سی پیک اور پاکستان میں زرعی غلامی کا استعماری منصوبہ
- May 23, 2021 7:23 pm PST
اکمل سومرو
پانچ برس سے پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ ملک میں نافذ ہے، ابتدائی طور پر اقتصادی منصوبہ کا تخمینہ 46 ارب ڈالرز تھا جو بڑھ کر 62 ارب امریکی ڈالرز تک پہنچ چکا ہے۔ اقتصادی منصوبہ کی اس رقم کا 20 فیصد حصہ قرض پر مبنی ہے اور پاکستان کو یہ رقم بہ طور قرض دی جارہی ہے جبکہ 80 فیصد رقم پاکستانی اور چینی کمپنیوں کے مابین مشترکہ منصوبوں میں ہونے والی سرمایہ کاری پر مبنی ہے۔
چین نے اقتصادی راہداری پر 26.5 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے جسے پاکستان آئندہ 20 برسوں میں دو گنا واپس کرنے پر پاپند ہے اس میں سرمایہ کاروں کا منافع بھی شامل ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کو ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے 2020ء تا 2022ء تک سالانہ 2.4 ارب ڈالرز کا قرض بھی ملا ہے اور پنجاب میں زراعت کے لیے 25 ملین ڈالرز کی تکنیکی امداد بھی دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ 2020ء تک پاکستان کے عوامی قرضہ کا حجم 113.8 ارب ڈالرز تک جا پہنچا ہے۔ رواں برس فروری میں سی پیک پر پاکستان کی خصوصی کمیٹی نے واضح کیا کہ چین نے اس منصوبہ کے تحت 2017ء سے کسی بنیادی ڈھانچہ کے منصوبہ کے لیے مالی اعانیت فراہم نہیں کی۔ چنانچہ پاکستان کو بیرونی قرضوں اور غیر ملکی سرمایہ کاری پر بھروسہ کرنے کے لیے سی پیک منصوبوں کی مالی اعانت جاری رکھنا ہے۔
سی پیک میں شامل زرعی پراجیکٹس کا دارو مدار انفراسٹرکچر کی ترقی پر ہے اور پاکستان کی زرعی مصنوعات پر چین ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے سے مکمل کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے۔ حکومت پاکستان نے پندرہ سرمایہ کار کمپنیوں کو خصوصی اقتصادی زون میں زمین الاٹ کرنے کی منظوری دے دی ہے، ان میں چینی کمپنی Zhengbang Agriculture Pakistan Private Limited بھی شامل ہے جو 51 لاکھ امریکی ڈالرز کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہے، یہ کمپنی پنجاب کی زرعی زمین کے لیے کھاد کی درآمد و فروخت کی مجاز اور کیڑے مار ادویات کی فراہمی کرے گی اور یہ کمپنی پنجاب میں زرعی کمیمیکل پلانٹ نصب کرے گی جو آئندہ برس جون میں آپریشنل ہوگا۔ ۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ان زراعت پر مبنی خصوصی معاشی زونز کے لئے سڑکوں اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی سے فوڈ پروڈیوسرز کو نقصان پہنچ رہا ہے، سپیشل اکنامک زون کے تحت زرخیز زمیوں پر قبضہ کیا جارہا ہے جو نسل در نسل پاکستانی کسانوں کے ہاتھ میں ہے۔ بلوچستان میں، کچھی کینال ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کے تحت 15300 ہیکٹرز سے زائد اراضی قبضے میں لی جارہی ہے، جبکہ پشاور میں، ناردرن بائی پاس روڈ کے خلاف سن 2015 سے کسان سراپا احتجاج ہیں کہ بغیر کسی معاوضے کے ان گھروں اور کھیتوں کی زمین پر قبضہ کیا گیا ہے۔
پاکستان میں دو زرعی مصنوعات کو اہمیت حاصل ہے، گندم اور ڈیری۔ ڈیری کے شعبہ میں چھوٹے کسانوں کی ذرائع آمدن ہے اور ڈیری ان کے لیے بینک اکاؤنٹ کا درجہ رکھتی ہے، جب بھی ان کسانوں کو نقد رقوم کی ضرورت ہوتی ہے تو اپنے مویشیوں کو فروخت کرتے ہیں، خواتین کاشت کاروں کے لیے ڈیری گھریلو آمدنی کی ضمانت ہے جبکہ مویشی اور ان کی پیداوار گھریلو اخراجات کیلئے اہم اثاثہ ہیں لیکن اب ملٹی نیشنل کمپنیاں کسانوں و کاشت کاروں کا یہ اثاثہ ضبط کرنے کا منصوبہ رکھتی ہیں۔
پاکستان میں ڈچ ملٹی نیشنل کمپنی Friesland Campina Engro Pakistan زراعت کے شعبہ میں تیزی سے سرایت کر رہی ہے، یہ کمپنی دُنیا کی پانچ بڑی ڈیری کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان میں 2005ء میں شروع کی گئی اینگرو فوڈز لمیٹڈ آج پروسیس شدہ دودھ کی ملک میں سب سے بڑی کمپنی بن چکی ہے اس کے ساتھ یہ کمپنی جوس اور فروزن ڈیزرٹس کی پروسیسنگ اور فروخت کا کاروبار بھی کر رہی ہے۔ سن 2010ء میں اینگرو نے ورلڈ بینک کے انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) سے 8 کروڑ ڈالرز کی گرانٹ حاصل کی جس کے تحت ملک بھر میں چھوٹے ڈیری فارمز اور دیہاتوں سے دودھ جمع کرنے کے مراکز قائم کیے گئے۔
بعد ازاں 2017ء میں آئی ایف سی اور ڈچ ڈویلپمنٹ بینک نے Friesland Campina کو اینگرو فوڈز کے 51 فیصد شیئرز خریدنے میں مدد کی، اس کے بعد سندھ میں 6500 آسٹریلیائی نسل کی گائے کے ساتھ 101 ایکٹر رقبہ پر ایک بڑے ڈیری فارم اور پروسیسنگ پلانٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہاں یہ بالکل واضح ہوتا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے ورلڈ بینک جیسے ادارے مالی معاونت فراہم کرتے ہیں تاکہ ملکوں کی اقتصادیات پر کمپنیوں کا قبضہ ہوسکے۔ ۔
فرائیز لینڈ کمپنی نے اینگرو فوڈز سے اشتراک سے پاکستان میں ڈیری مارکیٹ تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ پاکستان میں دودھ کی کل پیداوار کا 95 فیصد حصہ دکانوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔ ان غیر رسمی منڈیوں تک دودھ کی پہنچ ختم کرنے کے لیے پاکستان کے بڑے بڑے ٹی وی چینلز پر کھلے دودھ کو مضر صحت قرار دینے کے لیے پاکستان میڈیکل کمیشن کے پلیٹ فارم سے مہم شروع کی گئی ہے، کھلے دودھ کے خلاف اس مہم کی فنڈنگ ملٹی نیشنل کمپنیاں کر رہی ہیں لیکن وہ اپنا نام استعمال نہیں کر رہے اس لیے پاکستان میڈیکل کمیشن کو خریدا گیا ہے، اس مہم کے توسط سے حکومت پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ کھلے دودھ کی فروخت پر پاپندی عائد کرے اور پیکجڈ دودھ کی پالیسی نافذ کرے تاکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں چھوٹے ڈیری فارم کو مارکیٹ سے ختم کر سکیں۔ نیسلے پاکستان پہلے ہی چین کی کمپنی Huiyu group سے شراکت کر چکا ہے تاکہ پیکجڈ دودھ فروخت کرنے کی پالیسی سے کلی طور پر فائدہ اُٹھا سکے۔
ڈیری پاکستان کی زراعت کا وحدہ شعبہ نہیں ہے جسے سی پیک کے تحت کارپوریٹ کمپنیوں کے قبضہ میں دیا جائے بلکہ گندم کی پیداوار کو بھی یہی خطرہ لاحق ہے۔ پاکستان کی پچاس فیصد زرعی زمین پر گندم اُگائی جاتی ہے اور چین کے تیار کردہ بیج کی فروخت سی پیک کا دوسرا بڑا ایجنڈا ہے۔
سی پیک کے تحت آئندہ برس تک پاکستان کے وسیع علاقوں میں ہائبرڈ گندم کی پیداوار کا منصوبہ رائج کرنے کا امکان ہے۔ ہائبرڈ بیجوں پر چین اور پاکستان سن 2012ء میں معاہدہ کر چکا ہے۔ بیجنگ اکیڈمی آف ایگری کلچرل اینڈ فوریسٹری سائنسز نے پاکستان کے لیے ہائبرڈ گندم تیار کی تھی اور یہ کہا جاتا ہے کہ بیجنگ انجینئرنگ ریسرچ سنٹر برائے ہائبرڈ گندم نے پاکستان کو 12000 کلو گرام ہائبرڈ گندم کے بیج پاکستان کو فراہم کیے تھے۔ پاکستان میں چین کی ہائبرڈ گندم کو فروغ دینے کے لیے سی پیک کے تحت پشاور میں چین پاکستان ہائبرڈ گندم کا مشترکہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سنٹر بنایا گیا۔ پاکستان میں گندم کی پیداوار کی کمی پر حکومت مسلسل عوامی ذہن سازی کر رہی ہے اور رواں سال بھی گندم کی رسد پوری کرنے کے لیے درآمد کرنے کا اعلان کر دیا ہے، پاکستان میں ہائبرڈ گندم کی پالیسی نافذ کرنے کے لیے گزشتہ دو برسوں سے ماحول بنایا جارہا ہے۔
چین کی کمپنی سائیو کیمیکل کی کھاڈ اور کیڑے مار ادویات کے ساتھ ہی ہائبرڈ گندم مارکیٹ میں فراہم کی جائے گی جس سے مقامی کسانوں اور کاشت کاروں کو زیادہ معاشی دباؤ کا سامنا ہوگا اور پاکستان میں گندم کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا، ان کاشت کاروں کو ہائبرڈ بیجوں کے استعمال پر مجبور کیا جائے گا اور کاشت کاروں بیجوں پر کنٹرول کھو دیں گے، گندم کے بیجوں کی مقامی اقسام کو ختم کیا جائے گا اور پاکستان کی اشیائے خورو نوش پر چین کو مکمل کنٹرول حاصل ہوجائے گا۔
پاک چین اقتصادی راہداری بنیادی ڈھانچہ سے چلنے والی معاشی نمو پر بنایا گیا ہے جو درحقیقت ملکی زمین اور وسائل کو چینی گرفت میں دینے پر مبنی ہے۔ اس ماڈل کی مدد سے پاکستان میں روایتی معاش، دیہاتوں میں قائم ڈیری فارموں اور کاشت کاروں کی تباہی ہوگی۔ صنعتی زراعت کا ماڈل سی پیک کے ماتحت بنایا جارہا ہے اور دیہی معیشت چینی کمپنی سائنو کیمیکل، فرائیز لینڈ اور نیسلے جیسی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھ میں ہوگی یوں پاکستان کو جدید نوآبادیاتی ماڈل کے تحت چلانے میں استعماری حربوں کو کامیاب کیا جائے گا۔