونیورسٹیوں کے درمیان نالج شیئرنگ، ریسرچ، اخراجات کو مشترکہ طور پر آگے بڑھایا جائے گا۔
کمیشن کے اختیارات کا دائرہ کار تبدیل کرنے کی یہ ترامیم وفاقی کابینہ نے جب منظور کیں تو مجھے اندازہ ہوا کہ پاکستان کے حکمران طبقات کس قدر جابر ہیں اور کیسے وہ کسی کی ذاتی خواہش کے ہاتھوں یرغمال ہوجاتے ہیں، یہ کیسے ممکن ہوگیا کہ پنجاب ایچ ای سی کی بنیاد رکھنے والے شہباز شریف اپنے ہی ہاتھوں سے اس ادارے کا گلا گھونٹ دیں اور پنجاب کی سرکاری یونیورسٹیوں کو لاوارث چھوڑنے پر آمادہ ہو جائیں۔
ایچ ای سی کے نئے مسودے میں صوبائی ایجوکیشن کمیشن کے اختیارات کو انتہائی محدود کیا گیا ہے تاہم نیا مسودہ مشترکہ مفادات کونسل کو بھیجا گیا اور نہ ہی مسودے کی تیاری میں صوبائی حکومتوں سے کوئی رائے طلب کی گئی ہے۔موجودہ آرڈیننس میں 40 سے زائد ترمیم کر کے نیا مسودہ تیار کیا گیا ہے، ترمیمی بل کے مطابق ممبران اور چیئرمین کی ایک سے زائد بار تقرری نہیں ہوسکے گی۔نئے مسودے کے تحت جامعات کے چانسلر کے تقرر کیلئے سرچ کمیٹی بھی کمیشن کا سربراہ بنائے گا جبکہ کمیشن تعلیمی اداروں کے عملے، طلبا و طالبات، اساتذہ کا ڈیٹا بیس بھی بنائے گا۔
نئے مسودے کے تحت کمیشن کسی ادارے کو بند کرنے اورانتظامیہ کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی مجاز ہوگی، ساتھ ہی اسے حکومت، ضلعی انتظامیہ کو احکامات دینے کے اختیارات حاصل ہونگے، کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی اہلیت سابقہ وفاقی سکریٹری ہونا لازمی ہے۔نئے مسودے کے مطابق کمیشن کے سربراہ، افسران اور ملازمین کے فیصلوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوسکے گی، وفاقی اور صوبائی اتھارٹیز کمیشن کے معاملات پر معاونت کر سکیں گی۔
یہ دستور پاکستان میں بالکل واضح ہے کہ کوئی بھی قانون آئین سے متصادم نہیں ہوگا، یہ ترمیمی بل آئین کی 18 ویں ترمیم کی سنگین خلاف ورزی ہے اور صوبائی یونیورسٹیوں کی خود مختاری، سندھ و پنجاب میں قائم کمیشن کی خودمختاری کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے جس پر یقیناً پاکستان پیپلز پارٹی سخت ردّ عمل دے گی کیونکہ اس بل پر ابھی قومی اسمبلی اور سینٹ میں بحث ہونا باقی ہے۔
صوبوں کی سرکاری یونیورسٹیوں سے دشمنی کرنے والے گروہ کی چابک دستیوں کا اندازہ لگانے کے لیے یہی کافی ہے کہ کمیشن کا ترمیمی بل پیش ہونے کے فوری بعد فنانس ڈویژن نے 14 مئی کو سرکلر جاری کر دیا اور یہ سرکلر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو ملنے والی 65 ارب روپے مالیت کی گرانٹ خرچ کرنے کے دائرہ کار کو متعین کرنے پر مبنی ہے۔ فنانس ڈویژن نے 65 ارب روپے مالیت کی گرانٹ کے ساتھ یہ شرط عائد کر دی کہ یہ گرانٹ اسلام آباد کی حدود میں قائم سرکاری یونیورسٹیوں، اداروں اور سنٹرز پر خرچ کی جائے گی جبکہ پنجاب کی سرکاری یونیورسٹیوں کو بجٹ صوبائی حکومتوں کی جانب سے دیا جائے گا۔
فنانس ڈویژن کایہ سرکلر خود 2020ء کے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کی سنگین خلاف ورزی ہے اور ٹیکسوں کی مد میں صوبوں سے جمع کردہ رقم کس قانون کے تحت اسلام آباد کی یونیورسٹیوں پر خرچ ہوگی؟ اگر کمیشن نے صوبوں کی جامعات کو فنڈنگ مہیا نہیں کرنی تو پھر صوبوں کی جامعات کو ریگولیٹ کرنے کا قانونی جواز بھی موجود نہیں ہونا چاہیے۔
پنجاب کی سرکاری جامعات میں زیر تعلیم لاکھوں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے تنگ کرنا اور یونیورسٹیوں کے لیے نیا معاشی بحران پیدا کرنے سے کسی مخفی مقاصد کا شاخسانہ لگ رہا ہے، ان مخفی عزائم کو بے نقاب کرنے اور اس کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے اساتذہ اور طلباء کو میدان میں آنا ہوگا۔