پنجاب یونیورسٹی: اصلاحات کیوں ناگزیر؟
- April 20, 2025 1:25 pm PST

ڈاکٹر حافظ مزمل رحمان
تعلیم، انسانیت کا وہ چراغ ہے جو اندھیروں میں روشنی کا کام کرتا ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو نہ صرف فرد کی ذہنی سطح کو بلند کرتی ہے بلکہ ایک معاشرے کی ترقی کے لیے بھی ضروری ہےتعلیم نہ صرف انسان کو شعور دیتی ہے بلکہ اس کی سوچ، کردار اور عمل کو نکھارتی ہے۔ تعلیم کسی فرد کی نہیں، پوری قوم کی تقدیر بدلتی ہے۔ یہ محض الفاظ، اصولوں یا ڈگریوں کا سفر نہیں بلکہ تہذیب، شعور اور شعوری خودمختاری کی منزل ہے کسی بھی قوم کا مستقبل اس کی تعلیمی پالیسیوں، اداروں اور ان اداروں میں موجود فکری گہرائی سے وابستہ ہوتا ہے۔
جب علم صرف روزگار کا ذریعہ نہ رہے بلکہ شعور، فہم اور آگہی کا وسیلہ بن جائے؛ جب تعلیم محض معلومات کا ڈھیر نہ ہو بلکہ بصیرت، تدبر اور تخلیقی سوچ کی روشنی بنے — تبھی اقوام ترقی کرتی ہیں اور معاشرے ارتقاء کی راہوں پر گامزن ہوتے ہیں۔ سکول، کالج اور یونیورسٹیاں محض درسگاہیں نہیں ہوتیں، بلکہ یہ قوموں کی فکری وعملی بنیادیں استوار کرنے والے ادارے ہوتے ہیں۔ یہی ادارے ایک قوم کی سمت کا تعین کرتے ہیں، اور اسی بنیاد پر اس کے مستقبل کا نقشہ کھینچا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں جامعات کا کردار صرف نصاب کی تدریس تک محدود نہیں ہوتا۔
یہ وہ مراکز ہیں جہاں قوم کا فکری چہرہ تراشا جاتا ہے، جہاں تحقیق جنم لیتی ہے، جہاں سوال پیدا ہوتے ہیں اور پھر انہی سوالوں سے نئی جہتیں تخلیق ہوتی ہیں۔ ایک اچھی یونیورسٹی قوم کو صرف ماہرین نہیں، رہنما، مفکر، سائنسدان، قانون دان، اور مصلح عطا کرتی ہے یہاں سے اٹھنے والی آوازیں سماج کی رہنمائی کرتی ہیں، اور یہاں ہونے والی تحقیق قوم کے مسائل کا حل پیش کرتی ہے۔
اس حوالے سے پاکستان میں بھی کئی قابلِ فخر جامعات موجود ہیں، جن میں “پنجاب یونیورسٹی” کو بھی ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان کی علمی تاریخ میں پنجاب یونیورسٹی کا نام ایک نمایاں اور باوقار مقام رکھتا ہے۔ 1882 میں لاہور کی سرزمین پر قائم ہونے والی یہ درسگاہ برصغیر کی قدیم ترین جامعات میں سے ایک ہے۔ پنجاب یونیورسٹی نے اپنے سفر میں نہ صرف ہزاروں ذہنوں کو علم کی روشنی سے منور کیا بلکہ علمی، ادبی، سائنسی اور سماجی شعور کو بھی تشکیل دیا۔
یہ ادارہ ہمیشہ سے مختلف طبقہ ہائے فکر کے لیے ایک فکری پناہ گاہ رہا ہے، جہاں دلیل کو مقام اور تحقیق کو وقار ملا۔مگر ہر عظیم ادارے کی طرح، اسے بھی بدلتے وقت اور جدید چیلنجز کا سامنا رہا۔ ایسے میں جب قیادت کسی وژنری، متحرک اور دیانتدار شخصیت کے ہاتھ میں آئے، تو ادارہ صرف حالات کا سامنا نہیں کرتا بلکہ ان پر غالب آ جاتا ہے۔
کسی بھی یونیورسٹی کی روح اس کا تدریسی معیار، تحقیق کی سمت، اور انتظامی شفافیت ہوتی ہے۔ مگر اس ساری عمارت کا مرکز ومحور ایک شخصیت ہوتی ہے — وائس چانسلر۔ ایک وائس چانسلر محض ایک انتظامی سربراہ نہیں، بلکہ ادارے کی فکری، اخلاقی، اور تعلیمی سمت کا معمار ہوتا ہے۔ وہ یہ طے کرتا ہے کہ یونیورسٹی کس تعلیمی بلندی کو چھوئے گی، کس تحقیق کی طرف جائے گی، کس معاشرتی خدمت میں اپنا حصہ ڈالے گی، اور کس طرح اپنے طلبہ وطالبات کو ایک ذمہ دار شہری کے طور پر تیار کرے گی۔
پاکستان میں موجود کئی اعلیٰ تعلیمی ادارے وقتاً فوقتاً مختلف وائس چانسلرز کی قیادت میں اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہر قیادت نے اپنی سوچ، حکمتِ عملی اور وژن کے تحت ادارے کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ انہی ادوار کی ایک حالیہ اور نمایاں کڑی، پنجاب یونیورسٹی لاہور کی موجودہ قیادت ہے — جہاں ستمبر 2024 میں پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے وائس چانسلر کا چارج سنبھالا۔پروفیسر ڈاکٹر محمد علی کوئی نیا نام نہیں۔ وہ اعلیٰ تعلیم، تحقیق، اور انتظامی قابلیت کے حوالوں سے ایک مستند ساکھ رکھتے ہیں۔ڈاکٹر محمد علی نے چارج سنبھالتے ہی سب سے پہلے ادارے کے بنیادی ڈھانچے، تدریسی معیار، مالی نظم وضبط، اور تعلیمی پالیسیوں پر توجہ دی۔
انہوں نے ایسے اقدامات کیے جو ان کی مُثبت اور انقلابی سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ان کی قیادت میں سنٹر آف ایکسلینس ان اپلائیڈ مالیکولر بائیولوجی کو فیکلٹی آف الائیڈ ہیلتھ سائنسز میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا — جو تحقیق اور تدریس کے باہمی ربط کو فروغ دینے کی جانب ایک عملی قدم تھا۔
الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے تحت داخلوں کا اعلان اور فشریز جیسے نئے شعبہ جات کے قیام کا فیصلہ اس بات کا غماز ہے کہ یونیورسٹی اپنے دائرہ کار کو سائنسی، پیشہ ورانہ، اور مارکیٹ ڈریون تعلیم کی جانب لے جا رہی ہے۔غیر فعال ڈیپارٹمنٹس کے خاتمے سے لے کر فیکلٹی آف الائیڈ ہیلتھ سائنسز کی تشکیل، نئے داخلے، ڈیجیٹلائزیشن، اور نصاب کی اصلاحات تک — یہ سب محض فیصلے نہیں، ایک وژن ہے۔ مالی بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت کو کمرشل سرگرمیوں کی اجازت کے لیے تحریری تجاویز پیش کیں گئیں اور سولر سسٹم کے عملی منصوبوں سے بجلی کے بحران کا حل تلاش کیاگیا۔ بجلی کے بلوں میں کمی اور ہاسٹلز میں بجلی چوری کی روک تھام کے لیے اقدامات بھی اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ انتظامی اور مالی اصلاحات پر بھرپور توجہ دی جا رہی ہے۔
اسی دوران طلبہ کے مسائل اور نظم وضبط پر بھی عملی اقدامات اٹھائے گئے۔پہلی بار غیر قانونی طور پر ہاسٹل پر قابض عناصر کے خلاف ایک بڑے پیمانے پر کاروائی کی گیئ اور اڑھائی کروڑ سے زیادہ رقم کو ریکور کیا گیا اس کے علاوہ قانون شکنی میں ملوث 80 سے زائد طلبہ کے خلاف کارروائی اور فلسطین ولبنان کے مستحق طلبہ کے لیے مفت تعلیم اور رہائش جیسے فیصلے ایک متوازن اور ہمدردانہ حکمرانی کی عکاسی کرتے ہیں۔تحقیقی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے ریسرچ انسینٹو ایوارڈز اور پرفارمنس ایویلیوایشن سسٹم کا دوبارہ اجرا کیا گیا۔ ادارے کی تاریخی یادداشت کو محفوظ رکھنے کے لیے ہیلی کالج کے ایک کمرے کو سر گنگا رام سے منسوب کرنا، اور اولڈ کیمپس وی سی آفس کو صادق خان عباسی کے نام سے موسوم کرنا اس امر کا اظہار ہے کہ نئی قیادت صرف مستقبل کی طرف نہیں دیکھ رہی، بلکہ ماضی کی قدروں کو بھی یاد رکھے ہوئے ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے پہلے سٹریٹجک پلان کی تیاری، ستر (۷۰) سال سے قابض عناصر سے جامعہ کی زمین واگزار کروانا، یونیورسٹی کو ڈیجیٹل دنیا سے ہم آہنگ کرتے ہوئے آن لائن کیمپس مینجمنٹ سسٹم متعارف کروانا، یہ سب ادارے کو فقط بہتر نہیں، بلکہ نمایاں بنانے کی علامتیں ہیں۔ اس جامع سفر میں اساتذہ کے ساتھ ساتھ انتظامی افسران اور غیر تدریسی عملہ بھی ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُن کی کاوشیں، شب وروز کی محنت، نظام کو چلانے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ غیر تدریسی عملے کو بھی جب تعلیمی میدان میں موقع دیا گیا تو اُنہوں نے بھی گراں قدر کامیابیاں حاصل کیں۔
اگرچہ عمومی تاثر یہی رہا ہے کہ تدریسی عملہ زیادہ مرکز توجہ رہاہے، تاہم ایک جامع ترقی اسی وقت ممکن ہے جب تمام عملہ، خواہ تدریسی ہو یا غیر تدریسی، یکساں طور پر تعلیمی مواقع سے مستفید ہو۔اس پہلو پر غور کرتے ہوئے ہمیں وہ تاریخی مثال یاد آتی ہے جب اردو ادب کے ممتاز شاعر احسان دانش، جنہیں دنیا “مزدور شاعر” کے نام سے جانتی ہے، پنجاب یونیورسٹی کی دیواروں میں ایک مزدور کی حیثیت سے اینٹیں چنتے رہے، لیکن بعد ازاں اسی یونیورسٹی میں بطور ممتحن اُن کی تقرری ہوئی۔ اسی طرح ڈاکٹر أعظم بنگلزئی، جو کبھی بولان میڈیکل کالج میں ایک مزدور تھے، اپنی علمی جستجو کے سبب بعد میں ایک ماہر سرجن کے طور پر پہچانے گئے۔
یہ مثالیں ہمیں بتاتی ہیں کہ وقتی عہدہ یا ذمہ داری کسی کی آخری منزل نہیں ہوتی۔ ایک مزدور بھی محنت کے بل بوتے پر قلم کا سپاہی بن سکتا ہے اور اگر کسی کے اندر سیکھنے کا جذبہ ہو تو عہدے اور دائرہ کار اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ جامعہ میں ایک ایسا ماحول پروان چڑھے جہاں ہر فرد، خواہ تدریسی ہو یا غیر تدریسی، اپنی علمی وتحقیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقع پا سکے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد علی کی قیادت میں ایسا وژن سامنے آ رہا ہے جو سب کو ساتھ لے کر چلنے کی سوچ رکھتا ہے۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ وہ مستقبل میں بھی تعلیم وتحقیق کے دروازے ہر اُس فرد کے لیے وا رکھیں گے جو سیکھنے کا حوصلہ، جذبہ اور عزم رکھتا ہو۔
پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ شاندار ہے، مگر جو روایت آج ڈاکٹر محمد علی کی صورت میں جنم لے رہی ہے، وہ اگر جاری رہی، تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ ادارہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کی بہترین جامعات میں شامل ہو۔ قیادت جب وژن سے جُڑی ہو، فیصلے جب دیانت اور جرات پر مبنی ہوں، اور جب تدریسی وغیر تدریسی عملہ ایک ٹیم کی صورت میں کام کرے، تو پھر کامیابی صرف خواب نہیں، حقیقت بن جاتی ہے۔