ٹیکسلا کا فلسفی “چانکیہ” کیوں عظیم ہے؟

  • April 8, 2017 12:18 pm PST
taleemizavia single page

ڈاکٹر رمیش کمار

یہ نظام قدرت ہے کہ مختلف ادوار میں ایسے ذہین و فطین لوگ جنم لیتے رہے جنہوں نے بنی نوع انسان کے لیے بڑی ہی دانائی کی باتیں کیں۔ سالہا سال کے تجربوں کا نچوڑ یہ تعلیمات کتابی شکل میں ہزارہا سالوں سے محفوظ چلتی چلی آرہی ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ دانا اور فلسفی لوگ قدرت کا انمول تحفہ ہوتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ جن علم دوست انسانوں نے ان فلسفیوں کے علم و تجربے سے استفادہ کیا وہ زندگی کی دوڑ میں کامیاب ہوگئے۔ دور جدید میں علم سیاسیات یا پولیٹکل سائنس کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں۔

اس حوالے سے ارسطو، افلاطون، کنفیوشس اور میکاؤلی کی فلسفیانہ تعلیمات کو بہت شہرت حاصل رہی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ زمانہ قدیم میں موجودہ پاکستان کے تاریخی شہر ٹیکسلا میں ایک ایسا فلسفی پیدا ہوا جس کا تاحال کوئی ثانی سامنے نہیں آسکا اور اس فلسفی کا نام چانکیہ ہے جس نے ایک کنیر زادے چندر گپت موریا کو اپنی دانائی و حکمت کے ناقابل شکست ہھتیاروں سے لیس کر کے ہندوستان کی ظیم الشان موریا سلطنت کا بانی بنا دیا۔

اس زمانے میں جب آدھی دُنیا یونانی فاتح سکندر اعظم کے گھوڑوں کے آگے سرنگوں تھی، چانکیہ جی کی سیاسی رہنمائی چندر گپت موریا ہندوستان کے طول و عرض میں بکھرے راج واڑوں کو متحد کر کے یونانی افواج کو شکست فاش دے کر تاریخ میں امر ہوجاتے ہیں۔ مورخین کے مطابق چانکیہ جی، جو کوٹلیا اور وشنو گپت کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں کی پیدائش 371 قبل مسیح کے عرصہ میں ٹیکسلا میں ہوئی اور اُنہوں نے ٹیکسلا ہی میں ساری زندگی گزار دی۔

ٹیکسلا ہی میں اپنی فلسفیانہ کتاب ارتھ شاستر تحریر کی جس کی روشنی میں چانکیہ جی نے عملی طور پر ثابت کیا کہ دُنیا میں کامیابی کا حصول ناممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دور جدید میں بھی چانکیہ جی کی تعلیمات کا بول بولا ہے۔ حیرت انگیز طور پر چانکیہ جی کی شہرہ آفاق تصنیف میں انسانی معاشرے کے تمام تر شعبوں کو زیر قلم لایا گیا ہے۔

یہ لازوال کتاب اس وقت تحریر کی گئی جب دُنیا تاریکی کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ارتھ شاستر میں چانکیہ جی نے علوم و فنون، معیشت، ازدواجیات، سیاسیات، صنعت و حرفت، قوانین، رسوم و رواج، توہمات، ادویات، فوجی مہمات، سیاسی و غیر معائدات اور ریاست کے استحکام سمیت ہر موضوع پر اپنی دانائی کے موتی بکھیرے۔

فارغ اوقات میں چانکیہ جی کی یہ عظیم کتاب ارتھ شاشتر میرے زیر مطالعہ بھی رہتی ہے جس کے چند اقتباسات پیش کرنا چاہوں گا۔

کسی شخص کو بے حد ایماندار ہرگز نہ ہونا چاہیے، سیدھے اُگے ہوئے درخت کو پہلے کاٹ ڈالا جاتا ہے اسی لیے بے حد ایماندار کا افراد پہلے قلع قمع کر دیا جاتا ہے۔ اگر سانپ زہریلا نہ بھی ہو تو فطرتا وہ زہریلا پن ظاہر کرتا ہے۔ سب سے برا گرومنترا یہ ہے کہ اپنے راز کبھی بھی کسی شیئر نہیں کرنے چاہیے اگر راز شیئر کیے گئے تو تباہی لازمی ہے۔

ہر دوستی کی پشت پر لازما سیلف انٹرسٹ یعنی ذاتی مفاد ہوتا ہے کوئی دوستی سیلف انٹرسٹ کے بغیر نہیں ہوا کرتی، یہی زندگی کی تلخ حقیقت ہے۔

ہر کام شروع کرنے سے پہلے اپنے آپ سے تین سوال کرنا ضروری ہیں؛

میں یہ کام کیوں کر رہا ہوں؟ اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ کیا میں اس کام میں کامیاب ہوں گا؟ تینوں سوالات کے جوابات کے بارے میں دانائی کے ساتھ غور و فکر کیا جائے۔ اس کے بعد جوش و خروش کے ساتھ کام کو سرانجام دیا جائے۔ جب کوئی کام شروع کر دیا جائے تو ناکامی کا تصور بھلا دیا جائے۔ دلجمعی کے ساتھ کام سرانجام دینے والے ہمیشہ کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ جیسے ہی خوف قریب تر آجائے حملہ کر کے مار ڈالا جائے۔

انسان کی عظمت اس کی پیدائش میں ہیں بلکہ کارکردگی میں ہوتی ہے۔ جوان اولاد بہترین دوست ثابت ہوتی ہے۔ کتابیں جاہل کے لیے ویسے ہی کارآمد ہوتی ہیں جیسے نابینا کے لیے آئینہ تعلیم بہترین دوست ہوتی ہے۔ تعلیم یافتہ شخص کی عزت ہر جگہ کی جاتی ہے۔ تعلیم حسن اور جوانی کو مات دیتی ہے۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج پاکستان نے ایسی کارآمد تعلیمات دینے والے چانکیہ جی کو برہمن گردانتے ہوئے اپنے عظیم سپوت سے رشتہ توڑ لیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں بسنے والوں کے سامنے چانکیہ جی کو عیاری و مکاری سے منسلک کر کے بطور منفی شخصیت کے پیش کرنا اپنی ہی تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے کیونکہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ دُنیا کے لیے چانکیہ جی اتنے مہان عظیم مدبر اور اعلیٰ شخصیت ہیں کہ نہ صرف ان کا نام پولٹیکل سائنس کے بانیوں افلاطون اور ارسطو کے ساتھ لیا جاتا ہے بلکہ محقیقن انہیں آدم سمتھ کی کلاسیکی اکانومی سے پہلے کے دور کی عظیم ترین معیشت قرار دیتے ہیں۔

چانکیہ جی کی قائم کردہ ٹیکسلا یونیورسٹی کو دُنیا کی قدیم ترین درسگاہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف بھارت نے لمحہ ضائع کیے بغیر چانکیہ جی کو اپنا قومی اثاثہ قرار دیتے ہوئے چانکیہ اکیڈمی کے نام سے ایک انسٹی ٹیوٹ قائم کر دیا ہے جس میں تمام ریٹائرڈ جرنیل اور دیگر دانشور ہمہ تن مصروف ریسرچ رہتے ہوئے اپنے ملک کو عظیم تر بنانے کے منصوبے تیار کرتے ہیں۔

علاوہ ازیں تقسیم ہند کے بعد چانکیہ جی کی سفارتی محاذ پر خدمات خراچ تحیسن پیش کرنے کے لیے دار الحکومت نئی دہلی میں قائم ڈپلومیٹک انکلیو کو چانکیہ پوری کا نام دے دیا گیا۔ امریکی چیف جسٹس ارل وارن نے امریکی سفارت خانے کا سنگ بنیاد چانکیہ پوری میں رکھتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا کے پاس حضرت مسیح کی ولادت سے تین سو سال قبل پہلے ایک ایسا عظیم دانشور تھا جس نے آگاہ کیا کہ ایک حکمران ایکسا شخص ہوتا ہے جو اپنی رعایا کو کسی صورت ناخوش نہیں کر سکتا اور اسے ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے جس سے اس کے عوام اسے ناپسند کرنے لگیں۔

برحق یہ ہے کہ چانکیہ ایک عظیم فلسفی تھا جس نے اپنی زندگی میں کام آنے والی تعلیمات سے روشناس کرایا، ہر چند کہ کی کتاب سنسکرت زبان میں تحریر کی گئی تھی لیکن اس کے تراجم انگریزی سمیت متعدد زبانوں میں کیے جاچکے ہیں جس میں اُردو بھی شامل ہے۔ چانکیہ کی کتاب ارتھ شاستر کے تین بنیادی حصے انتظامیہ، ضابط قانون و انصاف اور خارجہ پالیسی امور پر مشتمل ہیں لیکن ہم نے چانکیہ جی کو سیاسی داؤ پیچ، خارجہ پالیسی اور دمشن کے عزائم سے آگاہ رہنے کے لیے جاسوسی اور سبوتاژ کی کارروائیاں کرنے کے طریقے سیکھانے کی وجہ سے نفرت کی علامت بناتے وقت یہ نہیں سوچا کہ یہ حربے ہر دور میں ہر ریاست اختیار کرتی آرہی ہے جن میں ماضی کی مسلمان حکومتیں بھی شامل ہیں اور عصر جدید کے ممالک بھی۔

میں سمجھتا ہوں کہ آج ہمیں اپنی تاریخ کے عظیم سپوت سے وابستہ غلط فہمیوں کا ازالہ کرتے ہوئے ٹیکسلا میں چانکیہ جی کے نام سے منسوب ایک ایسی عالمی معیار کی یونیورسٹی قائم کرنی چاہیے جو سیاسیات اور عمرانیات کے علوم کے فروغ کے لیے مخصوص ہو۔ چانکیہ جی کے شہر ٹیکسلا میں انٹرنیشنل چانکیہ یونیورسٹی فار پولیٹکل اینڈ سوشل سائنسز کے دروازے دُنیا بھر سے علم کے پیاسے طالب علموں کے لیے کھولنے سے پاکستان کا مذہبی تعصب سے پاک علم دوست مثبت امیج بھی عالمی سطح پر اُجاگر ہوگا۔


ڈاکٹر رمیش کمار پاکستان کی قومی اسمبلی کے رُکن ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *