پاکستان نالج اکانومی کیوں نہیں بن سکتا؟

  • January 28, 2018 3:44 pm PST
taleemizavia single page

ڈاکٹر شہزاد اشرف چوہدری

قلم کا استعمال سیکھنے سے حصول علم تک کے پورے سفر میں ایک طالبعلم کو اُستاد، سکول اور ادارے کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ اس سرپرستی میں اگر معیار اعلیٰ ہوں، ماحول تعلیم دوست ہو تو پھر طالبعلم یعنی شاگرد پر اس کے بہت گہرے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سکول سے لے کر جامعہ تک، تمام مکتب خانوں میں زیر تعلیم طلباء اس قوم و ملک کا اثاثہ ہیں۔

پاکستان میں سکول کی تعلیم ہو یا پھر جامعہ کی سطح کی تعلیم، یہاں کے معیارات ہمیشہ زیر بحث رہے ہیں۔ پاکستان ایک اکائی ہے اور اس کے صوبے اس اکائی کا اہم جزو ہیں، وفاق کی سطح پر اعلیٰ تعلیمی کمیشن یعنی ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ذمہ داری سُپرد ہے کہ وہ ملکی جامعات میں تحقیق اور معیار تعلیم کی نگرانی کرے، اصلاحات کرے، حکومت سے حاصل کردہ فنڈنگ کی آگے موثر انداز میں تقسیم کو یقینی بنائے تاکہ ہائر ایجوکیشن کا معیار بلند تر ہوتا چلا جائے۔

افسوس کریں یا پھر ماتم کریں، ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کی جانب سے دو ہزار سترہ میں کی گئی منصوبہ بندی کا اطلاق نہیں ہوسکا۔ اعلی تعلیمی اداروں کو بہت سے غیرمعمولی مسائل و مشکلات کا سامنا رہا جن میں فنڈز کی کمی ، تعلیمی آزادی کا فقدان ،انتہائی کمزور بنیادی ڈھانچہ اور سب سے بڑھ کر انتہائی سنگین مسئلہ غیر جمہوری طرز حکمرانی  شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں؛ نیو لبرل ازم اور کمرشل تعلیم

اس سال بھی ہائر ایجوکشن کمیشن اعلی تعلمی نظام کے بنیادی ڈھانچے کا تبدیل کرنے کے لئے  پالیسی ساز کردارادا کرنے میں ناکام رہا۔ ساری توجہ کا مرکز شخصی تشہیر اور جامعات کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی تھا۔  . ‘کیو ایس” کے سروے کے مطابق ہماری صرف تین جامعات  ہی پاکستان سے عالمی شہرت یافتہ جامعات کی فہرست میں جگہ بنا سکیں جبکہ دو سال پہلے ہماری چھ جامعات کو یہ مقام حاصل تھا. ایچ ای سی تعیلمی نظام میں کسی قسم کی تبدیلی لانے میں ناکام رہی  ہے۔

مارشل لا ادوار میں  قائم کردہ جامعات  ابھی بھی قانون ساز اداروں (سینیٹ) کے بغیر کام کر رہی ہیں. ہائر ایجوکیشن کمیشن کی گورننگ باڈی کے آٹھ ممبران کا انتخاب ہی نہ کیا جا سکا جس کے باعث یہ باڈی غیر فعال اور غیر مؤثر ہو کر رہ گئی ہے۔ ملک کے اعلی تعلیمی اداروں کی قسمت کے  فیصلے بیوروکریٹک اور ایڈہاک طرز پر کرناشائد ایچ ای سی کا خاصہ بن گیا ہے دو ہزار سولہ سے ایچ ای سی نے اپنی سالانہ رپورٹ شائع نہیں کی۔

گزشتہ مالی سال میں اعلی تعیلمی بجٹ میں اضافہ  توہوا. تاہم، یہ بجٹ اب بھی بہت سے جنوبی ایشیائی ممالک سے  کم مختص کیا گیا ہے. اس سال، زیادہ تر اعلی تعلیمی ترقیاتی منصوبے منظوری حاصل کرنے میں بھی ناکام ریے  ہے، اساتذہ کی فیصلہ ساز اداروں میں شمولیت نہ ہونے اور حکومت وقت کی ترجیح میں پوائنٹ سکورنگ کو نمایاں مقام حاصل ہونے کی وجہ سے ایچ ای سی کا کردار نت نئی جامعات بنانے اور لیپ ٹاپ کی تقسیم تک محدود ہو گیا ہے۔

لازمی پڑھیں؛ پاکستان کی اشرافیہ اور تعلیم کا حاکمیتی ماڈل

جامعات مالی بحران کا شکار ہیں، جبکہ ایچ ای سی نے لاکھوں  روپے غیر ضروری غیر ملکی دوروں اور سیاحت پر خرچ  کر دیئے ہیں اور اسکے ساتھ  دو وائس چانسلرز کانفرنسیں اور  کنونشن”  ویژن 2025 ” کے  عنوان سے منعقد کی ہیں.

اساتذہ اور طالب علموں کی سرگرم  شمولیت کے بغیر اس طرح کے بیکار کام  نہ صرف غیر اہم تھے بلکہ وقت، وسائل اور ٹیکس دہندگان کے پیسے کو بھی ضائع کرنے کے مترادف ہیں. ایک طرف تین سو سے زائد ملکی اور غیرملکی جامعات سے فارغ التحصیل بیروزگار پی ایچ ڈی ہولڈرز ملازمت کے حصول کے لئے احتجاج کر رہے ہیں اور دوسری طرف کسی قسم کی تحقیق کے بغیر ایچ ای سی نئے اسکالرشپ کا اعلان کر رہی یے۔

کمشن نے پہلے سے تقسیم شدہ اسکالرشپیس کی کسی قسم کی اسسمنٹ نہیں کی۔ عوامی فنڈز کا اس طرح کا بے دریغ استعمال شائد ہی کبھی ہوا ہو۔

جامعات کو آزادئ اظہار رائے اورتعمیری سوچ کا مرکز گردانا جاتا ہے،  جہاں نہ صرف اساتذہ اور طالب علم اہم مسائل پر  اپنے خیالات کو آزادانہ طور پر بیان کرسکتے ہوں، بلکہ ان کے حل کے لئے مباحثوں میں سول سوسائٹی کی شمولیت بھی ازحد ضروری ہے. بہت سی پاکستانی یونیورسٹیوں میں اب بھی اظہار رائے کی آزادی تقریبا معدوم  ہے۔

جامعات کے طلبہ  سے یہ امید نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ اعلی تعلیمی اداروں میں اس طرح کے مضحکہ خیز ماحول میں  تنقیدی و تعمیری سوچ کو پروان چڑھا سکیں۔ آذادی اظہار رائے کی فراہمی کو یقینی بنائے بغیرجامعات صرف ایک ڈگری حاصل کرنے والی فیکٹری ہی کہلائی جا سکتی ہیں۔

ضرور پڑھیں؛ اُردو تحقیق کا بحران: ہائر ایجوکیشن کمیشن کیوں خاموش ہے؟

مجموعی طور اعلی تعلیم کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والا آمرانہ گورننس ماڈل  ہےٴ ماضی قریب میں مختلف جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرریوں میں شدید بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں۔ حکومت دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ایسے  وی سی مقرر کرتی ہے جو معیار پر پورا نہیں اترتے۔ جامعات میں وائس چانسلرز فیصلہ ساز اداروں اور جمہوری روایات کو پس پشت ڈال کر من مان مانیاں کرتے ہیں اور اکیڈمک لیڈر کی بجائے خود کو ایچ ای سی کا ماتحت بنا لیتے ہیں۔

  اس کے علاوہ، کچھ جامعات جیسے قائداعظم یونیورسٹی، انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی، کامسیٹس وغیرہ نامکمل قانونی اور جمہوری اداروں  کے ساتھ کام کر رہی ہیں، تقرریوں میں غیر شفافیت ، توسیع اور ایڈہاکازم کلچر اعلی سطحی تعلیم کی ترقی پر انتہائی منفی طور پر اثر انداز ہورہا ہے۔

غیر شفاف اور سیاسی  تقرری کی وجہ سے، یہ وائس چانسلرز اصلی سٹیک ہولڈر نہیں ہیں۔ غیر شفافیت جامعات میں ہر سطح پر واضح ہوتی جا رہی ہے۔غیر قانونی بھرتیوں اور ترقیوں کی وجہ سے قابل اور اہل اساتذہ میں روز بروز مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔  سپریم کورٹ کے واضح فیصلوں کے باوجود اپنی من مانیاں قائم رکھنے کے لئے انتظامی عہدوں پرکنٹریکچول ملازمین کی تقرریوں کا تناسب جامعات اور ایچ ای سی دونوں میں خطرناک حد تک تجاوز کر گیا ہے۔ یہ عارضی ملازمین طویل مدتی فیصلے مرتب کرتے ہیں۔

اب  وقت آ گیا ہے کہ اعلی تعلیمی مسائل کی بنیادی وجوہات پر غور کیا جائے، جو کہ  بنیادی طور پر جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی ہے. دوبارہ نیا پہیہ ایجاد کرنا موزوں اور قابل حل نہیں ہے۔دنیا کی بہترین جامعات میں شمولیت کے لیے  نظام تب ہی فعال بنایا جا سکتا ہے جب اصلی سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے۔

جانئیے؛ پاکستان کا تعلیمی ڈھانچہ کب اور کیسے بدلا گیا؟

  شراکت دار جمہوریت تمام اسٹیک ہولڈرز کی فیصلہ سازی میں شمولیت  کے ساتھ شفافیت کوبھی یقینی بناتی ہے. اعلی تعلیمی حکومتی ماڈل آمرانہ ذہنیت پر مبنی ہے۔ اعلی تعلیمی اداروں میں پاکستان کے آئین کی روح کے مطابق جمہوری روایات کو بحال کرنا ہر گا۔

جامعہ کراچی، جامعہ پنجاب اورجامعہ پشاور جیسے قدیم ادارے شاندار اور جمہوری طرز کے  معیارات پر قائم ہیں۔ تمام جامعات کے ایکٹس پر ان  جامعات کے ایکٹس کے مطابق نظر ثانی کرنا چاہئیں۔  اعلی تعلیم کے متعلق کسی بھی قسم کی پالیسی بناتے ہوئے منتخب شدہ اساتذہ کی شمولیت کو یقینی بنانا چاہئے.  بند دروازوں میں متین کے گئی یک طرفہ پالیسیز پر نظر ثانی کی جانی چاہیے، تمام اعلی تعلیمی  اداروں کےدائرہ کارکو واضح کیا جائے. آئین پاکستان کے  مطابق اور مقرر کردہ مینڈیٹ کے مطابق تمام اداروں کو اپنی مقرر کردہ حدود میں کام کرنا چاہئے۔

ایڈہاک ازم اور توسیع کلچر کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیئے. سال دو ہزار اٹھارہ اعلی تعلیمی میدان کے لئے بہت اہم ہے؛ اعلی تعلیمی قیادت، چیئرمین ایچ ای سی اور درجنوں وائس چانسلرز  اپنی مقررہ مدت مکمل کرنے جا رہے ہیں۔

میرٹ پر مناسب افراد کو تقرر کرنے کا یہ بہترین وقت ہے. ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی تمام آسامیاں مشتہر کی جائیں اور میرٹ پر قابل اساتذہ کا تقرر کیا جائے۔ سیاسی تقرریوں نے  پہلے ہی پاکستانی تعلیمی نظام کو برباد کیا ہوا ہے۔ جامعات اور  ایچ ای سی میں تمام تقرریاں ایک سرچ کمیٹی کے تحت کی جائیں جو نامور اور قابل اساتذہ پر مشتمل ہو۔ ایچ ای سی کی قیادت اور وائس چانسلرز کو اپنی سالانہ  کارکردگی رپورٹ  اساتذہ اور طلبہ کے سامنے پیش کرنا چاہئے۔

اس طرح  نہ صرف جامعات کے معاملات میں شفافیت آئے گی بلکہ یہ اعلی سطح کی تعلیم کی ترقی کے لئے از حد ضروری ہے. وزیر اعظم اور صدرپاکستان کواعلی تعلیم کو بچانے کے لئے کچھ وقت نکالنا چاہئے؛ اور کم سے کم میرٹ پر تمام اعلی تعلیمی  قیادت مقرر کریں۔  

اعلی تعلیمی محتسب کا قیام جامعات میں  اچھی گورننس کو برقرار رکھنے کے لئے  ایک بہترین قدم ہوسکتا ہے. محتسب آفس اساتذہ، طلبہ اور دیگر ملازموں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ضروری ہے ، جواسٹیک ہولڈرز کے وقت اور وسائل کو بچانے کے ساتھ ساتھ ان کا احتساب بھی کرسکتا ہے۔


Dr. Ashraf-2

ڈاکٹر شہزاد فیڈر یشن آف آ ل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمیک اسٹاف ایسوسی ایشن اسلام آباد چپٹر کے منتخب صدر اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *