پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کی سرد جنگ ختم

  • April 30, 2017 1:15 pm PST
taleemizavia single page

محمد مرتضیٰ نور

پاکستان کا قیام وفاقی مملکت کے طور پر معرض وجود میں ہوا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی تاریخی جد وجہدمیں ہمیشہ وفاقی طرز حکومت کی وکالت کرتے ہوئے صوبائی خود مختاری کے تحفظ کیلئے عملی اقدامات اٹھائے۔

انڈین ایکٹ 1935ء کو پاکستان میں عبوری آئین کے طور پر نافذ کیا گیا جس کے تحت تعلیم بشمول جامعات صوبوں کے آئینی دائرہ اختیار میں تھے جسے 1956ء اور 1962ء کے آئین میں بھی برقرار رکھا گیا۔

اٹھا رہویں آئینی ترمیم (2010ء) کے تحت کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ کرتے ہوئے تعلیم بشمول اعلی تعلیم کو دوبارہ صو بوں کے حوالے کردیا گیا جبکہ اعلی تعلیم میں معیارات اورتحقیق کو فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ ٹو یعنی وفاقی مقنہ کی فہرست دوئم کے تحت وفاق اور صوبائی حکومتوں کے مشترکہ دائرہ اختیار میں دے دیا گیا ہے لیکن سات سال گزرنے کے باوجودان آئینی دفعات پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔

دو ہزار سولہ میں ہائر ایجوکیشن کے معاملے پر بالخصوص وائس چانسلرز تقرری کے طریقہ کار پر لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی جس پر اب تفصیلی فیصلہ بھی آگیا۔ عدالت کا یہ تاریخی فیصلہ وفاق اور صوبے کے درمیان تعلیمی امور پر ابہام کا خاتمہ اور اختیارات کی سرد جنگ کا نقطء انجام ثابت ہوا ہے۔

عدالت نے اُنسٹھ صفحات کے اس فیصلے میں واضح کر دیا کہ تعلیم صوبائی معاملہ ہے اور وائس چانسلرز تقرری کا دائرہ اختیار صوبے کے پاس ہے۔ وفاق اور ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان اس میں مداخلت کا کوئی قانونی جواز اور حق نہیں رکھتا ہے۔

عدالت نے انتہائی دور اندیشی سے یہ پنجاب ایچ ای سی اور ایچ ای سی پاکستان کے درمیان قانونی جنگ کا مسئلہ بھی حل کر دیا ہے۔ عدالت نے وفاقی ایچ ای سی کو آرٹیکل ایک سو چوون کے تحت مشترکہ مفادات کونسل کے کنٹرول میں دے دیا ہے۔

یہ پڑھیں؛ پاکستان، مسلمان اور علم کی ملکیت کا مبالغہ

صوبوں میں اگر ایچ ای سی کو اب مداخلت کرنی ہے تو اُسے مشترکہ مفادات کونسل کو بائی پاس نہیں کرنا ہوگا بلکہ اپنی تمام تر پالیسیز کی حتمی منظوری اسی فورم سے لینا ہوگی جب تک یہ کونسل کسی بھی پالیسی کی منظوری نہیں دے گی اُس وقت تک ایچ ای سی کے پاس کوئی قانونی ہتھیار نہیں ہوگا کہ وہ صوبوں کی پالیسی میں مداخلت کرے۔

یعنی اب ایچ ای سی مشترکہ مفادات کونسل کے تابع ہوگئی ہے۔

عدالت نے تو صوبائی خود مختاری پر بحث کرتے ہوئے بھارت، کینیڈا، جنوبی افریقہ کے وفاقی سسٹم کو بطور حوالہ لیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں اب صوبوں کو ہائر ایجوکیشن پالیسیز پر با اختیار بنا دیا ہے ایک مسئلہ حل کر دیا جو سات سالوں سے اُلجھن کا شکار تھا۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل ایک سو بیالیس کی تیسری شق کے تحت صوبائی اسمبلیوں کو اختیارات حاصل ہیں کہ وہ کسی بھی معاملے پہ قانون سازی کرسکتی ہیں جن کا تعلق وفاقی مقننہ کی فہرست سے نہ ہو ۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت متفرق لسٹ کے خاتمے کے بعد صوبوں کے پاس زیادہ اختیارات ہیں جو کہ صوبائی خود مختاری کو تقویت دیتے ہیں ۔

آئینی طور پر مرکزی حکومت اعلی تعلیمی شعبہ میں کم سے کم معیارات کا تعین کر سکتی ہے لیکن صوبے بھی بااختیار ہیں کہ وہ اپنی جامعات کیلئے معیارات کو بہتربنا سکیں۔

جائیے؛ درسی کتب میں مینار پاکستان کی اُدھوری کہانی

آئین کے تحت اب وفاق کی جانب سے صوبوں کو پابند نہیں کیا جاسکتا کہ وہ تعلیمی معیارات ، پالیسی اور وژن کاتعین نہ کرسکیں۔واضح رہے کہ مشترکہ مفادات کی کونسل وزیر اعظم سمیت تمام وزرائے اعلی پر مشتمل ہوتی ہے۔

اس اہم فورم پر وفاقی ا ور صوبائی حکومتوں کے مابین مختلف تنازعات کو حل کیا جاتا ہے ،لیکن بد قسمتی کی بات ہے کہ آئین کے آرٹیکل 154(3)کے تحت کونسل کے مستقل سیکرٹریٹ کا قیام تاحال عمل میں نہیں لایا جاسکا۔

پاکستان میں اس وقت منظور شدہ جامعات کی تعداد 183ہے جن میں سے نواسی فیصدجامعات یعنی ایک سو تریسٹھ صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں ہیں۔

اب اس تاریخی فیصلے پر عملدرآمد کراتے ہوئے صوبائی حکومتوں کو ان کے آئینی اختیار ات استعمال کرنے کا حق دیا جائے۔ صوبے صرف اس حق پر حق جتانے کی بجائے مجموعی بجٹ کا پچیس فیصد تعلیم پر خرچ کریں، محض مختص کرنے سے تعلیمی ترقی ممکن نہیں ہے۔

ویسے تو پہلے بھی پنجاب حکومت کو ہی اختیار حاصل تھا کہ وہ سرکاری یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز تقرر کرے لیکن اب قانونی پیچیدگیوں سے گزرنے کے بعد حکومت یقینی بنا ئے کہ وہ وائس چانسلرز کی تعیناتی بروقت شفاف اور میرٹ پر مبنی نظام کے ذریعے کرے۔

پڑھیں؛ ایچی سن کالج اور پاکستانی برہمن طبقہ

یہ تو تھا قانونی معاملہ، اب ذرا پنجاب حکومت یونیورسٹیز کے تعلیمی ماحول کا بھی تجزیہ کرے۔ جامعات کے سیاسی کلچر پر کنٹرول، خود مختاری کا تحفظ، سیاسی تنظیموں کی مداخلت پر بھی قدغن لگانا ہوگی۔ محض دعوؤں سے ہم قومی سطح پر نہ تو تعلیمی شعبے میں جدت لا سکتے ہیں اور نہ ہی عالمی مقابلہ جاتی ماحول کا مضبوط حصہ بن سکتے ہیں۔

بلوچستان، سندھ، پختونخوا اور حتیٰ کہ پنجاب کو بھی ہائر ایجوکیشن روڈ میپ تیار کرنا ہوگا اس روڈ میپ کی تیاری میں ایک ہائی لیول تھنک ٹینک تشکیل دیا جائے جو اپنے اپنے صوبوں کی تعلیمی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے پالیسیز مرتب کرے۔

صرف یہی نہیں بلکہ صوبوں کے درمیان اعلیٰ تعلیم کا مضبوط کنسورشیم کو یقینی بنایا جائے تاکہ قومی ہم آہنگی کو نظر انداز نہ کیا جاسکے۔ حکومتوں کو سیاسی نعروں سے نکل کر اب تعلیم کے لیے زمینی حقائق کی بنیاد پر فیصلہ سازی کرنا ہوگی اسی صورت میں ہی ملکی بقاء ممکن ہوسکتی ہے۔


Murtaza Noor

مرتضیٰ نور تعلیمی سولہ سال سے تعلیمی شعبہ سے وابستہ ہیں وہ اس وقت انٹر یونیورسٹیز کنسورشیم فار پرموشن آف سوشل سائنسز ان پاکستان کے کوارڈینیٹر ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *