پاکستان کا نظام تعلیم اور ذہنی آزادی کا تصور

  • June 10, 2017 9:23 pm PST
taleemizavia single page

اکمل سومرو

علم وہ جو آزادی دلائے۔ یہ حیرت انگیز مقولہ ہے اسے ہم علم کی اصل تعریف بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ علم کی تعریف کے ساتھ ساتھ اس کا معیار بھی ہے۔ ہم آزاد انسان نہیں ہیں ہماری زندگیاں آزادی سے آشنا نہیں ہیں۔ چنانچہ ہم نے جن سکولوں میں تعلیم پائی ہے انہیں تعلیمی کے بجائے تخریبی ادارے کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔

کیونکہ علم کی قطعی تعریف اور معیار یہ ہے کہ اس سے ہمیں اپنی زندگی میں خوشی اور آزادی کے حصول میں مدد ملتی ہے۔ جو علم یہ خوشی مہیا نہیں کر سکا اسے کیا نام دینا چاہیے؟

دُنیا بھر میں علم ترقی کر رہا ہے، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے مگر انسان آزاد دکھائی نہیں دیتا اس کے بجائے ہم اور زیادہ مجبور اور متعین ہوتے جارہے ہیں اور مزید نیچے گر رہے ہیں۔

جھوٹے علم کی نشانی یہی ہے کہ اس کی بدولت انسانی جسم اور روح غلامی کی بیڑیوں میں جکڑ رہی ہے۔ اس علم کے ذریعے سے انسانی شعور بلندیوں کو چھونے کے بجائے پستیوں میں گرتا دکھائی دیتا ہے۔ انسانی زندگی کی قوت الوہیت کی جانب بڑھتی نظر نہیں آتی بلکہ اسے ہم حیوانیت کی جانب مائل دیکھتے ہیں۔

ایک جانب علم پھیل رہا ہے اور دوسری جانب انسان روبہ زوال دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف تعلیم میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف زندگی کا معیار پست ہوتا چلا جارہا ہے۔ ایک جانب انسانی ذہانت ترقی پارہی ہے تو دوسری جانب انسانی روح پستیوں کا شکار ہوتی نظر آتی ہے۔

پڑھیں؛ مولانا آزاد کا انقلابی تعلیمی منصوبہ

کہیں کوئی بنیادی خرابی ہے۔ آج دُنیا میں کسی بھی گزشتہ صدی کی نسبت کہیں زیادہ آگہی، تعلیم اور یونیورسٹیاں ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ آج انسان کو کسی بھی گزشتہ صدی سے کہیں بڑھ کر دُکھ، تکالیف اور بے سکونی کا سامنا ہے۔ حالیہ تعلیم کی بدولت زندگی تباہی کا شکار ہے۔

ہم اپنے بچوں کو بلند عزائم اور اچھے ارادوں کے ساتھ تعلیم دے رہے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کی پرورش کے حوالے سے بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں مگر انہیں تعلیم دیتے وقت ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مزید پستی کی طرف جارہے ہیں۔

کیا ہم آج کے لوگوں کو حقیقی طور پر تعلیم یافتہ کہہ سکتے ہیں؟ جن کی ساری تعلیم اعلیٰ اقدار کو تباہ کر رہی ہے اور ادنٰی اقدار کو گلے لگا رہی ہے؟ کیا ہم ان لوگوں کو حقیقی مفہوم میں سمجھدار کہہ سکتے ہیں جو ہمیشہ گھٹیا کو بڑھیا پر ترجیح دیتے اور جسم کی خاطر روح کو بیچنے کو تیار رہتے ہیں۔ جن کے سامنے دولت کے مقابلے میں اعلیٰ اقدار کی کوئی اہمیت نہیں۔

جن کے لیے رُتبے اور طاقت کا حصول ہی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے اور جن کی زندگی میں بامعنی کی نسبت بے معنی کی زیادہ اہمیت ہے۔

کیا ایسا علم ہمیں سامراج سے آزادی دلا سکتا ہے؟ ہم اپنے بچوں کو انجینئر، ڈاکٹر، ریاضی دان اور کیمیا دان بنا رہے ہیں مگر یہ تعلیم نہیں ہے، اس کے بجائے اسے محض روزی کمانے کے ذرائع کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔ یہ محض اچھے انداز میں روزی کے حصول کے طریقہ ہائے کار ہیں۔

ہم اپنے بچوں کو مزید تعلیم کیلئے یورپ و امریکہ بھیج رہے ہیں گویا ہم انہیں محض روزی کمانے کے ذرائع سے واقفیت کے حصول کی تعلیم دے رہے ہیں اس سے زیادہ کُچھ بات نہیں۔

حقیقت میں ہم انہیں تعلیم دے رہے ہیں نہ تعلیم سے کوئی واسطہ قائم کر رہے ہیں کیونکہ علم کا مطلب زندگی میں حقیقی اور اعلیٰ انسانی اقدار کا جنم ہے۔

پڑھیں؛ مسئلہ تعلیم آمنہ مفتی کی نظر میں

آزادی کیا ہے؟ بلندیوں کیجانب سفر، بلند سے بلند تر ہونا، خود کو دن بدن اونچائی پر لے جانا۔ انتہائی بلندیوں کی جانب سفر ہی حقیقی آگاہی اور علم کہلائے گا۔ کیا ہم فرد کو بلند پروازی کی تعلیم دے رہے ہیں؟ ہم تو انہیں خود غرضی، استحصال اور ذخیرہ اندوزی کی تعلیم دے رہے ہیں۔ ہم یہ تعلیم پھیلا رہے ہیں کہ کوئی کس طرح اپنی خواہشات اور توقعات کو زیادہ سے زیادہ منافع بخش انداز میں پورا کرسکتا ہے اور پھر ہم سجھتے ہیں کہ ہمارے بچے حقیقی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

ہماری تعلیم انسانی و سماجی اقدار کا سبق ہی نہیں سیکھا رہی اس کے بجائے ہماری تعلیم انا کا سبق دیتی ہے۔ انا اور پیار دو متضاد اقدار ہیں جہاں انا ہوگی وہاں پیار کا کوئی کام نہیں۔ جہاں پیار ہوگا وہاں انا کا وجود ممکن نہیں۔موجودہ تعلیم انا سیکھاتی ہے اور ہم اوائل بچپن سے ہی اپنا انا کو تیز کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔

بچہ ابتدائی جماعت میں داخلہ لیتا ہے اور ہم اسے پہلی پوزیشن حاصل کرنے کو کہتے ہیں۔ پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے کو انعام دیا جاتا ہے۔ آخری نمبر پر آنے والے کو کسی قسم کا انعام نہیں دیا جاتا اور اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اگر جماعت میں تیس طلباء زیر تعلیم ہیں تو ان میں سے صرف ایک پہلی پوزیشن حاصل کر سکتا ہے۔ ایک طالبعلم کی خوشی کی بنیاد بقیہ اُنتیس کے دُکھ اور مایوسی پر ہوتی ہے۔ ہم یہ تعلیم دے رہے ہیں۔

پڑھیں؛ کیا تعلیم فارمیشن کا نام ہے

پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے طالبعلم صرف اس لیے مسرور نہیں ہوتا کہ وہ اول رہا ہے بلکہ اسے بقیہ طلبائ کو پیچھے چھوڑنے کی خوشی ہوتی ہے۔ ہم تشدد اور سختی کی تعلیم دے رہے ہیں۔ ہم سب جو سکول چلاتے ہیں اور علم بانٹتے ہیں ہم یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ خوش نصیب وہ ہے جو پہلی پوزیشن حاصل کرتا ہے۔ اس سے زیادہ استحصال پر مبنی نظام تعلیم کیا ہوسکتا ہے؟

ہم مقابلہ بازی کی تعلیم دے رہے ہیں۔ ہم اوائل بچپن سے ہی بچوں کے ذہن میں مقابلے، تشدد اور خواہشات کے بیج بو دیتے ہیں اس کے بعد ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ سکول ہیں۔ نہیں، انہیں سکول کہنا درست نہیں ہوگا یہ تعلیم کُش ادارے ہیں، یہ عدم آگاہی کے مراکز ہیں۔ یہ ادارے انسانی ذہن کو گمراہ کر رہے ہیں اور اسے مجنوں بنا دیتے ہیں۔ یہاں کمتری سیکھائی جاتی ہے۔ یہاں سے ہمیں دوڑ کا سبق ملتا ہے۔ چاہے یہ دولت کی دوڑ ہو، عہدے کی یا طاقت کے حصول کی دوڑ، یہ دوڑ کا بخار ہے اور بخار کبھی انسان کو صحت مند نہیں بنا سکتا۔

یہ بات سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ جو لوگ دوسروں کو پیچھے چھوڑنے کے منتظر ہیں وہ ساری زندگی بھاگتے رہتے ہیں کیونکہ وہ جہاں بھی پہنچتے ہیں وہاں کوئی اور ان سے آگے ہوتا ہے۔ اس کے بجائے اگر کوئی شخص اپنی ذات سے بالا تر ہو کر انسانی سماج کی ترقی کے لیے آگے بڑھتا ہے تو وہ ایک دن ایسی جگہ پہنچتا ہے جہاں کوئی اس سے اُوپر نہیں ہوتا۔

جانئیے؛ پاکستان کا تعلیمی ڈھانچہ کب اور کیسے بدلا گیا

یہ جذبہ پیدا کرنے والی تعلیم ہی آزادی دلا سکتی ہے۔ یہ آپ کو اپنی ذات بلندیوں پر لے جانے کا فن سیکھاتی ہے۔ آپ کو دوسروں سے مقابلہ کرنا سیکھانے والی تعلیم کبھی آزادی نہیں دلا سکتی۔

دوسروں کو پیچھے رہنے پر مجبور کرنا گویا انہیں تکلیف پہنچانا ہے۔ جو چیز انسان کو اس کی روح اور سچائی سے قریب تر لے جاتی ہے وہ تعلیم ہے۔ اس دُنیا میں انسان کو درپیش تمام تکالیف، تاریکیوں، نفرت اور تشدد کی بنیادی وجہ جھوٹے علم کو علم سمجھنا ہے۔

اگر ہم انسانی سماج کو ترقی کی جانب لے کر جانے کے خواہاں ہیں تو ہمیں پھر حقیقی اور جعلی علم کے مابین امتیاز کرنا ہوگا۔ جو تعلیم ہمیں محض روزی کمانے کے طریقے سیکھاتی ہے وہ غلط علم ہے اس کے بجائے جو تعلیم ہمیں روزی کمانے کے طریقوں کے بجائے زندگی گزارنا سیکھاتی ہے وہ علم ہے۔


akmal-dawn

اکمل سومرو سیاسیات میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ تاریخ اور ادب پڑھنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔وہ لاہور کے مقامی ٹی وی چینل کے ساتھ وابستہ ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *