نوآبادیاتی تعلیمی دور:انگریزوں نےہندوستان کو کیسے ذہنی غلام بنایا؟ دوسری قسط

  • August 26, 2016 8:58 pm PST
taleemizavia single page

اگرچہ انگریزی تعلیم کی حمایت،مشرقی علوم کی تعلیم کی مخالفت کے مترادف تھی اور میکالے کو اپنی تعلیمی رپورٹ منظور کرانے میں مشرقی علوم کی تدریس کے ہم وطن حامیوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑاتھا۔

مگر دونوں انگریزی سیاسی استحکام اور ثقافتی تغلب کے نکتے پر متفق تھے،بس طریقِ کار کا فرق تھا۔ایک اور بات بھی دونوں میں مشترک تھی۔

دونوں ہندوستان کے اشرافیہ طبقے کی تعلیم کے حامی تھے۔شرق شناس موجود اشرافیہ طبقے کی ہمدردی کے خواہاں تھے اور انگریزی پسند ایک نیا اشرافیہ طبقہ (کالے انگریز) تخلیق کرنا چاہتے تھے۔

اس تعلیمی پالیسی میں ایک نیا موڑ 1854 ءمیں چارلس ووڈ کے مشہور تعلیمی مراسلے کی مدد سے آیا۔

اس مراسلے کی اہم سفارشات میں ایک تو ہر صوبے میںمحکمہ تعلیم کا قیام شامل تھا؛ دوسرا اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ اب تک اعلیٰ طبقے کی تعلیم پر توجہ دی گئی ہے۔

آیندہ عام لوگوں کی تعلیم پر توجہ دی جائے؛تیسرا انگلستان کی طرز پر ہندوستان میں بھی اساتذہ کے تربیتی ادارے قائم کیے جائیں۔

عام لوگوں کی تعلیم پر زور دینے کا مطلب دیسی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانے کی طرف پیش قدمی تھا۔یہ پیش قدمی ،کلاسیکی زبانوں کومزید پس منظر میں دھکیلتی تھی مگر انگریزی کے اجارے کو گزند پہنچانے کا شائبہ تک نہیں رکھتی تھی۔

لہٰذا انگریزی تعلیم برابر جاری رہی۔ 1882ءمیں سر ولیم ہنٹر کی سربراہی میں قائم ہونے والے انڈین ایجوکیشن کمیشن نے دیسی زبانوں کو پرائمری اور ثانوی جماعتوں میںذریعہ تعلیم بنانے کی سفارش برقرار رکھی۔

لہٰذا دیسی زبانوںمیں نصابات کی تیاری1854ءکے تعلیمی مراسلے کے بعدشروع ہوئی۔یہ الگ بات ہے کہ یہ سارا عمل بے حد سست رفتاری سے ہوا۔

برطانوی ہندوستان کا نظامِ تعلیم اشرافیہ کی سطح پر انگریزی اورعوام کی سطح پر ورنیکلراور انگریزی سے بہ یک وقت عبارت تھا۔انگریزی تعلیم کی کیا جہت تھی؟

اس کا جواب ہمیں ایشیاٹک ریویو“میں شامل پنڈت شیام شنکر کے ایک مقالے سے مل جاتا ہے۔ پنڈت شیام نے 1857ءکے یونیورسٹی ایکٹ میں درج یونیورسٹی کے قیام کے مقاصد کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
یونیورسٹی کے قیام کا مقصد تعلیم نہیں۔

بلکہ جاننا یا فن تھاہندوستانی جامعات بنیادی طور پر تعلیم دینے کے لیے نہیں،جیسا کہ ہم عموماً اس اصطلاح کا مطلب لیتے ہیں،یعنی جسمانی،ذہنی اور اخلاقی صلاحیتوں کی متناسب نشوونما۔

اسی رسالے(جس کا ابتدا میں نام ” دی امپیریل انیڈ ایشیاٹک کوارٹرلی ریویو“تھا )کے چند سال پہلے کے شمارے میں جے کنیڈی کا مضمون” انڈین ایجوکیشن پالیسی “ شایع ہواتھا۔

کنیڈی ا انگریزی اور ورنیکلر تعلیم کے اہداف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ” اگرچہ [انگریزی] تعلیم یافتہ مقامی لوگوں کے لیے لنگوا فرینکا ہے،مگر اس کا مطالعہ مقصودِ بالذات نہیں۔

بلکہ یہ اس لیے سیکھی جاتی ہے کہ یہ سرکاری ملازمت کی بنیادی اہلیت ہےورنیکلر تعلیم بھی سرکاری ملازمت کے نچلے عہدوں کے لیے درکار ہے۔

اگرچہ انگریزی اور ورنیکلر تعلیم میں وہی طبقاتی امتیاز قائم کیا گیا جو انگریز اور ایک عام ہندوستانی میں موجود تھا،مگردونوں کا مقصود ایک ہی تھا۔

سرکاری کارندے پیدا کرنا۔تعلیم کو انسان کی بہترین ذہنی صلاحیتوں کی دریافت و نمو اورفطری روحانی صلاحیتوںکی ترقی سے الگ کر کے چند ٹکوں کی سرکاری نوکری کا وسیلہ بنانے میں استعمار کو کئی مقاصد حاصل ہوتے تھے۔

سب سے بڑا مقصد یہ حاصل ہوتا تھا کہ سرکاری ملازمت ہندوستانیوں کو استعماری نظام کی کل کا پرزہ بنا دیتی تھی اوروہ اس کے خلاف احتجاج و مزاحمت کا حق کھو دیتے تھے۔

استعماری کل کا پرزہ بننے کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ تعلیم یافتہ ہندوستانی یورپی تہذیب اور اس کے مظاہر کی مدحت کے جذبات اپنے دل میں پیدا کریں۔

یہ سب مخصوص طرز کے نصابات کے ذریعے ممکن تھا۔لہٰذا نصابات کی تیاری میں اس مقصد کو پیشِ نظر رکھا گیا۔

عظیم فکری اور تہذیبی تبدیلیاں دیسی زبانوں کی ترقی کی مرہون ہوتی ہیں۔جدید یورپ کے تہذیبی انقلاب کو ممکن بنانے میں وہاں کی ورنیکلر زبانوںکا سب سے اہم حصہ ہے۔

کلاسیکی لاطینی اوریونانی کی جگہ جب انگریزی،جرمن،فرانسیسی،اطالوی،ہسپانوی وغیرہ نے لی اور ان میںکلاسیکی پائے کے ادبیات کی تخلیق ہوئی اور انھیں جدید علوم کی زبانیں بنایا گیا۔

لہٰذا نو آبادیاتی برصغیر میں بھی اس بات کا امکان تھا کہ دیسی زبانوںکی سرپرستی سے ’ایک عظیم فکری و تہذیبی انقلاب‘برپا ہو،مگر ایسا نہیں ہوا۔

یورپ کو ایک آفاقی مثال کے طور پر پیش کرنے کے باوجود برصغیر میں یورپ کی تاریخ نے یہاں خود کو نہیں دہرایا۔

اکثر مستشرقین اردو کے لیے انگریزی کو اس درجے کا حامل سمجھتے تھے جو لاطینی و یونانی کا انگریزی کے لیے تھا اور یہ رائے ظاہر کرتے تھے کہ جس طرح لاطینی و یونانی نے ورنیکلر انگریزی کو ثروت مند کیا ،اسی طرح انگریزی ،اردو کو بیش بہا فائدہ پہنچائے گی۔

اسی خیال سے اردو کے نصابات میں ’انگریزی روح ‘بھرنے کی کوشش کی گئی۔نو آبادیاتی عہد کے اردو نصابات کی ’روح ِ رواں‘ انگریزی فکر ہے، انگریزی ادب کی شعریات بس کہیں کہیں،ادھورے انداز میں جلوہ دکھاتی ہے۔

چوں کہ نصابات کی ترتیب کا بنیادی محرک ’سرکار کی کل کے پرزے‘ تیار کرنا ہے،لہٰذاوہ فکری و تہذیبی انقلاب ممکن نہیں تھا،جو انسان کے طبعی،ذہنی اور اخلاقی قوا کی متناسب نشوونما کا رہینِ منت ہے۔

ڈاکٹر ناصر عباس نیئر نے یہ تحریر خصوصی طور پر تعلیمی زاویہ کے لیے لکھی ہے۔ ناصر عباس کی اس کاوش پر تعلیمی زاویہ کی ٹیم انتہائی ممنون ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *