پاکستان کا تعلیمی ڈھانچہ کب اور کیسے بدلا گیا؟

  • October 18, 2016 7:14 pm PST
taleemizavia single page

ڈاکٹر عامر سعید

وسعت اللہ خان صاحبِ طرز کالم نویس ہیں۔ حال ہی میں لکھے اپنے ایک کالم میں انہوں نے تعلیم گاہوں کو پولٹری فارم سے تشبیہ دی۔اس مضمون میں موجودہ تعلیمی میدان میں ماضی کی خوبصورت اور خوش کن روایات کے ختم ہونے کا بھی ذکر کیا۔

وسعت اللہ خان کے مطابق ماضی میں اساتذہ اپنے شاگردوں کو بے لوث تعلیم فراہم کرتے تھے۔ ان کا مطمع نظر شاگردوں کی تعلیم وتربیت ہوتا تھا اور ان اساتذہ سے پڑھے ہوئے بچے زندگی کے ہر میدان میں ترقی بھی کرتے تھے اور پھراعلیٰ اور ارفع عہدوں پر پہنچ کر بھی وہ اُن اساتذہ کے سامنے انتہائی مودب رہتے تھے۔

اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے تعلیم کے مسلسل پست ہوتے معیار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے 2016ء کے سی ایس ایس امتحان کی مثال دی جس میں پاس ہونے والوں کی شرح 2.9 فیصد تھی۔ان کے مطابق سامنے یہ بات آئی ہے کہ امیدواروں کی اکثریت انگریزی میں ایک اوریجنل پیرا بھی لکھنے سے قاصر ہے۔

ان کی یہ سب باتیں بالکل درست ہیں لیکن یہاں ایک اہم سوال اُٹھتا ہے کہ ایسا کیا ہوا کہ یہ روایات ہم سے روٹھ گئیں؟ تعلیم کے میدان میں وہ کون سی تبدیلیاں کی گئیں کہ جن کہ مندرجہ بالا اثرات دیکھنے کو مل رہے ہیں؟ وہ کون سے عوامل و عناصر ہیں جو ان حالات کے ذمہ دار ہیں؟

معاشرے کے کسی بھی حصے میں کی جانے والی تبدیلیاں ان پالیسیوں کی مرہون منت ہوتی ہیں جو مطلوبہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ جمہوری حکومتوں میں ان پالیسیوں کا تعین عوام کے منتخب حکمران عوام کے مفاد اور ملک کی مستقبل کی ضروریات کی مدنظر رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔

تاہم اس کے لئے کسی بھی ملک کا خودمختار ہونا لازمی امر ہے۔ قرض کی مے پینے والوں کہ یہ سہولت میسر نہیں ہوتی۔
اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو 80ء کی دہائی میں تعلیم کی میدان میں انتہائی بنیادی پیمانے کی تبدیلیوں کا آغاز انتہائی غیر محسوس انداز میں ہوا۔ بھٹو دور میں تعلیمی اداروں کو باقی دوسرے اداروں کی طرح قومی تحویل (نیشنلائز) میں لے لیا گیا تھا۔

جب ’خدا کے نور‘ کا نزول ہونا شروع ہوا تو بھٹو پالیسیوں کے برخلاف اداروں کو ان کے سابقہ مالکوں کے حوالے کرنے کا عمل (ڈی نیشنلائزیشن) شروع کردیا گیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ نجی ملکیت میں نئے ادارے بنانے کی اجازت بھی دے دی گئی

اور پھر آنے والے ادوار، جن میں سول اور فوجی دونوں طرح کی حکومتیں شامل ہیں، میں حکومت کے زیرنگرانی چلنے والے تعلیمی اداروں کو مختلف غیر سرکاری اداروں (این جی اوز) اور نجی اداروں کے حوالے کرنے کا عمل تیز کردیا گیا اور پھر نوبت بایں جا رسید، کہ جس کا ذکر وسعت اللہ صاحب نے کیا ہے۔

یہاں دو سوال اور بھی پیدا ہوتے ہیں پہلا یہ کہ اس طرز کی پالیسی تبدیلیاں کیوں کی گئیں اور دوسرا یہ کہ 80ء کی دہائی میں ہی کیوں کی گئیں؟

یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ موجودہ دور میں دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے۔ اور یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ گاؤں میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے پر انحصار کرتے اور ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک اور بات جو کہ گاؤں کے استعارے میں پائی جاتی ہے کہ گاؤں میں ایک حکمرانی کا مرکز بھی پایا جاتا ہے جسے چوہدری کہا جاتا ہے۔ جس کا حکم کے بغیر گاؤں میں پتہ بھی نہیں ہلتا اور وہاں کا ہر معاملہ اُسکی مرضی کے تحت حل ہوتا ہے (یقیناً اسکی طاقت اور گاؤں میں کس حد تک اسکا حکم چلتا ہے دونوں میں گہرا تعلق ہے)
سرد جنگ کا دور ایک ایسا دور تھا جس میں نظریاتی طور پر دنیا دو حصوں میں منقسم تھی۔ دنیا میں ایک کے بجائے دو چوہدری تھے۔

دونوں چوہدریوں میں اختلاف نظریاتی نوعیت کا تھا۔ امریکہ سرمایہ داری نظام کا سرخیل تھا۔ یہ نظام معاشی اور معاشرتی معاملات میں حکومت کے کمترین عمل دخل کا قائل تھا۔

اس فکر کے وجہ یورپی عوام کا وہ 500 سالہ ماضی تھا جسے وہ ’تاریک ادوار‘ کا نام دیتے ہیں اور جس میں بادشاہوں اور مذہبی (عیسائی) پیشواؤں پر مشتمل حکومت نے ان پر ظلم و جبر کے انگنت پہاڑ توڑے چنانچہ وہ طاقتور اور مضبوط حکومت کے تصور سے بھی کانپتے تھے۔

یہ نظام حکومت کو ’ضروری برائی‘ گردانتا تھا کیوں کہ حکومت نجی تجارتی اداروں اور افراد کو ایسے اعمال سے روکتی تھی جسے وہ مفاد عامہ کے خلاف سمجھتی تھی لیکن سرمایہ دار اسے بنیادی انفرادی آزادی میں مداخلت سمجھتے تھے۔

اس نظریہ کے مطابق عوام کے چند تسلیم شدہ حقوق یا آزادیاں ہوتی ہیں جیسے ملکیت کے حقوق یا آزادی، رائے کی آزادی، عمل کی آزادی اور عقیدے کی آزادی وغیرہ۔ حکومت کا کام ان آزادیوں کا تحفظ کرنا ہی ہوتا ہے اور روٹی، کپڑا، مکان،روزگار، صحت، تعلیم جیسی بنیادی ضرورتوں کا پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔

اور ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے عوام کو خود محنت کرنی ہوتی ہے، واضح رہے کہ یہ نظام انقلاب فرانس کے بعد وقوع پذیر ہوا تھا۔

انقلاب فرانس کے بعد نصف دہائی سرمایہ داروں کے لئے انتہائی منافع بخش دور تھا جس میں انکی دولت میں بے انتہا اضافہ ہوا۔ لیکن اس خوشکن تصویر کا دوسر رُخ بہت اندوہناک اور تکالیف بھرا تھا۔

دوسرا رُخ ملازمین کے حالات پر مشتمل تھا جنہیں دن میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا، تنخواہیں بہت کم تھیں اور حکومت اِن تجارتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتی تھی کیونکہ سرمایہ دار خود ہی حکومت عہدوں پر فائز تھے۔

اس ظلم کے ردعمل کے طور پر یورپ میں ایک دوسرے نظریہ نے جنم لیا جس کی قیادت کارل مارکس کررہا تھا ۔ بقول مارکس ’ملکیت کی آزادی‘ ہی دراصل اُس سرمایہ دارانہ ظلم کی بنیاد ہے جس کے تحت سرمایہ دار ملک میں موجود ہر چیز کا مالک بن سکتا ہے جیسے نہریں، ڈیم، پہاڑ، جنگلات، عوامی ادارے، توانائی کے ذرائع جیسے کہ کوئلہ، تیل وغیرہ۔

ان ملکیتی حقوق کی وجہ سے سرمایہ دار ہر بنیادی چیز کو خرید کر اپنی ملکیت میں رکھ لیتا ہے اور پھر اُسے بیچ کر منافع کماتا ہے (پانی، تیل، کوئلہ، بیج کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں)۔ اس کے توڑ کے لئے مارکس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ معاشرے کے تمام اساسوں کی ملکیت حکومت کے ہاتھ میں ہونی چاہیے اور حکومت کو معاشرے کے ہر فرد کی تمام بنیادی ضرورتیں پوری کرنی چاہیں۔

اس نظریہ کو سوشلزم کہا جاتا ہے جس کی ایک شکل کیمونزم تھی اور جس کے تحت روس میں حکومت قائم تھی۔

سرد جنگ 70ء کی دہائی میں تیز ہوگئی اور روس کا افغانستان میں داخلہ اس کا عروج بن گیا۔ اب ایسی خبریں آرہی ہیں جن کے مطابق امریکہ نے ایسے حالات خود پیدا کئے جس کے تحت روس افغانستان میں داخل ہوا اور پھر اُسے مکمل شکست دے کر اس نظریہ کی حامل ریاست کا کام تمام کردیا جائے۔ پھر پوری دنیا میں سرمایہ داریت کا سکہ رائج ہوگیا۔

اپنی زندگی کے آغاز ہی سے پاکستان نے سوشلزم کے بجائے سرمایہ دار حلقہ میں اپنے اُپ کو شامل کیا۔ اسکی وجہ ہماری نو آبادیاتی تاریخ ہے جس میں حکومت کے مضبوط ترین ادارے سول اور میلیٹری بیوروکریسی تھی۔ اور یہی ادارے پاکستان بننے کے بعد بہت حد تک حکومتی معاملات اور پالیسیوں میں دخیل رہے۔

چنانچہ جب افغانستان جنگ میں شرکت پر ہمیں فوجی امداد ملنی شروع ہوئی تو اُس کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ پالیسیوں کا دور بھی شروع ہوگیا۔ آئندہ آنے والے سالوں میں روس کی شکست کے ساتھ دنیا یک قطبی گاؤں میں بدل گئی، امریکہ دنیا کا واحد چوہدری بن گیا اور پھر دنیا کے معاشی، معاشرتی، فوجی معاملات طوعاً و کرھاً سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہی چلنے لگے۔

موجودہ دور میں سرمایہ داریت کی جدید شکل ’نیو لبرل ازم‘ ہے اسی کے تحت معاشی اور معاشرتی معاملات میں حکومت کا عمل دخل مسلسل کم کرتے ہوئے بہت سے ادارے نجی تحویل میں دیے جاچکے ہیں اور جارہے ہیں۔ یہ عمل صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے اکثر ممالک انہیں پالیسیز کے تحت چلائے جارہے ہیں۔

تعلیمی میدان میں بھی حکومتی یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں کو یا تو نجی اداروں کے حوالے کیا جا چکا ہے اور یا انہیں انتظامی اور مالی خود مختاری دی گئی ہے جسکے تحت وہ اپنے خرچے خود اُٹھائیں گے اور انہیں حکومتی امداد نہیں ملے گی۔

دونوں صورتوں میں حکومت عوام کو یکساں اور مفت تعلیم دینے کے فرض سے کنارہ کش ہوتی جارہی ہے۔ نتیجتاً یہ نجی ادارے خالصتاً سرمایہ دار ادارے بن چکے ہیں جن کو قائم کرنے کا واحد مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہے۔

جب کسی بھی دوسرے تجارتی ادارے کی طرح تعلیمی ادارے کا اولین مطمع نظر بھی زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہو تو وہ طلباء کو گاہک ہی تصور کرے گا۔ پھر ڈگریاں بکیں گی، میرٹ کی دھجیاں بکھیری جائیں گی۔اور استاد شاگرد کو تعلیمی سہولیات فراہم کرنے والے ملازم بن جائے تو پھر ایسے میں ادب آداب اور روایات کو کون دیکھے گا۔

رہی بات اساتذہ کی تو وہ کون سے آسمان سے اُتری مخلوق ہیں، وہ بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہیں، حکومت کی یہ پالیسیاں ان کو بھی تو متاثر کرتی ہیں۔

جب سرمایہ دار تعلیمی انڈسٹری میں اپنا سرمایہ انویسٹ کرکے زیادہ سے زیادہ منافع کما رہے ہیں تو اساتذہ ان اقدار سے متاثر ہوئے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں جبکہ ان سرمایہ دارانہ پالیسیوں کیوجہ سے بنیادی ضرورتیں جیسے بجلی، گیس، تیل، تعلیم، صحت اور خوردنوش کی اشیا مہنگائی کی اوج ثریا پر جا پہنچی ہیں۔


amir-saeed

ڈاکٹر عامر سعیدانسٹی ٹیوٹ آف ایڈمنسٹریٹو سائنسز، پنجاب یونیورسٹی لاہور میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہیں۔اُنہوں نے یہ بلاگ خصوصی طور پر تعلیمی زاویہ کے لیے لکھا ہے۔

  1. beside these reasons there are many other reasons which are causing the downfall of our education institutes. i am also a student . in education institutes there is a lot of favouritism. teacher treat their favourite student in a good way and help them in their subject and studies. give them free marks and don’t do justice with the talented students.. why they don’t keep in theeir minds that they are spoiling our future and becoming a cause of not having job.

  2. Dear Aamir Saeed,

    Aslam o alaikum after reading all of your comments i agree with all of you..1st we should stand against any unfair, we should not wait for any one..no one will come to change our education system..we are the future of pakistan so lets holds hands together and do something.

  3. Educational institutions are part of the ideological state apparatus. Their purpose is to ensure that the system, howsoever, it is being run, should continue to operate along similar lines. Pakistan’s education system is able to achieve that all. So from the point of view of the ruling elite, it is actually doing its job very well.

  4. استاد کی حیثیت وسعت اللہ خان صاحب کے دور میں بھی ایک سبالٹرن کی ہی تھی۔ ماسٹر یا ماشٹر انگریز دور سے معاشرے کا ایک ایسا فرد بنا جس پر رحم تو کیا جا سکتا تھا اس کی کسمپرسی پر رشک تو کیا جا سکتا تھا لیکن اسکی باتوں پر عمل نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ وہ زمانہ ماضی کا ایک ایسا کردار تھا کہ جس کی کتابی باتیں غلامانہ معاشرے میں نا قابل عمل تھیں۔ اس نظام کے خلاف شعور دینا تو اس کی ذہنی اور سماجی سطح سے بہت اونچی بات تھی۔ وسعت اللہ خان ایک رومانوی ناسٹیلجیا کا شکار ہو کر اپنا مضمون لکھ گئے ہیں اور ان کی تحریر کے جمالیاتی پہلووں کو انجوائے کریں اور انکی تحریر کو بینیفٹ آف رومانویت دیتے ہوئے صرف نظر کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *