سائنسی بیانیہ اور مابعد نوآبادیاتی یونیورسٹی پر پنجاب یونیورسٹی میں مکالمہ

  • October 22, 2016 5:27 pm PST
taleemizavia single page

رپورٹ: قراۃالعین فاطمہ

اس خطے میں یونیورسٹیوں کی بنیاد نوآبادیاتی دور میں رکھی گئی تھی تو کیا اس دور میں کوئی سائنسی بیانیہ تھا؟ یا کیا ہماری یونیورسٹیوں میں سائنسی بیانیہ موجود ہے؟

ان دو بنیادی سوالوں پریونیورسٹیوں کے پروفیسرز کاسائنسی بیانیہ اور مابعد نوآبادیاتی یونیورسٹی کے موضوع پر پہلی بار مکالمہ ہوا، جامعہ پنجاب نیو کیمپس کے شعبہ مائیکروبائیولوجی اینڈ مالیکیولر جینیٹکس میں ہونے والے اس مکالمہ میں سیاسی و معاشی ڈھانچہ کو استوار کرنے میں تعلیم کے کلیدی کردار کو زیر بحث لایا گیا۔ اپنی نوعیت کے اس منفرد مکالمہ میں یہ نقطء اُٹھایا گیا کیا ہماری جامعات میں سائنس کو پڑھاتے ہوئے کوئی بیانیہ بھی بطور محرک کام کرتا ہے؟

اس مکالمہ کے پہلے مرحلے میں سائنس کے پروفیسرز سمیت سماجی علوم کے اساتذہ کے سامنے یہ سوالات رکھے گئے؛

کیا ہماری یونیورسٹیوں میں کوئی سائنسی بیانیہ موجود ہے؟
کیا ہماری یونیورسٹی میں ایک سے زیادہ بیانئے موجود ہیں؟
کیا کوئی آفاقی، غیر سیاسی، سائنسی بیانیہ موجود ہے؟

اس مکالمہ میں ڈاکٹر ضیغم عباس نے سائنس کے حوالے سے انفرادی و اجتماعی اورسائنس کے سماجی بیانیے میں تفریق کی۔ ضیغم عباس کہتے ہیں کہ سائنس کا طاقتور بیانیہ ایک طالبعلم کو جذبہ سے کام کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور سماجی سطح پر یہ بیانیہ قوم اور قومی اداروں کو دلجمعی کے ساتھ سائنسی تحقیق سے وابستہ رکھتا ہے ۔

ضیغم عباس کے مطابق بیانیہ بنیادی طور پر تعلیم، سیاست، معاشیات اور سماجیات سے متعلقہ امور پر بحث کرتا ہے اور سائنس سے متعلقہ بیانیہ ان تمام پہلوؤں پر انحصار کرتا ہے۔اُنہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کی جامعات میں ایسا کوئی طاقتور بیانیہ موجود نہیں جو پاکستانی سائنسدانوں میں قومی جذبہ کے تحت سائنسی کام کرنے میں بطور محرک کام کرے اور آج پاکستان کو سائنس سے متعلق اپنے بیانیے کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔

ضیغم عباس پاکستان میں کوئی سائنسی بیانیہ نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری سائنس کے شعبے میں پسماندگی کی وجوہات میں اس پہلو کی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور قومی معیشت کی ترقی کے لیے ہمیں سائنس سے متعلق قومی بیانیہ سامنے لانا ہوگا وگرنہ مستقبل میں بھی ہمارا تشخص اقوام عالم کے سامنے صرف صارف کی حیثیت تک ہی محدود رہے گا۔

ضیغم عباس نے برطانیہ کی ناٹنگھم یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اگرچہ عالمی شہرت یافتہ جرائد میں اُن کے دس تحقیقی مقالے بھی شائع ہوچکے ہیں لیکن وہ پاکستان کی سائنسی ترقی کے لیے فکر مند ہیں اس لیے وہ پنجاب یونیورسٹی میں ہی بطور اُستاد کام کر رہے ہیں۔

اس مکالمہ میں دلچسپ پہلو یہ تھا کہ اُردو کے اُستاد اور نامور محقق ڈاکٹر ناصر عباس نیئربھی سائنسی بیانیہ کی اہمیت پر گفتگو کرنے کے لیے شریک تھے۔ ناصر عباس کہتے ہیں کہ سائنس دانوں کے فلسفہ، ادب اور سماجی علوم کے تصورات سے واقفیت سائنسی بیانیہ کی تخلیق کے لیے ناگزیر ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار ایسا ہوا کہ سائنس پر بحث کرنے کے لیے سائنسدان اور سماجی علوم کے اساتذہ باہمی گفت و شنید ہیں۔

ناصر عباس نے جرمنی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے اور وہ پنجاب یونیورسٹی کے اورئینٹل کالج میں بطور اُستاد تعینات ہیں۔

اس مکالمہ میں امتیاز شفیق نے کہا کہ قومی سائنسی بیانیہ کا ہونا ناگزیر ہے، حکومت اس بیانیہ کی تشکیل میں ناکام ہوچکی ہے لہذا یونیورسٹیوں سے سائنسی بیانیہ کی تشکیل پر مباحثوں کا آغاز ہونا چاہیے تاکہ قومی سطح پر اس کے خدوخال واضح ہوسکیں۔

امتیاز شفیق نے اس بیانیہ کی عدم موجودگی کے نتائج پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے فنڈز پر بیرون ملک پی ایچ ڈی کرنے گئے تھے جس پر ایک کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ ایچ ای سی نے اُنہیں پی ایچ ڈی کے لیے کسی واضح اہداف کے بغیر ہی بیرون ملک بھیج دیا۔

پاکستانی ریاست کا سائنسی بیانیہ نہ ہونے کا نقصان یہ ہوا کہ وہ جس یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے پہنچے وہ وہاں کے پروفیسرز کی مرضی کی سائنسی تحقیق کر کے واپس آگئے اور اُس تحقیق کا پاکستان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اُس ملک نے ہی فائدہ حاصل کیا۔

امتیاز شفیق انسٹی ٹیوٹ آف بائیو کیمسٹری اینڈ بائیو ٹیکنالوجی میں اُستاد ہیں اور وہ پنجاب یونیورسٹی کے اُن چند پروفیسرز میں شامل ہیں جن کے تحقیقی مقالے امپکٹ فیکٹر جرنل میں شائع ہوئے ہیں۔

یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ اس مکالمہ کا انعقاد اینڈیجنائزنگ نالج فورم کے تحت ہوا۔

آئی۔ کے۔ ایف سے وابستہ شاہ زیب خان کہتے ہیں کہ اس نالج فورم کا مقصدسائنس، آرٹس اور سماجی علوم کے شعبہ جات کے درمیان تعلق کو مضبوط کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں پر ہونے والے مکالمہ میں ان شعبہ جات کے اساتذ ہ اور طلباء نے شرکت کی ہے۔

اس مکالمہ کے دوسرے حصے میں یہ سوالات رکھے گئے؛

کیا ہم کوئی دیسی سائنسی بیانیہ تخلیق کر سکتے ہیں؟
کس طرح بیانیہ یا کہانی سائنسی ایگیجمنٹ میں مدد کر سکتی ہے؟اس طرح کے بیانئے کو کون تخلیق کر سکتا ہے؟
کس طرح ایک ممکن سائنسی بیانیہ پاکستان میں عدل، امن اور معاشی خوشحالی پیدا کر سکتا ہے؟

جب ان سوالات پر بحث کی باری آئی تو فلسفے کے اُستاد رشید ارشد نے سائنسی بیانیہ کی موجودگی کی طرف اشارہ کیااُنہوں نے عالمی سائنسی بیانیہ کے وجود کو سرمایہ داریت اور انڈسٹریل ازم سے جوڑکر اس پر زور دیا کہ اس وقت بین الاقوامی سائنسی بیانیہ اپنا مضبوط وجود رکھتا ہے۔

وہ کہتے ہیں اگر اس بیانیہ کا اطلاق پاکستانی معاشرے میں نہیں ہورہا تو اس کا تعلق اطلاقی نوعیت کا ہے اور اصل میں سوچنے کا پہلو اس بیانیہ کے مد مقابل بلکہ متبادل بیانیہ کی تشکیل کرنا ہے۔ سائنس کے جوہری مفروضوں پر بھی رشید ارشد نے بحث کی اور اس موضوع پر الگ سے ایک مکالمہ کرانے کا مطالبہ کیا۔

اس مکالمہ میں نیشنل اکیڈمی آف ینگ سائنٹیسٹ کے صدر آفتاب احمد نے پاکستان میں سائنسی پسماندگی کی طرف اشارہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ پولیٹیکل ول نہ ہونے کی وجہ سے سائنسدانوں کو عملی شعبوں میں بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔

مکالمہ میں ملٹی نیشنل کارپوریشنز پر بھی بحث ہوئی کہ پاکستان میں عالمی کمپنیاں اربوں روپے کا سالانہ منافع حاصل کرتی ہیں مگر ان کمپنیوں کی ریسرچ کے فروغ میں تعاون نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان سمیت تیسری دُنیا کے ممالک میں سائنس کے عدم فروغ اور سائنسی بیانیہ کے ناپید ہونے کے پیچھے عالمی سرمایہ داریت اور اس کے وفا دار حکمران طبقات کا بھی کردار ہے۔ اگر ان امور کو نظر انداز کیا گیا تو سائنسی بیانیہ کی پاکستان میں تشکیل محض خام خیالی ہوگی۔

مکالمہ میں یہ بھی اتفاق ہوا کہ جامعات میں موجود بڑے اذہان کو سائنسی بیانیہ کی تشکیل کے لیے بحث میں حصہ لینا ہوگا اس بیانیہ کی تشکیل میں سماج کے ہر شعبے کے ماہرین کی آراء شامل ہوں گی جس میں زمینی حقائق کو نظر نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان میں سائنسی بیانیہ کے خدوخال واضح کرنے میں اساتذہ کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔

یہاں مکالمہ کے دوران ماس کیمونیکیشن کے فارغ التحصیل اور شعبہ ثقافت سے وابستہ وقار احمد نے بتایا کہ پنجاب میں حکومت نے بیانیہ تشکیل دینے سے متعلق ایک کنسورشیم بنانے کا سوچا اور اس کے لیے محکمہ ثقافت نے صوبے کی سترہ یونیورسٹیوں کو خط لکھے لیکن یہ منصوبہ کئی سال گزر جانے کے بعد بھی التواء کا شکار ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *