مسئلہ تعلیم “آمنہ مفتی” کی نظر میں

  • January 29, 2017 7:34 pm PST
taleemizavia single page

آمنہ مفتی

بچپن میں میرا پسندیدہ مشغلہ تھا اخبارات اور رسائل میں ‘فرق تلاش کریں’ کے عنوان سے چھپی تصویروں میں فرق ڈھونڈنا۔ مسلسل مشق سے میں اتنی طاق ہو چکی تھی کہ نظر پڑتے ہی فرق ڈھونڈ نکالتی تھی، اور اب تو یہ عالم ہے دور ہی سے، ساحر لودھی اور شاہ رخ خان کو دیکھ کر ایک نہ دو، پورے پچیس فرق بتا دوں، مگر ایک جگہ آ کر میری سب طراری دھری رہ گئی ہے۔

پورے پاکستان میں اس وقت میٹرک اور او لیول کے امتحانات کی تیاری زور و شور سے شروع ہو چکی ہے۔ اندھیرے سویرے، ماسٹر وضع قطع کے شرفا موٹر سائیکلوں پہ سوار بھرر بھرر کرتے، اس گھر سے اس گھر میں گھستے دکھائی دیتے ہیں۔

سردی سے بچنے کو جیکٹ کی زپ اوپر تک بند ہوتی ہے اور اکثر اس زپ کے اندر ہی نوٹس یا کورس کی کتاب بھی رکھ لی جاتی ہے۔ خاصا خودکش سا حلیہ بنائے یہ بزرگ ان بچوں کو پڑھانے جا اور آرہے ہوتے ہیں جن کے ماں باپ کے خیال میں اعلیٰ تعلیم ‘ٹیوشن’ کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی۔

ان استادوں کے علاوہ طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد ٹیوشن سنٹروں میں بھی پڑھتی ہے۔ جہاں مختلف سکولوں کے اساتذہ اپنے نوٹس سے پڑھاتے ہیں۔ میٹرک سسٹم میں پڑھنے والے بچے ہوں یا اولیول، دونوں طریقہ ہائے تعلیم میں یہ ’ٹیوشن‘ نامی کوہان ضرور آتا ہے۔

مزے کی بات ہے کہ سکول میں والدین سے بڑھ بڑھ کے بچوں کی شکایات کرنے والے اساتذہ ہی اکثر ان ‘ٹیوشن سنٹروں’ پہ رونق افروز ہوتے ہیں۔

ہمارے کچھ فاضل دوست میٹرک سسٹم سے سخت نالاں ہیں۔ ان کے نزدیک یہ غلام قوم کو غلام رکھنے کے لیے کی گئی میکالے کی وہ سازش ہے جو مسلسل انڈے بچے دے رہی ہے۔ اتفاق سے میرے مشاہدے میں دونوں طریقۂ تعلیم سے پڑھنے والے طلباء رہے ہیں۔ خدا گواہ ہے کہ سوائے اس فرق کے کے کیمبرج پڑھنے والوں کی اردو ذرا سی زیادہ کمزور ہوتی ہے، مجھے دونوں طریقوں سے پڑھے بچوں میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔

ایک سے چشمے، ہاتھ میں پکڑے ایک سے ٹیبلٹ، ایک سی پتلونیں، چہروں پہ ایک سی بیک وقت مضحکہ اڑاتی اور خائف سی مسکراہٹ۔ حد یہ کہ جب بات کرتے ہیں تو ایک ہی طرح کا جھٹکے دار تلفظ، ایک سے الفاظ، استادوں کے بارے میں ایک سی رائے۔

شاید میرا مشاہدہ ہی غلط ہے۔ آخر کوئی وجہ ہو گی جو ماں باپ ماہانہ تقریباً 30 ہزار روپے سکول فیس اور اتنی ہی ٹیوشن فیس ادا کر کے اپنی اولاد کو کیمبرج سسٹم میں داخل کراتے ہیں۔ جبکہ اس سسٹم میں میٹرک کی نسبت ایک سال زیادہ لگتا ہے۔ مزید لطف کی بات یہ ہے کہ کیمبرج سسٹم کے بچے، میڈیکل یا انجینئرنگ میں جانے کے کیے جب ای کیٹ اور ایم کیٹ کے امتحانات میں بیٹھتے ہیں تو اس سے پہلے انھیں ‘ایف ایس سی’ کا سارا کورس پھر سے پڑھنا پڑتا ہے۔ یعنی سو جوتے بھی اور سو پیاز بھی۔

یقیناً میرا مشاہدہ غلط ہو گا کیونکہ اتنے پاپڑ بیل کر بھی کیمبرج سسٹم کے بچوں کی نسبت ایف ایس سی کرنے والے طلبہ کی زیادہ تعداد ان امتحانات میں کامیاب ہوتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایک ہی ملک میں دو نظامِ تعلیم ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ مگر یو نیورسٹی میں جا کر یہ دونوں دھارے جب ملتے ہیں تو دونوں میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ سڑک پہ چلتے ہوئے دونوں طرح کے بچوں کا رویہ ایک سا ہوتا ہے، کوڑا کرکٹ وہ بھی اچھالتے ہیں، یہ بھی۔ ذرا سی بات پہ، آپے سے باہر وہ بھی ہو جاتے ہیں یہ بھی۔

مخصوص قسم کے الفاظ جو، ہماری نسل کے لو گوں کی سمجھ سے بالا تر ہیں یہ بھی استعمال کرتے ہیں وہ بھی۔ صبح جگانے پر ’آج پڑھائی نہیں ہو گی‘ کا بہانہ وہ بھی لگاتے ہیں یہ بھی۔ فون پہ دوستوں سے ہر وقت سنیپ چیٹ وہ بھی کرتے ہیں اور یہ بھی۔

آخر ایک آدمی جو دن رات محنت کر کے 80 سے 90 ہزار کماتا ہے، اپنی کمائی کا ایک بڑا حصہ ایک مہنگے ذریعۂ تعلیم پہ کیوں لگاتا ہے؟ جانے وہ کون سا باریک فرق ہے جو اتنے بہت سے پیسے لگانے سے پڑتا ہے؟

لیکن میں پھر یہ کہوں گی میرا مشاہدہ غلط ہے، آخر ایک آدمی جو دن رات محنت کر کے 80 سے 90 ہزار کماتا ہے، اپنی کمائی کا ایک بڑا حصہ ایک مہنگے ذریعۂ تعلیم پہ کیوں لگاتا ہے؟ جانے وہ کون سا باریک فرق ہے جو اتنے بہت سے پیسے لگانے سے پڑتا ہے؟ ابھی تو مجھے یہ ہی نظر آرہا ہے کہ میٹرک اور او لیول دونوں ہی کے طلبہ امتحانات کی تیاری کے لیے، ٹیوشن سنٹروں اور گھریلو ٹیوشن کے محتاج ہیں۔ ہاں ایک فرق ہے۔ میٹرک کی ٹیوشن ذرا سستی، جبکہ او لیول کی ذرا مہنگی ہے۔

اس کے علاوہ کوئی فرق نظر آیا تو اگلے کسی کالم کے ذریعے آپ کو ضرور مطلع کروں گی۔ اس دوران اگر آپ کوئی فرق تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ضرور بتائیے گا، بہتوں کا بھلا ہو گا۔ کم سے کم یہ تسلی تو ہو جائے گی کہ اتنا پیسہ اور وقت جس شے پہ خرچ ہو رہا ہے وہ تعلیم ہی ہے، کوئی جھوٹا معاشرتی معیار نہیں۔ خدا جزائے خیر دے گا۔


amna

آمنہ مفتی ناول نگار ہیں اور وہ زبان و ادب کے حلقوں میں منفرد پہچان رکھتی ہیں، اُن کا یہ کالم بی بی سی اُردو پر بھی شائع ہوچکا ہے۔

  1. Irony of less or almost no difference owes parents ignorance as well as such schools that are poor in upgradation and professional coordination among stakeholders and Cambridge university counseling departments concerned,

  2. آپ اچھی لکھاری ہیں لیکن آپ کا فوکس استاد کا “مخصوص” ا حلیہ ترجیح تها یا والدین کا شوق او لیول یا پھر دوہرا تہرا نظام تعلیم….
    میں بھی سکول کا استاد ہوں لیکن ایک باپ بھی. ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ کسی استاد کی “خاطر” کرنے کے شوق میں ہم ایک باپ کی بهی تذلیل کرتے ہیں.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *