انگریز کا وفادار پنجاب کا طاقتور سید خاندان! پہلی قسط
- October 6, 2018 3:15 pm PST
اکمل سومرو
ہندستان میں انگریز دور کا مراعات یافتہ طبقہ پاکستان کا بالاتر طبقہ بن گیا ہے اور اس بالاتر طبقے کی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے عالمی قوتوں کا گہرا اثر ہے، انگریزوں نے سیاسی قوت حاصل کرنے کے لیے یہاں کے مخصوص خاندانوں کا انتخاب کیا جس کے عوض اُنھیں طاقت، دولت اور جاگیریں دی گئیں.
دوسری جانب انتظامی مشینری کو چلانے والوں میں شامل مخصوص خاندانوں کو مستقل عہدوں سے نوازا گیا اور انھیں بھی انگریزوں کی وفاداری کے عوض جاگیریں عطاء ہوئیں۔ پنجاب میں ایک مخصوص خاندان کو انگریز سرکار نے اہم انتظامی عہدے عطاء کیے اور اس خاندان کو قوت بخشی، جاگیریں عنائیت کیں. آج اس خاندان کے کئی اہم سپوت پاکستان کے طاقت ور افراد بن چکے ہیں جن کے سامنے پاکستان کی سیاسی حکومتیں بھی بے بس نظر آتی ہیں.
کیسے کیسے اس خاندان نے طاقت حاصل کی دو اقساط پر مبنی اس تحقیقی کالم میں ملاحظہ کیجئے؛
سلطنت مغلیہ میں زکریا خان بہادر 1727 میں لاہور کا گورنر تھا جس نے اپنے والد عبد الصمد خان کی جگہ لی تھی، گورنر لاہور کے درباریوں میں غلام شاہ بھی شامل تھا۔ غلام شاہ کے آباؤ اجداد میں سے جلال الدین 1293ء میںبخارا سے اُچ شریف آکر آباد ہوا. بعد ازاں یہ خاندان 1550ء میں اُچ شریف سے چونیاں آکر بس گیا. گورنر لاہور زکریا خان کے درباری غلام شاہ کا دربائے بیاس پر انتقال ہوا تو اس کی اہلیہ اپنے تین مہینے کے بیٹے سید غلام محی الدین کو لے کر لاہور آگئیں اور لاہور میں اپنے خاوند کے دوست عبد اللہ انصاری سے رابطہ کیا.
لاہور کا نامور فزیشن عبد اللہ انصاری غلام شاہ کا قریبی دوست تھا اور احمد شاہ کے دور میں کشمیر کا جج بھی رہا. عبد اللہ انصاری نے میڈیکل سائنس کی مشہور کتاب “تذکرہ اسحاقیہ” بھی لکھی۔ عبد اللہ انصاری نے سید غلام محی الدین کی پرورش کی، اسے میڈیکل کی تعلیم دلوائی اور جوان ہونے کے بعد اپنے بھائی خدا بخش کی بیٹی کے ساتھ شادی کرا دی۔
سید غلام محی الدین بھی لاہور کا فزیشن بن گیا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ کتابوں کی فروخت کا کام کرنے لگا اس دوران وہ فقیر امانت شاہ قادری کا مُرید ہوگیا اور اپنے نام کے ساتھ بھی “فقیر” سید غلام محی الدین لکھنا شروع کر دیا۔ غلام محی الدین کے تین بیٹے تھے، سید عزیز الدین، سید امام الدین اور فقیر سید نور الدین۔
فقیر سید عزیز الدین نے بھی اپنے باپ کا پیشہ اختیار کیا اور لاہور کے چیف فزیشن لالہ حکیم رائے کا شاگرد ہوا، 1799ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی لاہور میں حکومت قائم ہونے کے بعد رنجیت سنگھ کی آنکھ خراب ہوئی جس کا علاج لالہ حکیم رائے نے کیا اور انھوں نے اپنے شاگرد سید عزیز الدین کو رنجیت سنگھ کی نگرانی پر معمور کر دیا۔ فقیر سید عزیز الدین نے رنجیت سنگھ کی خوب خدمت کی، اس خدمت کے عوض فقیر سید عزیز الدین کو رنجیت سنگھ نے اپنا معالج مقرر کر لیا، انعام کے طور پر فقیر سید عزیز الدین کو بادو اور شرق پور میں جاگیریں دی گئیں.
یوں فقیر سید غلام محی الدین کے بیٹے فقیر سید عزیز الدین کو حکمران خاندان سکھوں کے ساتھ قریبی مراسم کا موقع میسر آیا اور وہ رنجیت سنگھ کے مشیروں میں سے ہوگیا۔ 1808ء میں رنجیت سنگھ اور انگریز فوج کے درمیان معائدہ ہوا کہ ستلج کے اس پار تک رنجیت سنگھ اپنی فوجوں کو محدود رکھے گا تاہم 1809ء میں مسٹر میٹ کیلف نے اپنی فوج کے ہمراہ ستلج کے پار پیش قدمی کی تو رنجیت سنگھ جنگ کے لیے تیار ہوگیا اور فوج کو جنگ لڑنے کےلیے الرٹ کر دیا گیا لیکن سید عزیز الدین نے انگریزوں کے ساتھ جنگ لڑنے سے روکنے کا مشورہ دیا اس کے بعد انگریزوں کے ساتھ بات چیت کے لیے سید عزیز الدین کو نامزد کر دیا گیا جس کے بعد عارضی طور پر جنگ کا خطرہ ٹل گیا تاہم انگریزوںکے ساتھ مسلسل بات چیت کے باعث سید فقیر عزیز الدین کے انگریز سرکار کے ساتھ روابط بڑھنے لگے اور سید عزیز الدین خفیہ طور پر انگریزوں کے ساتھ معاونت کرتا رہا۔
اس کے بعد فقیر سید عزیز الدین پر اعتماد کر کے رنجیت سنگھ نے اسے متعدد جنگی محاذوں پر بھی بھیجا۔ رنجیت سنگھ نے فقیر سید عزیز الدین کو 1831ء میں لارڈ ویلیم بینٹنک سے ملاقات کے لیے شملہ بھیجا اس کے ہمراہ سردار ہری سنگھ، دیوان موتی رام بھی تھے، سید عزیز الدین کی سفارتی صلاحیتوں کی بدولت اس کے بعد ہندستان کے گورنر جنرل لارڈ بینٹنک کی اکتوبر 1831ء میں ہی رنجیت سنگھ سے روپر میں ملاقات ہوئی۔
نومبر 1838ء میں انگریز فوج کابل مہم کے لیے تیار ہوئی تو رنجیت سنگھ نے فیروز پور میں لارڈ آک لینڈ سے ملاقات کی، جواب میں لارڈ آک لینڈ نے لاہور اور امرتسر میں آکر مہاراجہ سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں فقیر سید عزیز الدین کا سفارتی کردار انتہائی اہم تھا۔ رنجیت سنگھ کا 1839ء میں انتقال ہوگیا۔ مہاراجہ کے انتقال کے بعد سکھوں کی حکومت پنجاب میں کمزور پڑنے لگی اور انگریز پورے ہندستان میں طاقتور ہو رہا تھا لہذا سکھ حکمران شیر سنگھ نے مارچ 1841ء میں فقیر عزیز الدین کو گورنر جنرل کے ایجنٹ مسٹر کلیرک کے پاس لدھیانہ جنگی معاملات طے کرنے کے لیے بھیجا لیکن مسٹر کلیرک آمادہ نہ ہوئے اور سکھ فوج کے ساتھ لڑنے کا فیصلہ کر لیا، فقیر سید عزیز الدین 3 دسمبر 1845ء کو انتقال ہو گیا۔
عزیز الدین کے چھ بیٹے تھے۔ ناصر الدین، فضل الدین، شاہ دین، چراغ الدین، جمال الدین اور رکُن الدین۔
سید عزیز الدین کے انگریزوں کے ساتھ قریبی مراسم ہونے کی بناء پر ان کی زندگی میں ہی ان کے بیٹے فقیر سید شاہ دین کو 1835ء میں لُدھیانہ کا برٹش پولیٹیکل آفیسر تعینات کیا گیا۔ فقیر سید چراغ الدین کو 1838ء میں جیسروتا کا گورنر بنایا گیا، کتنا دلچسپ امر ہے کہ سید عزیز الدین خود رنجیت سنگھ کی حکومت میں شامل تھا تاہم اس کی زندگی میں ہی اس کے بیٹوں کو انگریز حکومت میں ملازمتیں مل گئیں. انگریز سرکار نے ان کے بیٹے سید جمال الدین کو انگریز حکومت میں حافظ آباد کا تحصیل دار تعینات کیا گیا، 1864ء میں گجرانوالہ تبادلہ ہوا اور پنجاب سیکرٹیریٹ میں میر منشی کا عہدہ ملا اور 1870ء میں جمال الدین کو ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تعینات کر دیا، 1883ء میں ریٹائرڈ ہونے کے بعد 100 روپیہ ماہانہ پنشن مقرر ہوئی جس کے ساتھ ماہانہ 1000 روپیہ پولیٹیکل الاؤنس ملتا رہا۔
فقیر سید جمال الدین ریٹائرمنٹ کے بعد 1883ء کو لاہور میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تعینات کر کے فُل مجسٹریٹ کے اختیارات دے دیے گئے۔ فقیر عزیز الدین کے چھوٹے بیٹے رُکن الدین کو انگریز سرکار کی جانب سے 1000 روپیہ ماہانہ پنشن ملتی رہی۔ عزیز الدین کے بڑے بیٹے ناصر الدین کا 1814ء میں قتل ہو گیا تھا۔ انگریز سرکار کے ریاست بہاولپور کے نوابوں کے ساتھ اچھے مراسم تھے چنانچہ فقیر عزیز الدین کے پوتے سراج الدین کو ریاست بہاولپور میں فقیر سید سراج الدین کو وزیر کا عہدہ ملا۔
دی پنجاب چیفس میں ایچ ڈی کریک لکھتا ہے کہ فقیر عزیز الدین کا خاندان انگریز سرکار کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ گویا فقیر عزیز الدین کے بھائی فقیر امام الدین کے پوتے فقیر معراج الدین کو 500 روپیہ ماہانہ پنشن دی جاتی رہی۔ فقیر عزیز الدین کے تیسرے بھائی فقیر نور الدین کو پنجاب پر قبضے کے بعد برطانوی حکومت میں نوکری ملی اور 1850ء میں حکومت نے نور الدین کا سالانہ اعزازیہ 20,885 روپیہ مقرر کیا۔ فقیر نور الدین کے چار بیٹوں فقیر ظہور الدین، شمس الدین، فقیر سید قمر الدین اور فقیر حافظ الدین کا انگریز سرکار نے اعزازیہ مقرر کیا، جو بالترتیب 1000، 720 روپیہ 540 روپیہ تھا۔
نور الدین کے انتقال پر یہ اعزازیہ بڑھا کر 1200، 400 اور 1080 روپے کر دیا گیا۔ فقیر عزیز الدین کے بھائی فقیر نور الدین کے بیٹے فقیر ظہور الدین کو 1855ء میں انگریز نے چونیاں کا تحصیل دار تعینات کیا، 1843ء میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر مقرر ہوئے۔ 1883ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد27سالہ حکومتی سروس کے عوض 315 روپیہ ماہانہ پینشن مقرر ہوئی اور سالانہ 1200 روپے فیملی الاؤنس مقرر کیے گئے۔
انگریز حکومت نے فقیر ظہور الدین کو سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد 1877ء میں گجرانوالہ میں 500 ایکٹرز زمین عطیہ کی اور صوبائی درباری کا عہدہ دیا۔ فقیر سید ظہور الدین کا 1893 ء میں انتقال ہوا، اس کی زندگی میںہی اس کے اکلوتے بیٹے نوبہار الدین کو1880ء میں انگریز حکومت میں تحصیل دار مقرر کر دیا گیا تھا۔ ظہور الدین کی بیٹی کی شادی اس کے بھتیجے ظفر الدین سے1877ء میں ہوئی جسے ریلوے پولیس میں ڈپٹی سپرینڈنڈنٹ کا عہدہ دیا گیا۔
فقیر سید عزیز الدین کے بھائی فقیر نور الدین کے بیٹے فقیر شمس الدین گوبند گڑھ فورٹ میں تھانیدار تھا اور سکھوں کے ساتھ انگریزوں کی دوسری لڑائی میں فقیر شمس الدین نے انگریزوں کے لیے کام کیا۔ اس وفاداری کے عوض فقیر شمس الدین کو 1842ء میں لاہور کا اعزازی مجسٹریٹ تعینات کیا گیا۔
شمس الدین کا 1872ء میں انتقال ہوا تو ان کے بڑے بیٹے برہان الدین کو پہلے نائب تحصیل دار پھر 1882ء میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر مقرر کیا گیا۔ 1888ء میں برہان الدین کو انگریزوں کی وفاداری کے بدلے میں خان بہادر کا خطاب دیا گیا۔ فقیر برہان الدین کو رائیونڈ میں انگریزوں کی جانب سے 900 ایکٹرز اراضی عطیہ کی گئی۔
شمس الدین کے دوسرے بیٹے فقیر شہاب الدین کو نائب تحصیل دار اور پھر انسپکٹرز آف سکولز ان لاہور تعینات کیا گیا۔ فقیر عزیز الدین کے بھائی فقیر نور الدین کے پوتے نوبہار الدین کے دو بیٹے تھے۔ فقیر سید افتخار الدین (1865ء) اور فقیر اقتدار الدین (1880)۔ فقیر سید افتخار الدین نے اپنے دادا ظہور الدین کی جگہ صوبائی دربار میں نشست سنبھالی۔
(نوٹ: فقیر سید افتخار الدین کی بیٹی مبارگ بیگم کی شادی سید مراتب علی سے ہوئی وہ سید بابر علی کے والد تھے گویا سید افتخار الدین، سید بابر علی کے نانا تھے)
فقیر سید افتخار الدین 1886ء میں انگریز حکومت میں شامل ہوئے اور 1899ء میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوئے۔ پنجاب حکومت میں میر منشی کا عہدہ ملا بعد میں راولپنڈی بطور ریونیو اسسٹنٹ تبادلہ ہوگیا اور پھر اسسٹنٹ سیٹلمنٹ آفیسر مقرر ہوئے۔ اس کے بعد حکومت نے 1907ء میں انھیں افغانستان میں اتاشی مقرر کیا۔
انگریز سرکار نے انھیں وفاداری کےعوض لائل پور میں ایک ہزار ایکٹرز اراضی عطیہ کی اور لاہور میں 200 ایکٹرز اراضی دی گئی، ان کے بھائی اقتدار الدین پولیس میں تعینات ہوئے۔ فقیر نور الدین کے تیسرے بیٹے فقیر سید قمر الدین کو 1845ء میں سر ایف کیوری نے ریذیڈنٹ لاہور تعینات کیا۔ 1882ء میں 500 روپیہ خلات دی گئی اور اسی سال لیفٹیننٹ گورنر سر رابرٹ ایجرٹن نے فقیر سید نور الدین کو لاہور 700 ایکٹرز زمین عطیہ کی اس زمین پر سید قمر الدین نے اپنے بیٹے جلال الدین کے نام پر جلال آباد گاؤں آباد کیا۔ ملکہ برطانیہ کی گولڈن جوبلی کے موقع پر 1887ء میں سید قمر الدین کو خان بہادر کا خطاب دیا گیا اور یکم جنوری 1909ء میں Companionship of the Order of the Indian Empire بھی دیا گیا۔
سید قمر الدین کا بڑا بیٹا فقیر سید ظفر الدین ریلوے پولیس لاہور میں ڈپٹی سپریٹنڈنٹ ہے جسے خان صاحب کا خطاب دیا گیا۔ ان کے بیٹے جلال الدین کو ایچی سن کالج میں تعلیم دلوائی گئی اور 1899ء میں منصنف کا عہدہ ملا اور 1907ء میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر لاہور تعینات ہوا۔ فقیر عزیز الدین کے بھائی نور الدین کے چوتھے بیٹے فقیر حافظ الدین 1886ء میں پنجاب میں تحصیل دار تعینات ہوئے۔ جاری ہے…
زبردست موضوع پر قلم اٹھایا ,اسی طرح حقائق سے پردہ اٹھانے والے اپنا فرض پورا کرتے رھے تو یہ عوام کو یرغمال بنانے والے بھیڑیوں کا اصل کردار اور روپ عوام کے سامنے آئیگا