ردّ نوآبادیت اور ڈیجیٹل کٹھ پتلی باز
- October 20, 2024 10:37 am PST
اکمل سومرو
آج کی تیز رفتار ڈیجیٹل دنیا میں، سوشل میڈیا نے ہمیں رابطے، تحریک اور فوری تسکین کے وعدوں سے مسحور کر لیا ہے۔ تاہم، اس کی چمکدار کشش کے پیچھے ایک خطرناک حقیقت چھپی ہوئی ہے جو ہماری تنقیدی سوچنے کی صلاحیت اور خود مختار فیصلے کرنے کی طاقت کو کمزور کرنے کا خطرہ رکھتی ہے۔ڈیجیٹل عہد میں، مواد کی ترسیل اور مواد تک رسائی کے لیے تعلیم یافتہ ہونے کی شرط نہیں ہے، ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے افراد کے اذہان مختلف تکنیک کے ذریعے گرفت میں کیے جارہے ہیں۔ ڈیجیٹل مواد کی بڑے پیمانے پر ترسیل اور اشاعت میں سوشل میڈیا انفلوئنسرز کا کردار سامنے آتا ہےجو ذہنی شعبدہ بازی کے ذریعے عوام کو قابو کرنے اور ان پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔حقیقت میں یہ افراد انفلوئنسر نہیں بلکہ manipulators ہیں جو ڈیجیٹل صارف کے ذہن کی سمت متعین کرنے میں مہارت حاصل کر چکے ہیں، ہم انھیں ڈیجیٹل کٹھ پتلی باز بھی کہہ سکتے ہیں۔
ڈیجیٹل کٹھ پتلی باز، بڑی مہارت سے بے عیب زندگی کا دھوکہ تخلیق کرتے ہیں، جس میں وہ ان کمزور لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو اپنی ناقص زندگیوں سے نجات چاہتے ہیں۔ وہ اپنے فالوورز کی عدم تحفظات کو نشانہ بناتے ہیں، انہیں انتہائی سوچ سمجھ کر ایڈٹ کی گئی تصاویر، سجائے ہوئے مناظر، اور خوبصورتی کے ناممکن معیارات سے مسلسل متاثر کرتے ہیں۔ یوں یہ کٹھ پتلی باز بڑے پیمانے پر parasocial تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور سماجی طاقت حاصل کر لیتے ہیں، یہ پیرا سوشل تعلقات سماجی رومانویت کی وہ قسم ہیں جس میں عشق یک طرفہ ہوتا ہے۔
سماجی لحاظ سے ،سوشل میڈیا انفلوئنسرز بے پناہ جوش کے ساتھ ہمارے فیڈز کو ناقابلِ حصول طرزِ زندگی سے بھر دیتے ہیں، اور یوں ورچوئل دنیا کو موازنہ اور بے اطمینانی کا گڑھ بنا دیتے ہیں۔ وہ ہماری ذہنوں میں کمی کا بیج گہرا بو دیتے ہیں، یہ سوچ پھیلاتے ہیں کہ جب تک ہمارے پاس وہی چیزیں، جسمانی خوبصورتی، اور بے عیب زندگیاں نہیں جو وہ دکھاتے ہیں، ہم کسی نہ کسی طرح نامکمل ہیں۔ ہم انجانے میں ان کی بڑی ہیرا پھیری کے کھیل میں مہروں کی طرح شامل ہو جاتے ہیں۔شاید اس ہیرا پھیری کا سب سے تشویشناک نتیجہ ہماری تنقیدی سوچنے کی صلاحیتوں کا زوال ہے۔ سوشل میڈیا انفلوئنسرز مختلف حربے استعمال کرتے ہیں جن کا مقصد ہمارے فیصلوں کو دھندلانا اور ہماری خودمختار سوچ کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ وہ بڑی مہارت سے کہانیاں بُنتے ہیں، ہماری جذباتی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر مصنوعات فروخت کرتے ہیں یا اپنے مفادات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ حقائق کو موڑا جاتا ہے، چُن کر پیش کیا جاتا ہے، بلکہ بعض اوقات گھڑا بھی جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ہم کنفیوژن اور غلط معلومات کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔
سیاسی رائے سازی میں یہ ڈیجیٹل کٹھ پُتلی باز مہابیانیہ کی تشکیل میں سیاسی جماعتوں، سہولت کاروں اور ہیئت حاکمہ کے ایجنڈوں کی تکمیل میں سہولت کار بن جاتے ہیں۔ مہابیانیہ کی تشکیل میں آئی ٹی ماہرین یا کمپنیوں کے توسط سے ذہنوں میں مخصوص طرز کی معلومات ٹھونسی جاتی ہیں ، یوں ڈیجیٹل صارف کے لیے سوچنے کی راہ کا تعین کر دیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز گونجنے والے کمروں کی شکل اختیار کر چکے ہیں، جہاں اختلافی آوازوں کو دبایا جاتا ہے اور مختلف نقطۂ نظر کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ انفلوئنسرز بڑی تعداد میں فالوورز جمع کر لیتے ہیں جو اندھی تقلید میں ان کے ہر لفظ سے چمٹے رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں بے سوچے سمجھے پیروکاروں کی ایک فوج تیار ہو جاتی ہے جو ان پر مسلط کیے جانے والے پیغامات پر سوال کرنے یا تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتی ہے۔ اس ذہنی ہیرا پھیری کے نتائج سنگین ہیں۔ جب ہم ان ڈیجیٹل کٹھ پتلی بازوں کے لطیف اثرات کے سامنے جھک جاتے ہیں، تو ہماری فیصلہ سازی کی صلاحیت ختم ہونے لگتی ہے۔ ہم اپنی منفرد اقدار، ضروریات اور خواہشات پر مبنی سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے کی صلاحیت کو ترک کر دیتے ہیں۔ اس کے برعکس، ہم بے خبری میں خود کو ان انفلوئنسرز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں جو ذاتی فائدے، شہرت اور اپنے چھپے ہوئے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔
لیکن اس کا اثر فرد سے کہیں آگے تک پھیلتا ہے۔ جب معاشرے کے افراد محض خودکار مشینوں کی طرح بن جاتے ہیں، جو بغیر سوچے سمجھے انفلوئنسرز کے بتائے ہوئے رجحانات اور خواہشات کی پیروی کرتے ہیں، تو ہمارا معاشرہ پسماندگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہمارا اختیار، جو کبھی امکانات اور ترقی کی روشنی ہوا کرتا تھا، معدوم ہونے لگتا ہے۔ وہ تنقیدی سوچ، ہمدردی، اور گہری سمجھ بوجھ، جو کبھی ہمارے اجتماعی ضمیر کی تشکیل کرتی تھی، دم توڑ جاتی ہے اور اس کی جگہ ایک کھوکھلا اور سطحی نقطۂ نظر لے لیتا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ persuasion (ترغیب) اور manipulation (ہیراپھیری) کا باہمی ربط کیا ہے، سوشل میڈیا انفلوئنسر انھی دو ہتھیاروں کا استعمال کر کے سماج پر اثر پذیر ہو چکے ہیں یہ کیپٹل ازم کی ترقی یافتہ شکل اور نیو لبرل ازم کی موجودہ شکل ہے۔ یہ اصطلاحات بظاہر ایک دوسرے کی ضد لگتی ہیں، کیونکہ ترغیب کو ہیرا پھیری کی “ایماندار” شکل سمجھا جاتا ہے، جہاں عمل کرنے والا اپنے مقاصد اور خیالات کے بارے میں صاف گو ہوتا ہے۔ تو پھر اثراندازی کی دیگر شکلوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اور ہیرا پھیری کے دوسرے طریقے؟ ہیرا پھیری کے لیے نیت ضروری ہوتی ہے اور اس کا کوئی مقصد ہونا چاہیے – چاہے وہ مقصد صرف انتشار پیدا کرنا ہی کیوں نہ ہو۔ ایک عظیم فلم ساز کئی دیگر لوگوں کے کام پر اثر انداز ہو سکتا ہے، لیکن یہ ہیرا پھیری سے واضح طور پر مختلف ہے۔ فلم ساز دوسروں پر اثر ڈالنے کا ارادہ نہیں رکھتا (اگرچہ وہ اثر ڈال سکتا ہے)، بلکہ وہ اپنے کام پر دوسروں کے ردعمل کے ذریعے اثر پیدا کرتا ہے، جس کے نتیجے میں تحریک اور حتیٰ کہ تقلید بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ اسی طرح، ترغیب ہیرا پھیری کا واحد طریقہ نہیں ہے جو کوئی استعمال کر سکتا ہے۔ ایک آسان متبادل جھوٹ بولنا ہے، جو دھوکہ دہی کی ایک شکل ہے۔ جھوٹ بولنا اور اس پر یقین کیا جانا لازمی طور پر ان لوگوں کے خیالات کو بدل دے گا جو اس جھوٹ پر یقین کرتے ہیں۔اب یہاں سے ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن کے ہتھیار وں کا استعمال کیا جاتا ہے۔
پراپیگنڈا، دھوکہ دہی، آزادانہ تقریر کو دبانا، ہر معاشرہ کا مسئلہ ہے لیکن حالیہ برسوں میں ’جعلی خبریں‘ اور غلط معلومات کی بنیاد پر پبلک ڈسکورس تشکیل پا رہا ہے۔ مرکزی دھارے کے میڈیا نے جان بوجھ کر مس انفارمیشن (غیر ارادی طور پر گمراہ کن معلومات) کو ڈس انفارمیشن کے ساتھ الجھا دیا ہے۔ ڈس انفارمیشن دراصل ارادی طور پر گمراہ کن معلومات عوام تک پہنچانا ہے تاکہ رائے عامہ کا تعین کیا جاسکے، میڈیا کے ذریعے سے ترسیل کی جانے والی یہ ڈس انفارمیشن پالیسیوں اور حکومتوں کی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتی ہے،ڈس انفارمیشن سماج کے لیے زہر سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ اس میں ہیرا پھیری کی وہ تکینک استعمال ہوتی ہیں جنھیں انتہائی مہارت سے کشید کیا جاتا ہے اور عام آدمی اس میں حقیقت و سچ کی تلاش کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتا ہے۔ ریاست کے حاکم طبقات، بسا اوقات ڈس انفارمیشن کو آرگنائزڈ طریقے سے عوام تک پہنچاتے ہیں اس میں مرکزی دھارے کا میڈیا اور سہولت کار ڈیجیٹل کٹھ پُتلی بازوں کی مدد لی جاتی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کے لیے 2020ء میں ٹرسٹیڈ نیوز انیشیٹو کی تشکیل کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ عالمی سطح پر اس پلیٹ فارم سے ملٹی نیشنل کمپنیوں نے قومی اور عالمی میڈیا کے توسط سے کیسے سرمایہ دارانہ اہداف حاصل کیے۔
پاکستان میں ڈس انفارمیشن بنیادی طور پر انڈسٹریلائزڈ ہوچکی ہے، اب یہ باقاعدہ مستحکم آلہ بن گئی ہے جسے کبھی ریاستی سرپرستی تو کبھی نجی کمپنیوں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ آکسفرڈ یونیورسٹی برطانیہ کی جانب سے “Industrialized Disinformation: 2020 Global Inventory of Organized Social Media Manipulation” کے عنوان سے رپورٹ شائع کی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر عوامی رائے کی ہیرا پھیری جمہوریت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ مختلف حکومتیں، سیاسی جماعتیں، اور نجی کمپنیاں سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے جھوٹے مواد اور پروپیگنڈا پھیلا رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، 2020ء میں 81 ممالک نے سوشل میڈیا پر عوامی رائے کی منظم ہیرا پھیری کی۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 48 ممالک میں نجی کمپنیاں حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے پروپیگنڈا مہمات چلاتی ہیں۔ 2009ء سے اب تک تقریباً 60 ملین امریکی ڈالر ان کمپنیوں کو ادا کیے گئے ہیں۔ یہ کام cyber troops کے ذریعے کیا جارہا ہے جس میں بسا اوقات boots اور بیشتر سوشل میڈیا انفلوئنسر کا گٹھ جوڑ شامل ہوتا ہے۔ موجودہ عہد میں جمہوریت کو ان کے گٹھ جوڑ سے سنگین خطرات کا سامنا ہے، یہ گٹھ جوڑ ایلیٹ طبقات کی حاکمیت اور بالادستی و تسلط قائم رکھنے میں سہولت کاری کر رہا ہے۔
پاکستان کے موجودہ حکمران، محض مخالف سیاسی جماعت پر ڈس انفارمیشن پھیلانے کا سیاسی نعرہ بلند کر رہے ہیں حالاں کہ حکمران جماعتوں کی آوازیں خود ڈس انفارمیشن میں اس حد تک غرق ہیں کہ وہ جھوٹ اور سچ کی آمیزش کو عیاں کرتی ہے۔ ہمارا مسئلہ اس وقت کوئی خاص سیاسی جماعت نہیں ہے، ہماری قومی اُلجھنیں یہ ہیں کہ ریاست میں بدترین سرمایہ دارانہ نظام کا نفاذ جاری رکھ کر قومی جمہوری استحصال کرنے میں ایلیٹ طبقات نے گٹھ جوڑ کر لیا ہے، یہ ایلیٹ طبقات سیاسی شناخت سے بالاتر ہیں جو سیاسی جماعتوں کی آلہ کاری کو بہ طور ہتھیار استعمال کرتی ہیں۔
سرمایہ داریت کی لعنت اور ردّ نوآبادیت کے لیے،یہ وقت آ گیا ہے کہ ہم ڈیجیٹل کٹھ پُتلی بازوں (سوشل میڈیا انفلوئنسرز )کی خطرناک طاقت کو تسلیم کریں اور اپنی خود مختاری کو دوبارہ حاصل کریں۔ ہمیں ان کے ہیرا پھیری کے حربوں سے آگاہ ہونا چاہیے۔ ہمیں ہر احتیاط سے تیار کردہ پوسٹ اور سوچ سمجھ کر بنائے گئے اشتہار کے پیچھے چھپے مقاصد پر سوال اٹھانا ہوگا۔ یہ ضروری ہے کہ ہم ہم آہنگی کی زنجیروں سے آزاد ہوں، مختلف نقطہ نظر کو فعال طور پر تلاش کریں، اور بے خوفی سے موجودہ صورتحال کو چیلنج کریں کیونکہ ذہنوں کی جنگ میں، ہمیں خود مختار سوچ اور سچائی کے عزم کے ساتھ اپنے آپ کو مسلحہ کرنا ہوگا۔ صرف اسی وقت ہم اپنی خودمختاری حاصل کرنے کی امید کر سکتے ہیں، انفلوئنسر کی فریب کاری سے آزاد ہو کر ایک ایسے مستقبل کا استقبال کرتے ہوئے جہاں ہمارے خیالات، اعمال، اور فیصلے واقعی ہمارے اپنے ہوں۔