طلباء کیلئے محبت کا فلسفہ

  • March 20, 2017 11:24 pm PST
taleemizavia single page

طیبہ نقیب

اگرچہ یہ وجدانی یقین اور تاثیر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ روح زندہ دلی کی خصوصیت اور امتیازی وصف ہی محبت ہے۔ پھر بھی لفظ محبت کے ساتھ بہت سے منفی تاثر وابستہ ہیں ۔

ڈیبورہ ایناپول نے”محبت کے سات قدرتی اصول” میں لکھا ہے کہ”محبت فطرت کی طاقت ہے، آپ کی ذات پات سے بڑھا درجہ رکھتی ہے، قیدوبند سے آزاد ہے، نہ آپ اسے خرید سکتے ہیں نہ بیچ سکتے ہیں ،محبت ایک انعام کے طور پر برقرار نہیں رکھی جا سکتی نہ ہی یہ سزا کے طور پررد کی جا سکتی ہے، محبت کی پرواہ صرف محبت جانتی ہے کیونکہ ہم تمام باہم جڑے ہوئے ہیں اور محبت کرنا اصولی طور پر مہربان اور پر معنی ہے ۔”کیونکہ جارج سینڈ کے نزدیک “محبت کرنا اور محبوب بننا اس زندگی کی واحد خوشی ہے ۔

اور مارٹن لوتھر کنگ نے اسی محبت کی تعریف میں کہا ہے کہ ” محبت وہ واحد قوت ہے جو دشمن کو دوست کی نوعیت میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ ” تو یہ محبت ہماری زندگی کا لازمی جزو ہے جس لئے اوسکر وائلڈ نے کہا ” محبت کو ہمیشہ آپ اپنے دل میں رکھیں ۔ اس کے بغیر زندگی ایک بے معنی اور محروم الحواس باغ کی طرح ہےجہاں پھول بھی مر گئے ہوں”اور بادشاہ ادب ولیم شیکسپئر کے الفاظ”محبت سب سے کرو ، اعتبار چند ایک پہ کرو ،اور کسی کے ساتھ کچھ برا نہ کرو۔” تقاضہ محبت کا فروغ ہیں۔

جس طرح آج کے جدید دور میں چائے بھی ایک ناقابل یقین حد تک ثقیفانہ الفاظ سے منسلک ہے مثلا”کیپچنو”،”ایسپریسو”،”سکینی لیٹ”اور کیریمل میچی ایٹو” وغیرہ۔ قدیم یونانی سو فسطانیت سے کام لیتے ہوۓ محبت کے بارے میں بات کرتے تھے انہوں نے محبت کی مختلف اقسام سے شناسائی حاصل کر کے اسے چھ مختلف مدارج میں سمویا ہے۔

وہ ہماری خامی کی وجہ سے، اس صدی میں صدمے میں ہوتے، اگر وہ سنتے کہ ہم یہ ایک لفظ دونوں سرگوشیوں میں ایک ہی فہم میں استعمال کرتے ہیں مثلا اتفاقاً ایک ای میل ‘ سائن ان کرنے کے لئے ہم ” لوٹس آف لو”استعمال کرتے ہیں یا پھر موم بتیوں کی روشنی میں اظہار محبت کے لیے “آئی لو یو”۔

“اگیپ” محبت کی سب سے زیادہ سراہی جانے والی افضل وبنیادی قسم ہے۔ اس سے مراد سب سے محبت ہے جسے دوسرے لفظوں میں ہم حقوق العباد بھی کہہ سکتے ہیں۔یہ خُود فَراموش اور بے لوث محبت ہے۔ یہ وہ محبت ہے جو آپ کو تمام انسانوں کے لئے ،خاندان ارکان یا دور دراز اجنبی کے لیے دلی وسعت دیتی ہے۔

اگیپ لفظ کا بعد میں لاطینی زبان میں ترجمہ “کیریٹاس” کے نام سے کیا گیا جس کا مطلب ہے” سخاوت ، خیرات، رحم دلی ،نرم دلی”۔ سی ایس لیوس نے عیسائی محبت کی اس اعلیٰ ترین شکل کو ‘ عظیم تحفہ محبت ‘ کہا ہے ۔یہ کئی دوسری مذہبی روایات، جیسے بدھ مت کے تصور میں ظاہر ہوتا ہے مثلا انکے نظریے” تھراوادہ” ‘عالمی محبت وشفقت’ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے۔محبت کی یہ قسم اب عام اور مَعرُوف نہیں رہی مما لک میں تباہی و بربادی اور انسانیت کے خلاف جنگ اس خیال کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اگرچہ ہَم گَدازی ودَر احساسی کی سَطَح و ہمسری اب پہلے جیسی نہیں رہی لیکن ہمیں فوری طور پر پردیسیوں کی دیکھ بھال کے لئے اپنی صلاحیت خداداد کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔

“فلیا” محبت کی دوسری قسم دوستی سے مرتب ہے، یونانی اس کی قدر کو دوسروں سے زیادہ فائق سمجھتے تھے۔ رفاقت سے وابستہ عمیق دوستی اور دوسروں کے ساتھ پُر خلوص برتاوٴ اسکی عام مثالیں ہیں۔میدان جنگ میں اکٹھے صفیں باندھ کر لڑ نا “فلیا” سے مربوط ہے۔

یہ اپنے دوستوں سے وفاداری، ان کے لیے قربانی، اسی طرح آپ کے جذبات کے ساتھ ان کا اشتراک اور سماجی تعلقات میں بندھن کے افشاں ہونے سے متعلقہ ہے۔”فلیا” کی ایک قسم “سٹورج” ہے جو بچوں کی والدین اور والدین کی بچوں کے ساتھ زُود گُداز سے منسلک ہے۔

“لیوڈس” محبت کی تیسری قسم خوش مزاجی ،مزاحیہ انداز اورشوخ چنچل محبت سے وابستہ ہے۔ جو بچے یا نوجوان محبت کرنے والوں کے درمیان پیار سے قرق شدہ ہے۔ہم اپنے تعلقات کے ابتدائی ادوارو مراحل میں شرارتتا چھیڑ خانی کے طور پراورفلرٹ کے لیے یہی اپناتے ہیں۔لیکن جب ہم ایک موسیقی محفل میں جام لیتے ہیں یا چائے خانے میں چائے تو ہمارا رویہ تبدیل ہو جاتا ہے۔دوستوں کے ساتھ، جب ہم رقص کر تے ہیں یا ہنسی تو ہم محبت کی اس قسم سے منسلکہ ہوتے ہیں۔

اجنبی کے ساتھ رقص سے اس سرگرمی میں تقریباً ظریفانہ متبادل ہو سکتا ہے ۔سماجی اقدار بالغ کواس سبکی پر گھورتے ہیں، لیکن ایک چھوٹی سی مضحکہ خیز حرکت ہمیشہ اذہان میں جاری وساری رہتی ہے۔

“فیلاؤٹیا” محبت کی چوتھی قسم ہے جو منفی و مثبت دونوں پہلوؤں سے مَربوط ہے۔اسکی نسبت خود پسندی ،کبر نفس اور خُود رائی سے اکثروبیشتر جوڑی جاتی ہے۔منفی رخ وہ ہے جہاں آپ خود استغراق(خود پرستی ،خود پسندی) ،ذاتی شہرت اور خوش قسمتی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور نر گسیت (ایک نفسیاتی بیماری اس میں مبتلا شخص اپنی محبت میں اسیر ہوتا ہے) کا شکار ہو جاتا ہے۔ایک صحت مند تر جمہ مشقی کے مطابق اپنے وسیع تر صلاحیت بہتربنانا محبت ہے۔

دوسری طرف، اگر آپ اپنے آپ کو پسند کرتے ہیں اور اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتے ہیں تو آپ کے پاس دوسروں کو دینے کے لئے محبت کی کافی مقدار ہے۔(بدھ مت مذہب کے مطابق یہ دَرد مَندی و خدا ترسی کا اعلی ذریعہ “رحم” ہے)۔ارسطو نے کہا تھا کہ” تمام دوستانہ جذبات دوسروں کے لئے ایک انسان کے احساسات کی توسیع ہیں جیسے خود کے لئے” ۔

“پریگما”محبت کی پانچویں قسم “دیرینہ محبت” جوڑنا اورنَتھی کَرنا سے اخذ ہے۔ ذی فہم اورصاحبِ بصیر ت کے نزدیک یہ مفاہمت ،اتفاق راۓاور سمجھوتے کا نام ہے جو شادی شدہ جوڑوں کے درمیان تکمیل پاتا ہے۔” پر یگما” وقت کے ساتھ کام کرنے میں مدد کے لئے سمجھوتے ،صبر و تحمل اور رواداری کےتعلقات کے بارے میں ہے۔”پریگما” صرف محبت کے عمدہ جذبے میں مبتلا ہونے کا نا م اور محبت پانے کا دام نہیں بلکہ صحیح معنوں میں محبت دینے کا نام ہے۔

سائیکو اینالسٹ ایرک فروم نے کہا کہ ہم بہت استعدادوقوت ‘محبت” میں مبتلا ہونے میں لگاتے ہیں لیکن اصل اصلاحی لحاظ سے ‘محبت” کو جاننے کی زیادہ ضرورت ہے یوں ترک تعلق (طلاق ۔ ۔ خُلع)کی بڑھتی شرح کو روکا جا سکتا ہے۔

محبت کی چھٹی قسم “اروس” ہے ،بعد ازاں زرخیزی کے یونانی خدا اسی کا نام پہلے آتا تھا اور یہ جنسی جذبہ اور خواہش خیال کی نمائندگی ہے ۔ لیکن جیسا کہ ہم آج کرتے ہیں یونانی بھی ہمیشہ اسے مثبت انداز میں تصور نہیں کرتے تھے۔اسے آج تک تردیدی اور امتناعی قرار دیا جاتا رہاہے کیونکہ اس نے یونانیوں کو خوفزدہ کر دیا تھا۔حتی کہ ،”اروس”کو ہولناک، شعلَہ فِشاں ،آتِش مِزاج اور قوت استدلال سے محروم و نافہم محبت قرار دیا جاتا تھا جو کہ آپ کو تھام بھی سکتی ہے اور آپ کسی کو قابو میں بھی رکھ سکتے ہیں۔سی –ایس-لیوس جیسے ناول نویس نے اسے رقم کیا ہے۔

یہ تمام اقسام محبت اپنی جگہ مگر ہمارےہاں ان سب سے بڑھ کر اولین درجے کی محبت کو بقائے دوام حاصل ہے جسے حقوق اللہ بھی کہہ سکتے ہیں۔یہ محبت الہی یا عشق الہی ہے۔اپنے اصل تک پہنچنے کا اصل راستہ یہی ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ”خداتعالی تک پہنچنے کے لئے بہت سےطریقے ہیں، میں نے محبت کا انتخاب کیا ہے”۔

حقوق العباد بھی محبت سے باہم مربوط ہیں۔ مولا نا رومی کے مطابق “محبت آپ اور ہر چیز کے درمیان ایک پل ہے ۔”اور ” آپ جہاں کہیں بھی ہیں، اور جو کچھ بھی ہیں محبت سے وابستہ رہیں” ۔ اس سلسلہ محبت کی ترویج میں مولانا کے اقوال کا سہارا لے کر ایلف شفک نے “عشق کے چالیس نرالے اصول/ چراغ” تحریر کیا ہے۔

مختصرایہ کہ، محبت نفس کے مقابلے کا بہترین راستہ ، عقل و دل و نگاہ کی مر شد ہے۔محبت سے بندہ خدا کو پا سکتا ہے۔ مسائل کا حل سچی و معرفت والی محبت ہے۔ زندگی کی دشواریاں ٹلتی ہیں۔ نگاہ کی وسعت کے ساتھ ساتھ گھپ اندھیرے میں صبح صادق کا ادراک ملتا ہے۔ سب سے بڑھ کر ، محبت سے داخلی سفر باآسانی طے ہوجاتا ہے اور روشنی پوری شدت سے بکھر کر آپ کو درجہ کاملیت دے دیتی ہے۔


tayyaba naqeeb

طیبہ نقیب چوہدری بی ایس آنرز انگریزی پنجاب یونیورسٹی لاہور کی طالبہ ہیں اور وہ گریجویشن کے امتحان میں گولڈ میڈلسٹ ہی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *