ایچ ای سی ورلڈ بینک کا طفیلی ادارہ
- July 4, 2023 12:55 am PST
اکمل سومرو
لبرل ازم نے بنیادی طور پر اقتصادی تصورات کی کوکھ سے جنم لیا جس کے اہداف میں یہ شامل رہا کہ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ معاشی منصوبوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ یہ تصورات 60ء کی دہائی کے بعد، امریکا سے یورپ اور پھر تیسری دُنیا کے ممالک میں رائج کیے گئے۔ بریٹن ووڈ سسٹم کی توسیع کے طور پر عالمی مالیاتی ادارے آپریٹ کر رہے ہیں، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا آپریشنل کنٹرول بھی عالمی استعمار کی گرفت میں ہے۔ نوآبادیاتی عہد کا خاتمہ، عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کو دوام بخشنے کا باعث بنا چوں کہ مابعد نوآبادیاتی ریاستوں کا ڈھانچہ انھی اُصولوں پر استوار کیا گیا جس کے نتیجہ میں نوخیز ریاستیں، امریکا و یورپ کی آزاد منڈی کی حیثیت میں ہی قائم رہیں۔
پاکستانی سماج پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے عالمی اداروں کی مسلسل مداخلت کو برقرار رکھنے کے لیے ہر عہد میں نئے جواز تلاش کیے گئے، آئی ایم ایف سیاسی حکومتوں کو زنجیریں ڈالنے کے لیے مالی معاونت مہیا کرتا ہے جبکہ ورلڈ بینک پاکستان میں اصلاحات کے عنوان سے اداروں کو کنٹرول کرتا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد، ورلڈ بینک نے پاکستان میں نیو لبرل تعلیمی پالیسیوں کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا اور پاکستان میں تعلیمی اصلاحات کے لیے قرضے اور تکنیکی امداد مہیا کی گئی ۔ ورلڈ بینک نے پاکستان میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی توسیع کرنے کے لیے حکومتوں پر ساز گار پالیسیاں تشکیل دینے کے لیے دباؤ ڈالا۔
مسابقتی تعلیمی ماحول فراہم کرنے کے نام پر، ورلڈ بینک نے سرکاری نظام تعلیم کو مضبوط کرنے کے برعکس نجی اداروں کو فروغ دینے کی حوصلہ افزائی کی۔ یہ وہی عہد تھا جب پاکستان میں پرائیویٹ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا جال بچھانے کی بنیاد رکھی گئی، ورلڈ بینک کا بنیادی ہدف یہی رہا کہ تعلیمی شعبے پر حکومتی گرفت کو آہستگی سے کم زور کیا جائے، اور ورلڈ بینک اپنے ان منصوبوں میں ہمیشہ کامیاب ہوتا رہا ہے۔
ورلڈ بینک نے قرضوں کی بنیاد پر ، 92ء، 97ء، 2002ء، 2005ء، 2010ء، 2015ء، 2017ء کو ملا کر کل سات تعلیمی پراجیکٹس نافذ کیے ، ان سات منصوبوں نے پاکستان کی ہائیر ایجوکیشن کو ورلڈ بینک کی مداخلت کے باعث نیو لبرل تعلیمی ڈھانچہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ مجموعی طور پرورلڈ بینک نے 2 ہزار 470 ملین ڈالرز قرض، پاکستان کے تعلیمی شعبے کے لیے مہیا کیا ہے، حکومت پاکستان تعلیمی منصوبوں کے لیے ورلڈ بینک کے یہ قرضے 3 فیصد سود کے عوض واپس کر رہی ہے۔
ورلڈ بینک نے 90ء کی دہائی میں ، پاکستان میں میگا پراجیکٹ لانچ کیا جسے سوشل ایکشن پروگرام کا عنوان دیا گیا۔ بے نظیر کی حکومت کے خاتمہ کے بعد، ضیاء الحق کی چھتری تلے، سیاسی سفر کی ابتداء کرنے والے نواز شریف نے جب 1990ء میں حکومت حاصل کی تو ورلڈ بینک نے 1992ء میں سوشل ایکشن پروگرام پاکستان میں نافذ کیا جس کا مقصد پاکستان میں غربت میں کمی، صحت، تعلیم اور دیہی ترقی سمیت سماجی اور معاشی مسائل کو حل کرنا تھا، اس منصوبے کے تحت حکومت پاکستان کو ایک ارب 65 کروڑ ڈالرز کا قرضہ دیا گیا۔
امداد کے نام پر ملنے والے اس قرض کی رقم سے 590 ملین ڈالرز پرائمری، سیکنڈری اور ہائیر ایجوکیشن میں اصلاحات کے لیے مختص کیے گئے۔ یہ منصوبہ پاکستان میں ورلڈ بینک کے توسط سے نیو لبرل تعلیمی پالیسیوں کو نافذ کرنے کا نکتہ آغاز تھا۔
اسی منصوبے کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے، ورلڈ بینک نے 1997ء میں ایجوکیشن سیکٹر ریفارمز اسسٹنس پروگرام نافذ کیا، 2003ء تک نافذ شدہ اس منصوبے کے تحت ورلڈ بینک نے پاکستان کو تعلیمی شعبے کے لیے 280 ملین ڈالرز قرض دینے کا وعدہ کیا جس میں سے 200 ملین ڈالرز ورلڈ بینک نے براہ راست قرض دیا جبکہ باقی ماندہ رقم دیگر ڈونرز اداروں سے فراہم کی گئی۔ اس منصوبہ کے دائرہ کار میں نئے نصاب کی تیاری، اساتذہ کے تربیتی پروگرام، تعلیمی سہولیات میں بہتری، نئے اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا۔
قرض کی اس رقم سے ورلڈ بینک کی ہدایات پر نیشنل ایجوکیشن ایسسمنٹ سسٹم نافذ کیا گیا۔ نیشنل ایجوکیشن ایسسمنٹ سسٹم کے لیے ورلڈ بینک نے 200 ملین ڈالرز کا قرض فراہم کیا، یہ منصوبہ 2005ء میں شروع ہوکر 2010ء تک جاری رہا۔ منصوبے کے تحت تعلیمی تشخیصی فریم ورک کی تیاری اس پر عمل درآمد، اساتذہ کی صلاحیت کو بڑھانا، طلباء کے سیکھنے کے نتائج کا جائزہ لینا اور نتائج کی اشاعت کرنا شامل تھا، اس منصوبے کے تحت پنجاب یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حافظ محمد اقبال نے غیر ملکی اُستاد کے ہمراہ رپورٹ مرتب کر کے شائع کی۔
ورلڈ بینک نے پاکستان کے تعلیمی اداروں پر مکمل گرفت رکھنے کے لیے کثیر الجہتی منصوبے نافذ کیے۔ ورلڈ بینک نے ترقی پذیر ممالک میں ہائیر ایجوکیشن کے منصوبوں کے نفاذ کیلئے ٹاسک فورس قائم کی، اس ٹاسک فورس میں پاکستان سے نیو لبرل پالیسیوں کے حامی سید بابر کو بھی شامل کیا گیا تھا، فورس نے پالیسی دستاویز مرتب کی جو بعد ازاں پاکستان کے لیے اساسی تعلیمی قانون طے پایا۔ ورلڈ بینک کی اس دستاویز کے تناظر میں جنرل پرویز مشرف کی ہدایت پر وفاقی وزیر زبیدہ جلال نے پاکستان میں یونیورسٹیوں کا رُخ متعین کرنے اور نئی یونیورسٹیوں کے قیام کی سفارشات مرتب کرنے کے لیے پاکستان کی ٹاسک فورس تشکیل دی، سید بابر علی اور ڈاکٹر شمس لاکھا کو ٹاسک فورس کا مشترکہ سربراہ مقرر کیا گیا۔
اس ٹاسک فورس نے ہائیر ایجوکیشن ان پاکستان: ٹوورڈز ریفارمز ایجنڈا کے عنوان سے رپورٹ مرتب کی۔ یہ دستاویز ورلڈ بینک کی نیو لبرل پالیسیوں کو نافذ کرنے کا روڈ میپ قرار پائی اب اس روڈ میپ کے مطابق ، پاکستان کو ورلڈ بینک نے ایک نیا تعلیمی قرضہ مہیا کیا۔ 2002ء میں ، ورلڈ بینک نے ہائیر ایجوکیشن سیکٹر ریفارمز پراجیکٹ کے عنوان سے پاکستان کو 300 ملین ڈالرز کا قرض فراہم کیا، اس منصوبے کے تحت ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو بھی فنڈنگ مہیا کی گئی، یہ منصوبہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے توسط سے 2009ء تک جاری رہا۔
ہائیر ایجوکیشن سیکٹر ریفارمز پراجیکٹ کا مقصد اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ادارہ جاتی صلاحیت کو بڑھانا، فیکلٹی ڈویلپمنٹ، ریسرچ، نصاب کی تشکیل، ریگولیٹری فریم ورک کی تیاری، یونیورسٹیوں کی کوالٹی ایشورنس اور ایکریڈیشن کے لیے نظام تیار کرنا تھا۔ یونیورسٹیوں کی گورننس، مالیاتی امور، انسانی وسائل کے انتظامات، منصوبہ بندی، بجٹ سازی اور نئی یونیورسٹیوں کے قیام کے لیے نجی اداروں کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔
ورلڈ بینک نے اس منصوبے کی فنڈنگ مکمل ہونے کے بعد، ہائیر ایجوکیشن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کے تحت حکومت کو نیا قرض مہیا کیا۔ 2010ء میں نافذ کیے گئے اس منصوبے کا مقصد پاکستان میں منتخب یونیورسٹیوں کی ترقی میں معاونت کرنا تھا، اس پراجیکٹ میں اعلیٰ تعلیم کے معیار اور مطابقت کو بڑھانے، پسماندہ آبادیوں کے لیے اعلیٰ تعلیم تک رسائی کو بہتر بنانے، ادارہ جاتی نظم و نسق کو مضبوبط بنانے پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ منصوبے کے تحت نئے تعلیمی پروگرامز کا اجراء، تحقیقی صلاحیت کی ترقی و تدریس اور مالی امداد مہیا کرنا تھا۔
ورلڈ بینک کا یہ منصوبہ 400 ملین ڈالرز کے قرض پر محیط تھا جس میں سے 300 ملین ڈالرز قرض ورلڈ بینک نے فراہم کیا جبکہ 100 ملین ڈالرز حکومت پاکستان نے فنانس کیا اور یہ منصوبہ 2017ء تک جاری رہا۔قرض کا استعمال اعلیٰ تعلیم کے کئی کلیدی شعبوں میں مدد کے لیے کیا گیا، جس میں اعلیٰ تعلیم تک رسائی کو بہتر بنانا، تدریس اور تحقیق کے معیار کو بڑھانا، نظم و نسق کو مضبوط بنانا، اور لیبر مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق اعلیٰ تعلیم کی مطابقت کو بہتر بنانا شامل تھا۔
ورلڈ بینک کی تکنیکی معاونت سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے نیشنل کوالیفکیشن فریم ورک متعارف کرایا گیا۔ یہ فریم ورک درحقیقت پاکستان کی یونیورسٹیوں کو امریکی نظام تعلیم کے ساتھ منسلک کرنا تھا جس میں پاکستان کے تعلیمی معیارات، ڈگریوں اور تعلیمی پروگرامز کو مشترکہ سیٹ میں ڈھالا گیا۔ نیشنل کوالیفکیشن فریم ورک 8 درجات میں تقسیم کیا گیا ، جس میں پیشہ وارانہ تعلیم کے سرٹیفکیٹ کے لیے لیول ون سے لے کر ڈاکٹریٹ تک کی ڈگری کے 8 درجات شامل ہیں اور ملک بھر میں مشترکہ کریڈٹ سسٹم بھی لاگو کیا گیا۔ اس فریم ورک میں کوالٹی ایشورنس کو یقینی بنایا گیا جس کے لیے نیشنل کوالٹی ایشورنس اینڈ ایکریڈیشن کونسل قائم کی گئی۔
ورلڈ بینک کے ایجوکیشن سیکٹر ریفارمز پراجیکٹ کے تحت نیشنل ایجوکیشنل ایسسمنٹ سسٹم تشکیل دیا گیا، 2010ء میں اس پراجیکٹ کے تحت پالیسی آپشنز فرام نیشنل ایسسمنٹ سروے کرایا گیا اور پھر بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے ڈین ڈاکٹر حافظ محمد اقبال اور کیمبرج یونیورسٹی کے ریسرچ ایسوسی ایٹ انتھونی ولیم پیل نے ایجوکیشن ریفارمز ان پاکستان کے عنوان سے مشترکہ طور پر یہ رپورٹ لکھی جسے لاہور سے شائع کیا گیا اور ان دونوں مصنفین کو 25 لاکھ روپے ادا کیے گئے۔
وفاقی سطح پر اس منصوبے کے ساتھ ہی، ورلڈ بینک نے صوبائی سطح پر، پنجاب ہائیر ایجوکیشن ریفارم پراجیکٹ نافذ کر دیا۔ 2015ء میں شروع ہونے والے اس منصوبے کی کل لاگت 300 ملین ڈالرز تھی۔ پنجاب ہائر ایجوکیشن ریفارم پراجیکٹ نے 2014 میں پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پنجاب اسمبلی میں پنجاب ایچ ای سی ایکٹ کی منظوری ہوئی۔
ورلڈ بینک نے پی ایچ ای سی کے قیام کے لیے تعاون فراہم کیا، جس میں کمیشن کی ادارہ جاتی صلاحیت کی ترقی کے لیے فنڈنگ اور کمیشن کے کاموں میں معاونت کے لیے تکنیکی مدد کی فراہمی شامل ہے۔ ورلڈ بینک نے ریگولیٹری فریم ورک اور پالیسیوں کی ترقی کے لیے بھی مدد فراہم کی جو کمیشن کے کام کی رہنمائی کریں گی۔ورلڈ بینک کے اس قرض کی رقم سے ہی پنجاب ایچ ای سی کیلئے ابتدائی فنڈنگ مہیا کی گئی اور یونائیٹڈ نیشنز میں 25 سال کی ملازمت کے بعد ریٹائرڈ ہونے والے ڈاکٹر نظام الدین کو پنجاب ایچ ای سی کا بانی چیئرپرسن تعینات کیا گیا۔
نیو لبرل تعلیمی منصوبوں کے نفاذ کے لیے ، ورلڈ بینک نے پاکستان میں اور قرض منصوبہ متعارف کرایا، ہائیر ایجوکیشن ڈویلپمنٹ ان پاکستان پراجیکٹ کے تحت، 2017ء میں 400 ملین ڈالرز کی فنڈنگ مہیا کرنے کا معاہدہ کیا گیا ۔ اس معاہدے پر ایچ ای سی پاکستان اور وزارت تعلیم کے نمائندوں نے دستخط کیے، یہ منصوبہ جون 2024ء تک جاری رہے گا۔ ورلڈ بینک کا یہ منصوبہ 6 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
تزویراتی شعبوں میں تعلیمی فضیلت کی پرورش کیلئے 109.82 ملین ڈالرز ، ڈی سنٹرلائزڈ ہائیر ایجوکیشن کیلئے 89.18 ملین ڈالرز، ماڈرن ٹیکنالوجی کیلئے 52.70 ملین ڈالرز، ہائیر ایجوکیشن مینجمنٹ سسٹم، پراجیکٹ مینجمنٹ سسٹم کیلئے 24.3 ملین ڈالرز، یونیورسٹیوں کی معاونت اور ریموٹ لرننگ کیلئے 89 ملین ڈالرز مختص کیے گئے ہیں۔ ورلڈ بینک نے ایچ ای سی کے ذریعے سے حکومت پاکستان کو یہ قرض 2047ء تک کے لیے 3 فیصد سود کے عوض فراہم کیا گیا یعنی 400 ملین ڈالرز کا تعلیمی قرض بمعہ سود ورلڈ بینک کو واپس کرنا ہوگی۔ اب اس پراجیکٹ کے تحت ایچ ای سی نے کیا اقدامات لیے، اس کا جائزہ لینا اشد ضروری ہے۔
ورلڈ بینک سے گرانٹ لینے کامذکورہ معاہدہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے سابق چیئرمین طارق بنوری نے کیا، طارق بنوری خصوصی طور پر امریکا سے پاکستان آئے اور ان کی تقرری کی سفارش سرچ کمیٹی کے سربراہ سید بابر علی نے کی تھی۔ طارق بنوری ، 2000ء میں سید بابر علی کے ساتھ بوسٹن گروپ کے ممبر کی حیثیت سے کام کر چکے تھے، اسی بوسٹن گروپ نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا ڈھانچہ استوار کرنے کا مسودہ تیار کیا تھا۔
ورلڈ بینک کے ساتھ اس معاہدے کے تحت پاکستان سے سب سے پہلے برطانوی عہد کا دو سالہ بی اے اور ایم اے ڈگری پروگرام منسوخ کیا گیا اور نئی انڈرگریجویٹ پالیسی نافذ کر کے پورے پاکستان میں یکساں سسٹم رائج کر دیا گیا۔ کمیشن نے ایم فل اور پی ایچ ڈی پالیسی بھی ورلڈ بینک کی پالیسی گائیڈ لائنز کے مطابق تیار کیں، کمیشن نے ورلڈ بینک کی پالیسیاں نافذ کرنے کے لیے دن رات محنت شاقہ کی ہے۔
ورلڈ بینک کی ہی پالیسی تھی کہ پاکستان میں نیو لبرل تعلیمی منصوبوں کو برق رفتار سے نافذ کیا جائے، اس کا پہلا فیز ملک میں ہائیر ایجوکیشن کی پرائیوٹائزیشن کرنا تھا یعنی حکومتی سرپرستی میں نجی یونیورسٹیوں کے جال کو پھیلانا تھا ۔ ایچ ای سی قائم ہونے کے بعد، اب تک 210 یونیورسٹیاں بن چکی ہیں اور ان میں 115 کے قریب پرائیویٹ اینٹرپرائزز کے تحت آپریٹ کر رہی ہیں۔ نجی یونیورسٹیوں کا کردار بس، سرمائے کے ارتکاز کو یقینی بنانا ہے اور والدین سے پیسے وصول کر کے ڈگریوں کی ترسیل کے سسٹم کو موثر رکھنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیز سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں ، یہ صرف فیسوں کی رسیدوں کے عوض ڈگریاں جاری کی جارہی ہیں۔ پاکستان کی ہائیر ایجوکیشن نجی شعبے، یعنی سرمایہ داروں کی گرفت میں دینے کا قومی نقصان یہ ہوا کہ تعلیم میں کمرشل مفادات کے پیش نظر صرف منافع کا حصول ہی اصل مقصد ٹھہرا، اور قومی ترقی میں ان اداروں کا موثر کردار ہمیں نظر نہیں آتا۔