اردو شاعری اور فنِ تَرجمہ میں دشواری

  • April 30, 2017 1:44 pm PST
taleemizavia single page

طیبہ چوہدری

کچھ لوگ دنیا میں چھپے رازوں کی تَحقِيق و کھوج میں شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں اور کچھ خود ریزگی کے ذریعے بارور ہونے کے لیے، خیر و شرمیں امتیاز کرنے، دنیا سے فراری و بغاوت کے لیے ، تقدیر بدلنے اور سچائی کا سامنا کرنے کے لیےاسے مشعل راہ سمجھتے ہیں۔

شاعری” یونانی لفظ ہے جسکے لغوی معنی “ڈھانچا اور بَناوَٹ” ہیں دوسرے لفظوں میں اسے الفاظ کی امتیازی خصوصیات کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ خوش آوازی ادب کا وہ حصہ ہے جو جمال شناسی کے ساتھ ساتھ تال اورلَے (موسیقی یا رقص) سے متعلقہ ہے جہاں اس سے ثقافتی(مذہب، علم، عقیدہ)پہلوؤں میں رنگ سمویا جاتا ہے وہاں سیاسی معاملات میں منطقی خیالات کو ابھارا جاتا ہے۔

یوں نظریات جملہ قیود سے آزاد ہوتے ہیں اور دل کی بات بھی سامنے آتی ہے۔انگریزی شاعر ورڈزورتھ کے مطابق شاعری طاقتور جذبات کا برجستہ بہاؤ ہے جو فرصت میں یاد آوردہ ہوتے ہیں۔اسی انداز میں روبرٹ فروسٹ نے کہا ہے کہ ” ایک جذبے کا تخیل میں جگہ لینا اور اس خیال کاالفاظ کی صورت میں ڈھلنا شاعری ہے” اور ڈبلیو- ایچ اوڈن کے مطابق ” شاعری مَخلُوط احساسات کا صاف شفاف بیان و اظہار ہے”۔

ڈاکٹر خورشید عالم کے مطابق “شاعری حسن تعلیل کا نام ہے جو استعاراتی زبان استعمال کرتی ہے اور اسکا کوئی مقابلہ نہیں” اور “شاعر قطرہ قطرہ ٹپکنے والے حوادث سے آشنا ہوتا ہے وہ اسباب و علل اور حادثات سے ماورا ہوتا ہے”۔ جیسے علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں؛

حادثہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے
عکس اسکا میرے آئینہ ادراک میں ہے
اور دوسری طرف حفیظ ہوشیار پوری کا کہنا ہے کہ
لب پہ آتی ہے بات دل سے حفیظ
بات دل میں کہاں سے آتی ہے

اردو ایک لشکری زبان ہے جس میں جذب اور ضَم کَر لينے کی وُسعت وفَراخی موجود ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں عربی، فارسی اورسنسکرت کی علم الاصطلاح، نظریات و خیالات موجود ہیں مثلا مرغ بسمل ، مرغ چمن،جام جم اور رقص بسمل جیسی اصطلاحات نے فارسی سے دم لے کر اردو زبان کو سہارا دیا اور دوسری طرف والصبح اذا تنفس”اور جب صبح سانس لیتی ہے” جیسےالفاظ نے عربی میں جنم لے کراردو خیالات میں جدیدیت کی جلا بخشی۔

یہ بھی پڑھیں؛ طلباء کیلئے محبت کا فلسفہ

اردو ادب کو ابھارنے اورجگانے میں تحریک علی گڑھ ، رومانوی تحریک، بھگتی تحریک، ایہام کی تحریک اور ریختہ کی تحریکیں سرگرم عمل رہیں اس وقت سید قلی قطب شاہ نے اپنا پہلا اردو دیوان لکھا،فارسی و ہندی کے عظیم و باکمال شاعرامیر خسرو نے پہلے پہل اردو شاعری کو نہ صرف جذباتی سرگرمی و داخلی توانائی دی بلکہ لڑکھڑاتی زبان کو تہذیبی رفعت عطا کی۔

رام بابو سکسینہ نے خسرو کو نہ صرف اردو کا شاعر اور ادیب کہا ہے بلکہ موجد اور مخترع بھی قرار دیا ہے، خواجہ میر درد پہلے اردو صوفی شاعر کہلائے۔

اس طرح اردو داخلی و خارجی زاویوں سے متاثر ہوئی اور اسکے صوری و معنوی اثرات پھیلے ساتھ ساتھ قدیم مستعمل الفاظ نیا روپ سروپ ڈھال کر سامنے آئے مثلا” سرج” سے “سورج”، “جیو” سے “جی”،” انکھیاں” سے”آنکھیں” اور “نین” سے “چشم، آنکھ” وغیرہ۔

جانئیے؛ ٹیکسلا کا فلسفی چانکیہ کیوں عظیم ہے؟

ناگزیر ہے کہ کسی ایک زبان کے اثاثے کو دوسری زبان میں منتقل کرنے کے لیے اس زبان کے قواعدو ضوابط، نظریات و تاثرات اور اصول و تفہیمات سے آگاہ ہوا جائے۔اس لیے یہ بھی لازم و ملزوم ہے کہ سیاق و سباق کا قرینہ سمجھا جائے تاکہ تغیرو تَقلّب سے انداز و نظریہ مسخ نہ ہو اور حقائق ودلائل بھی واضح رہیں۔

فیض احمد فیض اردو کے عظیم شاعر اور سیاسی شعور رکھنے والی شخصیت تھے جن کے افکا آج بھی زندہ اور قابل راہنمائی ہیں۔ان کا لکھا ہر لفظ ایک طرف حرف بہ حرف سچ اور صحیح ہےاور دوسری طرف تلاطم اور پیکار سے بھر پور۔

ان کی شاعری نے چھوٹے سے خیال کی وادی کے گرد الفاظ، تشبیہات اور مترادفات کا کوہ ہمالہ چن دیا ہے۔ لیکن جب اس وادی کے داخل میں جھانکنے کی سعی کی گئی تو تخئیلی زاویہ نے شیفتگی کے ساتھ کئی ایک اسلوب میں رونما ہو کر رنگ پیمائی کی ہے۔

ان کی شاعری میں درد کی کسک، آرزؤں اور تمناؤں کی موت ، کھردراپن اورپر ہیجانی کیفیت حقیقت کی گہرئی دیتی ہے۔

مگر افسوس یہ ہے کہ ان کی شاعری کی اصطلاحات نے مترجم میں اپنا رنگ ڈھنگ اور مفہوم کھو دیا ہےمثلا۔وی۔جی کائرنن نے فیض احمد فیض کی شاعری کو اردو سے انگر یزی میں منتقل کیا ہے اوربیمار کے لیے لفظ سک استعمال کیا ہے حالانکہ یہ لفظ مریض عشق کی نمائندگی کرتا ہے۔ میر تقی میر نے اسے ان الفاظ میں پیش کیا ہے کہ؛

مریض عشق پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

اور دوسری طرف مرزا غالب نے اسے حقیقت نگاری یوں دی ہے کہ؛

ان کے دیکھنے سے جو آجاتی ہے منہ پہ رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیما ر کا حال اچھا ہے

اسکی دوسری مثال فیض کی نظم “بول” میں سے ہے جس میں شاعر نے لفظ “آہن گر” استعمال کیا ہےاور کائرنن نے لفظ مترجم میں لکھا ہے حالانکہ یہ لفظ مطلق العنانی اورآمریت کے معنوں میں ہے۔ بلیک سمتھ نہیں بلکہ پہر ظلم اور سلب آزادی ہے۔

اسی طرح “اے دل بے تاب ٹھہر” میں لفظ “تیرگی” سے مراد تاریکی یہ کچھ قابل تحسین اورمعنی خیز الفاظ ہیں مگر ایسے کئی اَنوکھے، نِرالے اورلَہری الفاظ اردو شاعری میں موجود ہیں کہ جن کو کسی دوسری زبان میں کہنے اور استعمال کرنے کے لیے انکی بُنیادی ساخت، پس منظر اور منظر نامہ جاننا ضروری ہے تاکہ الفاظ کے مطالب صحیح معنوں میں ادا ہو سکیں اور مفہُوم ومُدّعا سمجھے جاسکیں۔

مختصرایہ کہ اسلوب بیاں، ثقافتی نقش و نگاری،سیاسی دانائی ظاہر کرنے اور سماجی معمے اور معاشی عقدے سنبھالنے میں یہی دلکشی اور گہرے جذبات کی خاصیت و مبالغہ آرائی پیش پیش ہے جیسےمذہب کے استعمال سے سوال کرنا غیر شعوری ہے ویسے ہی یہ سوال کرنا کہ شاعری کا استعمال کیا ہے ، بے بنیاد ہے۔

کرسٹو فر فرائی کے نزدیک شاعری ایک زبان ہے جس میں آدمی اپنے اچَنبھے پہ غورو فکرکرتا ہے۔ اور جیمی سینٹیاگو نے سچ کہا ہے کہ ” شاعری کی اہمیت وہی ہے جو معاملات زندگی میں زند گی، آنسو، لوگ، پیدائش، انسانی تجربے کی ہے۔


tayyaba naqeeb

طیبہ نقیب چوہدری بی ایس آنرز انگریزی پنجاب یونیورسٹی لاہور کی طالبہ ہیں اور وہ گریجویشن کے امتحان میں گولڈ میڈلسٹ ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *