نوآبادیاتی نظام کے فوائد کی حقیقت

  • June 17, 2017 8:59 pm PST
taleemizavia single page

محمد عثمان

یہ گارڈین اخبار میں چھپنے والے کالم کا اُردو ترجمہ ہے۔

عرضِ مترجّم: ششی تھرور ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ایک سیاستدان اور دانشور ہیں جن کا پسندیدہ مو‌ضوع ہندوستان میں نوآبادیاتی دور کا مطالعہ ہے۔چند سال پہلے اُن کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی گئی تقریر بے حد مقبول ہوئی جس میں اُنہوں نے نوآبادیاتی قبضے کے دوران ہندوستان میں کئے گئے برطانوی مظالم اور استحصال کا ٹھوس دلائل کے ساتھ تعارف کروایا تھا ۔ مخالفین گنگ تھے اور پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھاتھا۔

اسی سلسلے کی اگلی کڑی، حال ہی میں شائع ہونے والی اُن کی کی کتاب (انگلوریئس ایمپائر جبکہ پاکستان اور بھارت میں اس کتاب کا نام ایرا آف ڈارکنیس رکھا گیا ہے) جس میں اُنہوں نے برطانوی نوآبادیاتی دور سے متعلق بہت سے جھوٹ، مفروضوں او ر خیالی کہانیوں کی حقیقت کا پردہ فاش کیا ہے جِن کے زریعے ہندوستان اور پاکستان میں نوآبادیاتی دور کو مثالی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

یہاں کے عوام کو اُن کے درخشاں ماضی سے کاٹا جاتا ہے اور اُن میں مایوسی، بے عملی اور مغرب سے مرعوبیت پیدا کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے خطے کے بہتر مستقبل کےلئے کسی بھی قسم کی اجتماعی جدوجہد سے دور رہیں۔ نوآبادیاتی دور کا مطالعہ اِس لئے بھی اہم ہے کہ اِس کے بغیر ہم اپنے موجودہ مسائل کا درست تناظر میں جائزہ لینے اور اُن کا حل نکالنے کے قابل نہیں ہوسکتے۔یہ مضمون اِس کتاب میں پیش کئے گئے چند اہم مفروضوں کا اَحاطہ کرتا ہے۔

نوٹ: (مضمون میں جہاں بھی 1947ء سے پہلے کے تناظر میں ہندوستان کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے برعظیم کا پورا خطہ مراد لیا جائے جس میں آج کا بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کا کچھ حصہ شامل تھا۔ 1947ء کے بعد کےتناظر میں جہاں بھی ہندوستان کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے مراد موجودہ بھارت ہے)۔

یہ پڑھیں؛ نوآبادیاتی تعلیمی دور:انگریزوں نے ہندوستان کو کیسے ذہنی غلام بنایا؟ دوسری قسط

دورِ حاضر میں برطانوی نوآبادیاتی نظام کے بہت سے عذر خُواہ اُس دور میں روا رکھے گئے استحصال، ہندوستانی وسائل پر قبضے اور لوٹ مارپر اعتراض نہیں کرتے کیونکہ اس سب کے شواہد اِتنے ٹھوس ہیں کہ اُنہیں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔

اِس کی بجائے اُن کا جوابی بیانیہ یہ ہوتا ہے کہ اگرچہ برطانیہ نے دو سوسال میں ہندوستان کو جتنا لوٹا جاسکتا تھا لوٹا ، لیکن وہ جاتے جاتے ہندوستان میں بہت سے دیرپا فوائد اور ترقیات چھوڑ گئے جن میں سیاسی وحدانیت، جمہوریت، قانون کی حکمرانی، ریل کا نظام، انگریزی نظام تعلیم، یہاں تک کہ چائے اور کرکٹ جیسے دلچسپ مشاغل شامل ہیں۔آئیے ان مفروضوں کا ایک ایک کرکے جائزہ لیتے ہیں۔

اٹھارہویں صدی میں مغل سلطنت کے زوال کے بعد ہندوستان باہم دست و گریباں چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوچکا تھا۔‎اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہندوستان کو اپنے دور ِحکومت میں ایک ُمتحد ملک بنانے میں برطانوی راج کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے (یہ الگ بات ہے کہ اِسی برطانوی راج کی پالیسییوں کے نتیجے میں آج ہندوستان تین ممالک میں تقسیم ہوچکا ہے)۔

جانیئے؛ کالونیل ازم اور یورپ کی مرکزیت کا نظریہ

لیکن یہ دلیل تب کمزور پڑنے لگتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان میں ہمیشہ سےمتحد ہونے کی صلاحیت موجود رہی ہے۔ متحدہ ہندوستان کا تصور اِتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ قدیم ترین ہندو صحائف ”ویداس“ ہیں جن میں بھارتورشہ کے نام سے ایک ایسے علاقے کاذکر ہے جو کہ ہمالیائی پہاڑی سلسلے اور سمندر کے درمیان واقع ہے۔

اِس خطے کی جُغرافیائی وحدت کاتصورنہ صرف ایک قدیم اور مقدس ہندو نظریہ ہے بلکہ ازمنہ وسطہ میں بھی اسے ایک اکائی کے طور پر ہی دیکھا جاتا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی تحقیق کے مطابق یہ خطہ ہمیشہ سے اپنی ایک مخصوص تہذیبی شناخت رکھتا ہے اِس لئے ہندوستانی مسلمان، چاہے وہ شمال مغربی علاقے کےپٹھان ہوں یا جنوب میں رہنے والے تامل، اہلِ عرب کے نزدیک ہِندی ہی کہلاتے تھے۔

تاریخ میں بہت سے حکمرانوں نے ہندوستان کے مختلف علاقوں کو باہم متحد کیا جن میں موریا (عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے تین سو سال پہلے ) اور مغل سلطنت (سولہویں سے سترہویں صدی) شامل ہیں جنہوں نے بر صغیر کے کم و بیش 90 فیصد علاقے پر حکمرانی کی۔ اگر برطانوی سامراج یہ ”فرض اور خدمت“ نہ ادا کرتا توبھی غالب امکان تھا کہ اپنے پیشرو حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کوئی اور ہندوستانی حکمران یہ کام کرلیتا۔

یہ بھی پڑھیں؛ استعماری اجارہ داری بذریعہ تعلیم و زبان

ہندوستان کے اتحاد اور پارلیمانی جمہوریت کا سہرا برطانیہ کے سر باندھتے وقت اگر حقائق کی بنیاد پر تجزیہ کیا جائے تو ہم اِس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ برطانوی پالیسیاں ہی تھیں جِن کے نتیجے میں ہندوستان میں انگریز کی آمد سے پہلے قائم کئے گئے سیاسی ادارے تباہ ہوئے، نسلی اور فرقہ وارانہ جھگڑوں میں اضافہ ہوااور منظّم طریقے سے سیاسی امتیازاور نفرتوں کو پیدا کیا گیا تاکہ برطانوی تسلّط کو قائم رکھا جاسکے۔

برطانوی سامراج نے 1757ء کے بعد اپنی شاطرانوں چالوں کے زریعے ہندوستانی شہزادوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دی اور ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کے اصول پر بتدریج اپنے غلبے کو آگے بڑھایا۔1857ء کی جنگِ آزادی میں ہندو اور مسلمان سپاہیوں کے مغل بادشاہ کی حمایت میں مشترکہ جدوجہد کرنے کےعمل نے برطانوی ایوانوںمیں خطرے کی گھنٹی بجا دی۔

اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستان پر تاج برطانیہ کی بلا شرکتِ غیرے حکومت برقرار رکھنے کاایک ہی مؤثر طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا جائے۔ 1859ء میں بمبئی کےبرطانوی گورنر لارڈ ایلفن سٹون نے سلطنت برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں پیغام بھیجا؛

رومن شہنشائیت کا طریقہ حکمرانی ‘تقسیم کرو اورحکومت کرو’ کے اصول پر مبنی تھا اور اِسی اصول کو ہمیں بھی اپنالینا چاہئے۔

یہ بھی پڑھیں؛ بیانیہ ذہن کو کیسے کنٹرول کرتا ہے؟

چونکہ برطانوی حکمران ایک ناہموار معاشرے سے تعلق رکھتے تھے جس میں طبقاتی تقسیم بہت گہری تھی، اس لئے فِطری طور پر اُن کی نظر ہندوستان میں بھی انہیں تضادات پر پڑی۔ برطانوی حکمرانوں اور اہلِ علم کی طرف سے ہندوستانی باشندوں کے بیچ موجود لسانی، مذہبی، فرقہ وارانہ اور ذات پات کے اختلافات کو سمجھنے کے لئے اَن تھک کوششیں کی گئیں اور پھر اِس سمجھ بوجھ کو ہندوستانی معاشرے میں اختلافات، تقسیم ، نفرتوں اور لڑائی جھگڑوں کو مزید بڑھاوا دینے کے لئے استعمال کیا گیا۔

نوآبادیاتی حکمرانوں کی طرف سے متواترایسی رپورٹس لکھی گئیں اور مردم شماریاں کروائی گئیں جِن کے زریعے ہندوستانیوں کے درمیان زبان، مذہب، فرقے، ذات پات، برادری، لہجوں اور جلد کی رنگت میں فرق کی بنیاد پر شناختوں کو پروان چڑھایا گیا۔

ان مصنوعی اور ثانوی اِختلافات کی بنیاد پر انسانوں نے لاشعوری طور پر اپنے آپ کو نت نئی گروہیتوں میں تقسیم کرنا شروع کردیا حالانکہ اِس سے پہلے وہ آپس میں مل جل کررہتے تھے اور دوسرے گروہوں کو بھی اپنے جیسا ہی سمجھا کرتے تھے۔

خالِصتاً مذہبی بنیادوں پر ہندو مسلم تنازعات کا آغاز بھی برطانوی نوآبادیاتی نظا م کےتحت ہوا۔ برطانوی اہل ِاقتدار نے مختلف نوعیت کے سماجی اور معاشی اختلافات اور تنازعات کو بھی مذہبی نقطہءنگاہ سے دیکھا کیونکہ نوآبادیاتی مستشرقین (مشرقی علوم کا مطالعہ کرنیوالےمتعصب مغربی علماء) کے نزدیک ہندوستانی سماج میں ہر قسم کی تقسیم اور اختلافات کی واحد بنیاد مذہب تھا۔ (حقیقت میں زيادہ تر اختلافات کی نوعیت معاشی اور معاشرتی ہوتی ہے، انہیں مذہبی رنگ دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے)۔ مترجم

پڑھیں؛ سائنسی بیانیہ اور مابعد نوآبادیاتی یونیورسٹی پر پنجاب یونیورسٹی میں مکالمہ

یہ مفروضہ قابلِ پڑتال ہے کہ انیسویں صدی سے پہلے ہندوستان میں ہندو اورمسلمان مذہبی حوالوں سے اپنی الگ الگ شناخت رکھتے تھے (جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہندوستان میں بسنے والے تمام انسانوں کوعام طور پر ہندی یا ہندو کہاجاتا تھا)۔

ہندوؤں اور مسلمانوں میں مذہبی منافرت کی تشکیل اور اُس کی حوصلہ افزائی برطانوی نوآبادیاتی نظام کی طے کردہ حکمت عملی کی اہم ترین کامیابی تھی ۔ ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کے منصوبے کی حتمی اور اعلیٰ ترین شکل 1947ء میں برطانوی اقتدار کے خاتمے کے موقع پر سامنے آئی ۔

تقسیمِ ہند کے نتیجے میں دس لاکھ انسان قتل ہوئے (ہزاروں خواتین کی عصمت دری اور زخمی ہونے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے)، تقریباً ڈیڑھ کروڑ انسانوں کو مجبوراًنقل مقانی کرنی پڑی(انسانی تاریخ میں اس سے بڑی نقل مکانی کی مثال موجود نہیں)،اربوں روپے کی تعمیرات تباہ کردی گئیں اور فرقہ وارانہ نفرتوں کے شعلےپہلے سے برباد شدہ خطے کے دونوں اَطراف کو جُھلسانے لگے (نفرتوں کا یہ سلسلہ تقسیم کے ستر برس بعد بھی جاری و ساری ہے)۔

ہندوستان میں برطانوی اقتدار کی ناکامی، بے حسی اور غیرذمہ داری کی اِس سے بڑی مثال پیش کرنا ممکن نہیں ہے جِس کا مظاہرہ اُس نےاپنی اندوہناک رخصتی کےوقت مختلف واقعات کے دوران کیا۔ (یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ آزادی سے پہلے تک ہندوستان میں امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ داری برطانوی حکومت پر عائد ہوتی تھی ۔

تقسیم کے وقت ہونے والی قتل و غارت کے مختلف واقعات میں برطانوی سرکار ی کی لاتعلقی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے۔ برطانوی حکومت کو جب تک ہندوستان میں قیام کرنا تھا تب تک اُس نے خِطے پر اپنی گرفت کو سختی سے قائم رکھا اور ہر طرح کی محالفت کو سختی سے کچل دیا۔جلیانوالہ باغ کا واقعہ اِس کی واضع مثال ہے۔

لیکن جیسے ہی برطانیہ کو یہ احساس ہوا کہ اب وہ اِس خطے پر مزید اپنا تسلط برقرار نہيں رکھ سکتا، اس نےامن و امان برقرار رکھنے کی انتظامی ذمہ داریوں سے پہلو تہی برتنی شروع کردی۔فرقہ وارانہ فسادات کے موقع پر حکومتی خاموشی کا بالواسطہ مطلب یہی نکلتا ہے کہ جو کچھ ہورہا تھا وہ برطانوی حکومت کی سرپرستی یا کم از کم آمادگی کے تحت ہی ہورہا تھا ورنہ فسادات کو روکنے اور مجرموں کو سزادینے کی کوشش ضرور کی جاتی۔

اِس ضمن میں موجودہ ہندوستان اور پاکستان کے تاریخ نویس اور دانشور آپس میں ایک دوسرے کو تو خوب برا بھلا کہتے ہیں لیکن اِن تمام فسادات میں برطانوی کردار کو کمال مہارت سے فراموش کرجاتے ہیں۔ مترجم ) جاری ہے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *