الیکشن 1946: جب جناح جیت گئے
- January 15, 2019 10:06 pm PST
ڈاکٹر محبوب حسین
ستمبر 1945ء کے آخری دنوں میں جب ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ویول نے اعلان کیا کہ چند ماہ بعد انتخابات ہونے جارہے ہیں تو سیاسی جماعتوں نے الیکشن تیاری شروع کر دی. ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں 1946ء کے انتخابات کو کلیدی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اب ان الیکشن کی بنیاد پر برعظیم کے مستقبل کی نئی عمارت کھڑی ہونے جارہی تھی.
یہ کہنا مغالطہ پر مبنی نہیں ہوگا کہ پاکستان کی تشکیل کے محرکات میں ان الیکشن کو نظر انداز کرنا تاریخی غلطی ہے.
ان الیکشن پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور سرحد کے دونوں اطراف کے لکھاریوں نے اس موضوع پربہت قلم آزمائی کی ہے،مگر میری موجودہ تحریر آکسفورڈ یونیورسٹی کی لائبریری سے ملنے والے کچھ ریکارڈ کی بنیاد پر ہے.
ان الیکشن میں ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کی 102 نشتوں کے لیے 9 سیاسی جماعتوں میں مقابلہ ہوا، ان 102 نشستوں میں سے 46 نشستوں پر امیدوار پہلے ہی بلا مقابلہ کامیاب ہو گئے تھے، جن میں کانگرس کے 28، مسلم لیگ کے 8، یورپین کے لیے مخصوص 8 کی آٹھ نشستوں پربلامقابلہ امیدوار کامیاب ہوئے، جبکہ دو آزاد امیدوار بھی مقابلے کے بغیر ہی کامیاب ٹھہرے۔
باقی بچ جانے والی 56 نشستوں پر 129 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ “جداگانہ انتخاب” کے اصول کی بنیاد پر ہونے والے اس الیکشن میں اگر ہم 102 نشستوں کو مختلف قوموں اور شعبوں کے درمیان تقسیم کریں تو ترتیب کچھ یوں بنتی ہے:
ہندو: 48
مسمان: 30
یورپین: 8
زمیندار: 7
کاروباری: 4
سکھ: 2
جبکہ جنرل نشستیں تین رکھی گئی تھیں جس پر کوئی بھی الیکشن لڑ سکتا تھا۔
لازمی پڑھیں:
قرار داد لاہور (پاکستان) کا اصل مصنف کون؟
اقبال کی مشرقیت اور سر سید کی مغربیت
مطالعہ پاکستان کا المیہ
تاریخ کی کتب سے اصل جناح کی تلاش
مطالعہ پاکستان ادھورے سچ و جھوٹ کی کہانی
ان انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 16 لاکھ 10 ہزار 692 تھی جن میں صرف ایک لاکھ 14 ہزار 756 خواتین ووٹرز تھیں۔ اگر صرف ان 56 حلقوں کی بات کریں جہاں امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا تھا تو وہاں کل رجسٹرڈ ووٹ 10 لاکھ 33 ہزار 346 تھے، ان میں صرف 73 ہزار485 خواتین کے ووٹ تھے۔
اگر کاسٹ ہونے والے ووٹوں کا جائزہ لیں تو یہ نمبر5 لاکھ 39 ہزار 881 بنتا ہے، جن میں خواتین کے 16 ہزار 329 ووٹ کاسٹ ہوئے۔
یوں ووٹرز ٹرن آوٹ 52.25 فیصد رہا، جبکہ خواتین کے کاسٹ ہونے والے ووٹ 22.22 فیصد تھے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شمال مغربی سرحدی صوبہ ( آج خیبر پختونخواہ) وہ واحد صوبہ تھا جہاں خواتین کے ووٹ نہیں تھے، جبکہ اس صوبے میں مرد ووٹرز کا ٹرن آوٹ پورے ہندوستان کے سب صوبوں سے زیادہ یعنی 69.66 فیصد رہا۔
اگر انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیں تو کانگرس کو 57، مسلم لیگ کو 30، یورپین کو 8، اکالی دل کو 2، نشستیں ملیں جبکہ آزاد امیدوار 5، نشستیں لے جانے میں کامیاب ہوئے جن میں سے دو نے بعد میں کانگرس میں شمولیت اختیار کر لی، یوں 102 کے ایوان میں کانگرس 59 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی.
ان انتخابات کے کچھ اور دلچسپ حقائق کے مطابق پورے ہندوستان میں تین جنرل نشستیں تھیں جو کہ دہلی، اجمیر اور شمال مغربی سرحدی صوبے کے حلقوں میں تھیں یہ تینوں مسلمانوں کی اکثریت کے علاقے تھے مگر مسلم لیگ نے اپنے اصولی موقف کے پیش نظر صرف جداگانہ انتخابی حلقوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے، جبکہ کانگرس نے ان تینوں حلقوں پر دو مسمان اور ایک ہندو امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیا اور یہ تینوں سیٹیں جیت لیں.
اجمیر کے حلقے سے کانگرس کے امیدوار بہاری لعل وکیل بلا مقابلہ کامیاب ہوئے، دہلی سے آصف علی نے آزاد امیدوار محمد عثمان آزاد کو ہرایا جبکہ شمال مغربی سرحدی صوبہ کی جنرل نشست پر خان عبدالغنی خان نے خاکسار پارٹی کے امیدوار خان محمد اکبر خان کو شکست دی.
دونوں کے درمیان سخت مقابلہ تھا عبدالغنی خان نے 8159 ان کے حریف محمد اکبر خان نے 5386 ووٹ حاصل کیے۔
ان انتخابات کا ایک نتیجہ یہ بھی تھا کہ کانگرس کو ملک کے چار حلقوں سے شکست بھی ہوئی دو بنگال کے مسلمانوں کے لیے مخصوص حلقے تھے جہاں مسلم لیگ کے امیدواروں حسین سہروردی اور مولوی عبدالحمید نے کانگرس کے امیدواروں بالترتیب مولوی ولی الرحمان اور مولوی محی الدین کو بھاری ووٹوں سے نہ صرف شکست دی بلکہ دونوں کانگرسی امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گیئں.
اسی طرح پنجاب کے دو حلقوں سے سکھوں کی جماعت اکالی نے سکھوں کے لیے مخصوص نشستوں پر کانگرسی امیدواروں کو شکست دی۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر محمد علی جناح نے بمبئی کے شہری حلقے سے انتخاب لڑا انہوں نے 5460 ووٹ حاصل کیے ان کے مد مقابل آزاد امیدوار ایچ اے لال جی نے صرف 127 ووٹ حاصل کیے۔
مسلم لیگ کے بلا مقابلہ کامیاب ہونے والے 8 امیدواروں میں مدراس سے ایم جے جمال محی الدین، بمبی سے محمد موسی کیدار، مشرقی پنجاب سے سید غلام بھائی نائیرنگ، شمالی پنجاب سے خان بہادر شیر شاہ، جنوبی پنجاب سے نواب مہر شاہ، بہار سے نعمان محمد اور چوہدری محمد عابد حسین اور سی پی سے نواب صدیق علی خان شامل تھے۔
اگر ان الیکشن کا بحثیت مجموئی جائزہ لیا جائے تو کانگرس نے ہندووں کے لیے مخصوص نشستوں پر 91.50 فیصد، ہندو مہاسبا نے 5.90 فیصد ووٹ لیے جبکہ مسمانوں کے لیے مخصوص نشستوں پر مسلم لیگ نے 86.70 فیصد، قوم پرست مسلمان جماعتوں نے 8.90 فیصد، جبکہ کانگرس کو مسمانوں کے صرف 1.30 فیصد ووٹ ملے،
ادھر سکھوں کے لیے مخصوص نشستوں پر اکالی کو 64.20 فیصد اور کانگرس کو 35.80 فیصد ووٹ ملے.
جدا گانہ الیکشن کی روح یہ تھی کہ ہندوستانی مذہب کی بنیاد پر ووٹ یعنی رائے شماری میں حصہ لیں. یہ الیکشن اسی روح کے تحت ہوئے اور آل انڈیا مسلم لیگ نے مسلمانوں کی مخصوص نشستوں پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے اگرچہ مسلمان ہندوستان میں ہندووں کے مقابلے میں اقلیت تھے لیکن مسلمانوں نے رائے شماری کے ذریعے سے کانگریس کی سیاست کو مسترد کر دیا تھا. ان الیکشن نے تقسیم ہند کی راہ کو مزید ہموار کر دیا تھا.