الطاف حسین حالی اور ایچی سن کالج

  • July 15, 2017 11:24 pm PST
taleemizavia single page

ڈاکٹر زاہد مُنیر عامر

انبالہ میں 1864ء میں گورنمنٹ وارڈ سکول انبالہ کے نام سے علاقے کے امراء اور نوابوں کے بچوں کیلئے ایک سکول قائم تھا جس میں دس سے بارہ برس تک کی عمر کے بارہ طالبعلم زیر تعلیم تھے۔ سکول کے قیام کو جب دس برس گزر گئے تو اس کی توسیع کی تجویز ہوئی۔ جس کا ذکر میجر ہالرائیڈ نے اپنی کتاب پاپولر ایجوکیشن کی رپورٹ میں کیا ہے۔

اس ادارے کے مقاصد پر بھی روشنی ڈالی ہے اور فنڈز کے مسائل کا بھی تذکرہ کیا گیا۔ 1882ء میں سر چارلس امفرسٹن ایچی سن نے متحدہ برطانوی پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر کا منصب سنبھالا تو انبالہ وارڈز سکول کو کالج بنانے کی تجویز ان کے سامنے پیش ہوئی۔

مسٹر ایچی سن نے انبالہ جیسے کم اہم علاقے میں کالج بنانے پر لاہور میں ایک چیفس کالج کے قیام کو ترجیح دی جس پر لاہور میں پنجاب چیفس کالج کے قیام کا فیصلہ ہوا۔

اس کالج کے امور طے کرنے سے متعلق پہلے میٹنگ جنوری 1886ء میں ہوئی جس میں یہ کالج لاہور کے مال روڈ پر گورنمنٹ ہاؤس موجودہ گورنر ہاؤس اور میاں میر کے درمیان واقع 170 ایکٹر اراضی پر تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس پر تین نومبر 1886ء کو کالج کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔

لیکن کالج کی تعمیر سے قبل ہی انبالہ وارڈ سکول کے بارہ طالبعلموں کو لاہور منتقل کر دیا گیا اور ان کے لیے ڈیوس روڈ پر تین بنگلے کرائے پر حاصل کیے گئے۔ اس نئے کالج کے امور سے متعلق گورنر پنجاب کی سربراہی میں قائم مینجنگ کمیٹی نے اپنی اکتوبر 1886ء کی میٹنگ میں کالج کے تعلیمی نصابات کی منظوری دی۔ ساتھ ہی کالج کے پہلے تعلیمی سٹاف کا تقرر کیا گیا اور پرنسپل، تین اسسٹنٹ ماسٹرز، دو اوریئنٹل ٹیچرز اور سکول اوقات کے بعد ہاسٹل میں طالبعلموں کے امور میں معاونت کے لیے دو مصاحب رکھے گئے۔

الطاف حسین حالی ایچی سن کالج لاہور کے اس اولین سٹاف میں شامل تھے جب کالج کے قیام کی تجویز و تحریک ہوئی تو حالی اس وقت دہلی میں تھے اور اینگلو عربک سکول کی مدرسی میں مطمئن تھے پھر وہ لاہور کیسے آئے اور ایچی سن کالج میں کیسے ملازم ہوگئے جبکہ اس کے مقاصد حالی کی افتاد طبع اور مزاج سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے تھے۔

دہلی میں مقیم حالی کے اب لاہور آنے کی صورت یہ ہوئی کہ حالی کے لاہور کے زمانہ قیام میں میجر فلر سر رشتہ تعلیم کے ڈائریکٹر تھے اور حالی پنجاب بُک ڈپو میں ہونے کے باعث ان کے ماتحت تھے۔ انجمن پنجاب کے مشاعروں کے توسط سے ایک اور با اثر شخصیت میجر ہالرائیڈ بھی حالی کی صلاحیتوں سے واقف ہو چکے تھے اور تو اور مسٹر ایچی سن بھی حالی سے نا واقف نہیں رہے ہوں گے۔

maulana-hali1

اس لیے وہ کم ازکم ایک بار اس سے پہلے بھی حالی سے متعارف ہوچکے تھے وہ یوں کہ بحثیت لیفٹیننٹ گورنر سر چارلس ایچی سن میں اینگلو عریبک سکول کے دورے پر گئے تھے تو ان کی یہاں آمد پر حالی نے ایک نظم کہی تھی۔

حضور پُر نور سر ایچی سن
ہوئے ہیں یاں جب سے سایہ افگن

حالی کی نیک نامی اور انگریز حکام میں ان کا یہ تعارف ان کے لیے روایتی روشنی طبع بن گئی اور یوں اُنہیں کالج کے اولین سٹاف میں شامل کرتے ہوئے ڈائریکٹر سر رشتہ تعلیم پنجاب نے ایک حکم کے ذریعے سے دہلی سے لاہور بلا لیا۔

یہ بھی پڑھیں؛ ایچی سن کالج اور پاکستانی برہمن طبقہ

چونکہ ایچی سن کالج کا تخیل، اس وقت کے گورنر پنجاب ایچی سن کے ذہن کی پیداوار تھا اور وہ اس ادارے کے قیام اور ترقی میں بہت دلچسپی رکھتے تھے اور برطانوی حکومت میں لیفٹیننٹ گورنر صوبے کا با اختیار حاکم ہوتا تھا اس لیے صوبے کا محکمہ تعلیم بھی ان کی خواہشات کے مطابق کام کرتا تھا۔ حالی چونکہ محکمہ تعلیم پنجاب کے ملازم تھے اس لیے کرنل ہالرائیڈ نے جو حالی کو جانتے بھی تھے۔ حالی کو ٹرانسفر کے طریقے سے دہلی سے لاہور منتقل کیا۔

حالی ایچی سن کالج میں سائل بن کر نہیں بلکہ مُراد بن کر آئے اور وہ یہاں آنے کے تمنائی نہیں تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اپنے سابقہ تجربہ، قیام لاہور کی روشنی میں وہ لاہور کے بارے میں خوش رائے نہیں تھے۔

چنانچہ زبردستی تبادلہ کے بعد اُنہیں ایچی سن کالج میں صاحبوں کے ساتھ مصاحب بن کر رہنا پڑا۔ اکتوبر 1886ء سے دسمبر 1887ء تک تو غالبا حالی یہاں اس قدر مصروف رہے کہ اُنہیں خط لکھنے کا بھی موقع نہ ملا۔ ایچی سن کالج سے لکھا ہوا ان کا پہلا دستیاب خط حافظ محمد یعقوب مجددی کے نام ہے جو 17 جنوری 1887ء کو لکھا گیا۔ اپنے فرزند خواجہ سجاد حسین کے نام حالی کا پہلا خط چھ مارچ 1887ء کو ملتا ہے اس کے بعد اُنہوں نے اپنے بیٹے کو ایچی سن کالج سے آٹھ خطوط لکھے۔

مولانا حالی 1886ء میں پچاس کے پیٹے میں تھے، عمر بھر کی محنت مشقت کے بعد اب اُنہیں کسی ایسے مشغلے کی ضرورت تھی جس میں وہ بہ سہولت شب و روز بسر کر سکیں۔ ایچی سن کالج کی حیثیت ایک پبلک سکول کی تھی جس میں صبح سے شام تک مصروفیت رہتی ہے۔

مولانا حالی کو خود ان کے بیان کے مطابق اتالیق بنایا گیا تھا۔ ٹیچر کی ذمہ داری تو سکول کے اوقات کے بعد ختم ہوجاتی لیکن ٹیوٹر کی ذمہ داریوں کا سلسلہ شب و روز کو محیط رہتا، ٹیوٹر کے لیے لازم تھا کہ وہ اپنے ساتھ متعلق کیے گئے طالبعلم کے ساتھ رہے، اس کی ضرورت کا خیال رکھے، وہ جہاں جائے اس کے ساتھ جائے۔ طالبعلم نوابوں، مہاراجوں کے بچے تھے اس لیے ٹیوٹر کو ان کی ناز برداری کی بھی کرنا پڑتی ہوگی۔ ظاہر ہے حالی جیسے شخص کیلئے یہ سب کُچھ بہت دُشوار ہوگا۔

ان دنوں ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشنز پنجاب یعنی ڈی پی آئی کرنل ہالرائیڈ تھے جن کی ایماء پر حالی دہلی سے لاہور آئے تھے۔ اکتوبر 1886ء کی جس میٹنگ میں کالج کے نصابات کی منظوری دی گئی اور کالج کے اولین سٹاف کا تقرر کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں سر چارلس ایچی سن نے یہ اہم اعلان کیا تھا کہ آئندہ سکول کو ایک گورنر کے ماتحت چلایا جائے گا اور یہ گورنر کوئی ملٹری آفیسر ہوگا۔

چنانچہ اس منصب پر اولین گورنر کی حیثیت سے لیفٹیننٹ جنرل ایس بلیک، سی ایس ای کا تقرر کیا گیا۔

ایچی سن کالج کے اولین ٹیچنگ سٹاف میں سات اساتذہ شامل تھے جس میں صرف دو مسلمان اساتذہ تھے۔ محمود خان اور رحیم بخش۔ جب کہ باقی پانچ ماسٹرز میں ڈبلیو اے رابنسن، امولک رام، لالہ شیو دیال، بابو دھیرت رام اور سوہن لال شامل تھے۔

یہ صورت کالج کی شہرت کے لیے نیک فال نہیں سمجھی جارہی تھی اور اس پر اخبارات وغیرہ میں آوازیں بھی بُلند ہوئی تھیں۔ حالی اس مسئلے میں کالج انتظامیہ کی کیا مدد کر سکتے تھے وہ تو خود یہاں سے واپس جانا چاہتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ وہ یہ کر سکتے تھے کہ اپنی جگہ کسی اور مسلمان کو مصاحب بنوا جائیں۔

یہ بھی پڑھیں؛ ایچی سن کالج کا نیا بورڈ آف گورنر تشکیل

واضح رہے کہ مولانا الطاف حسین حالی کا نام ایچی سن کالج کے ریکارڈ اور کسی فہرست میں نہیں ہے۔ حالی ماسٹر یا ٹیچر نہیں تھے بلکہ وہ مصاحب یعنی اتالیق تھے جن کا کوئی ریکارڈ نہیں البتہ جے سی گاڈلے نے اولین سٹاف میں دو مصاحبوں کی تقرری کا تذکرہ کیا ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا حالی کو کالج انتظامیہ نے کسی دوسرے مسلمان اتالیق کی آمد سے پہلے چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا
جب حالی کی اسامی پر کسی متبادل مسلمان اتالیق کا انتظام ہوگیا تو حالی کو ایچی سن کالج سے واپس عریبک سکول دہلی جانے کی اجازت ملی۔

۔ حالی اکتوبر 1886ء میں لاہور ایچی سن کالج بلائے گئے تھے اور ڈیوس روڈ کی عمارت میں نومبر 1886ء سے سکول کی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ اپریل 1889ء تک ڈیوس روڈ کے بنگلے بغیر کسی دُشواری کے زیر استعمال رہے۔

ایچی سن کالج کی موجودہ عمارت 1890ء میں مکمل ہوئی حالی چونکہ یکم جون 1887ء کو واپس دہلی چلے گئے تھے اس لیے اُن کی ملازمت کا عرصہ ڈیوس روڈ کے بنگلوں میں ہی گزرا۔ ہاں یہ ضرور ممکن ہے کہ حالی ڈیوس روڈ سے گھومتے پھرتے ہوئے ایچی سن کالج کی زیر تعمر عمارات دیکھنے کو آتے ہوں اور یہاں کی مٹی نے ان کے قدموں کی چاپ سُن رکھی ہو۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *