ایچی سن کالج اور پاکستانی برہمن طبقہ

  • March 11, 2017 12:15 am PST
taleemizavia single page

محمد بشارت

برطانیہ نے برعظیم پر اپنی فتوحات کا خاتمہ 1849ءمیں پنجاب پر قبضہ کرنے کے بعد مکمل کیا اور شاہی قلعہ لاہور پر برطانیہ نے اپنا جھنڈا لہرایا۔ اس پورے خطے کے انسانوں کو سیاسی طور پر غلام بنانے کی مہم کایہ آخری معرکہ تھا۔

لاہور جو پہلے ہی تہذیب کا مرکز تھا اور مغلیہ سلطنت کا مضبوط سیاسی قلعہ، اس شہر میں برطانیہ نے نوآبادیاتی مقاصد کے پیش نظر یہاں پر تعلیمی نظام کی بنیاد رکھنی شروع کی۔ 1864ءمیں گورنمنٹ کالج لاہور کے بعد1886ءمیں دو سو ایکٹر رقبے پر ایچی سن کالج کی بنیاد رکھی گئی۔ دو جنوری 1886ء کو اس لاہور میں چیفس کالج کی بنیاد رکھی گئی تھی جس کا نام 13 نومبر 1886ء کو تبدیل کر کے ایچی سن کالج رکھ دیا گیا۔

اس کالج کی عمارت کا نقشہ بھائی رام سنگھ نے بنایا جبکہ اس کی تعمیر میں سر گنگا رام نے بطور چیف انجینئر کام کیا، گنگا رام نے لاہور میں متعدد عمارات کی تعمیر میں بطور چیف انجینئر کام کیا اس کالج کا نام اُس وقت کے لیفٹیننٹ گورنر پنجاب چارلیس ایچی سن سے منسوب کیا گیا۔

اس بورڈنگ کالج میں ابتدائی طور پر پنجاب بھر کے جاگیردار، وڈیرے اور پھر برطانیہ کے لیے بطور سیاسی ایجنڈ کام کرنے والے خاندانوں کے بچوں کے لیے تعلیم کا بندوبست ہوا۔ ایچی سن کالج میں پہلے دن سے ہی بھاری فیسوں کی وجہ سے یہاں پر صرف انہی خاندانوں کے بچوں کی ذہنی آبیاری کی جانے لگی جس کا مقصد مستقبل کے لیے برطانیہ کو اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطروفاداروں کی نئی پود تیار کرنا تھی۔

اس کالج کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں پر نافذ ہونے والے تعلیمی نظام اور نصاب تعلیم کو نوآبادیاتی سانچے میں ڈھالا گیا اس کے بعد یہ کالج پھلنے پھولنے لگا۔ برطانیہ کے وفادار پنجاب کے خاندان ہی نہیں بلکہ سندھ کے جاگیرداروں کے بچوں کو بھی اسی کالج میں داخلے دیے گئے۔

جاگیردارخاندانوں کا یہ وہ ٹولہ تھا جو 1857ءکی جنگ آزادی میں قومی غداری کا مظاہرہ کیا اور انگریزوں کی وفاداری کے مرتکب ہوکر برطانیہ کی فتوحات کے جھنڈے پنجاب میں بھی بلند کرائے۔ ایچی سن کالج میں اس نئی وفادارنسل کی تیاری میں بیوروکریسی کا وہ طبقہ بھی تیار ہوا جو برطانوی سامراج کے ساتھ ملکر اس قوم پر غلامی مسلط کرنے میں انگریزوں کی وفاداری کرتا رہا۔

ایچی سن کالج کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ130سالوں سے یہاں پر صرف اشرافیہ کے بچوں کو پڑھایا جاتا ہے اور آزادی کے بعد بھی خود کو برہمن تصور کرنے والی پاکستانی اشرافیہ کے بچوں کو ہی ایچی سن کالج میں داخلہ ملتا ہے۔عوامی ٹیکسوں پر پلنے والے یہ انسان دشمن پاکستانی برہمن باقی ساری عوام کو شودر سمجھتے ہیں۔ 1947ءسے لیکر آج تک سیاسی اشرافیہ نے بیوروکریسی کے توسط سے ایچی سن کالج پر قبضہ کیا ہوا ہے۔

اس کالج میں اشرافیہ کے بچوں کی جدید نوآبادیاتی دور کے تقاضوں کے مطابق ذہنی آبیاری کی جارہی ہے اور پھر یہاں کے فارغ التحصیل طلباءبیرون ممالک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان پر سیاسی اور بیوروکریسی کی شکل میں مسلط کر دیے جاتے ہیں۔

سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی، اکبر بگٹی،چوہدری نثار علی خان،عمران خان،پرویز خٹک، فاروق لغاری،سردار ایاز صادق،غلام مصطفی کھر سمیت کتنے ایسے نام اوربھی موجود ہیں جو ملکی سیاست پر چار دہائیوں سے قابض ہیں ۔

پاکستانی عوام کی جدید غلامی کی اس نئی شکل میں ایچی سن کالج کا محض یہی کردار ہے۔نہ تو یہاں کا نصاب تعلیم کا ملک کے ساتھ کوئی سروکار ہے اور نہ ہی ایچی سن کالج سے وابستہ خاندانوں کو قومی ترقی سے غرض ہے۔ گورنر پنجاب جو سیاسی اشرافیہ کے وفاقی نمائندے ہیں ان کی ایچی سن کالج کے بورڈ آف گورنرز میں صرف یہی حیثیت ہے کہ کالج کو اشرافیہ کے مفادات کے تحت چلانا ہے۔

دو سال قبل جب اُس وقت کے پرنسپل ڈاکٹر آغا غضنفر نے جب اشرافیہ کے نکمے بچوں کے لیے ایچی سن کالج کے دروازے بند کیے تواُس وقت کے گورنر پنجاب بااثر سیاسی اشرافیہ کے زیر اثر ہوکر پرنسپل پر اس کالج کے دروازے بند کر دیے۔

ایچی سن کالج کے پرنسپل کو تو سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، بااثر کاروباری شخصیت میاں منشاء، سابق گورنر مخدوم احمد محمود اور دیگر خاندانوں کے لیے زرخرید غلام سمجھتے ہیں اور جب اس غلام نے بغاوت کی اور ان کے بچوں کو داخلے دینے سے انکار کیا تو اس جُرم کے پاداش میں انہیں عہدے سے ہی فارغ کر دیا گیا۔

یہ کالج بنیادی طور پر اشرافیہ کی تیاری کا مرکز ہے جس کالج میں ایک مہینے کے اخراجات فی طالبعلم ایک لاکھ سے زائد ہوں تو وہاں پر ذہانت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ملک کی دولت لوٹنے والوں کے نااہل بچوں کو سرمائے کی بنیاد پر ہی داخلہ مل سکتا ہے جو یہ اخراجات برداشت کرتے ہیں۔

ذرا غور کریں کہ ایچی سن کالج میں پڑھنے والے بچوں نے آج تک ملکی تاریخ میں کون سی توپ چلائی ہے جس پر انہیں فخر ہوسکے؟ پاکستان کی اشرافیہ تو سٹیٹس کو کی دن رات پوجا کرتی ہے ان کی خواہش ہے کہ ایچی سن کالج جیسے مزید کالج بنائے جائیں تاکہ وہ اپنی پوری کی پوری نسلوں کی یورپین طرز پر پرورش کریں کیونکہ ایچی سن کالج کی روایات اور کھیل اس بات کی گواہی ہیں کہ اس ادارے سے وابستہ خاندانوں کو ملکی ثقافت اور روایات سے نفرت ہے وگرنہ یہ اپنے بچوں کی پرورش اسی ملک میں کریں۔

معاملہ یہیں نہیں ختم ہوتا، ایچی سن کالج کا پھرملکی ترقی میں کیا کردار ہے؟ اس کالج کا نصاب تعلیم یورپین، امتحانی نظام یورپین اور رہن سہن یورپین تو پھر یہ پاکستان کے وفادار کیسے بن سکتے ہیں؟حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت میں موجود بڑے بڑے برجوں کے خاندانوں کی بقاءاسی میں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے ہی خاندانوں جیسے بچوں کے ساتھ پڑھائیں تاکہ اس ملک کو عالمی سامراجیت اور غلامی کے جدید دور کے مطابق ملکر یرغمال بنایا جاسکے۔

حکومت اپنی مکروہ نیت اور دوغلی پالیسی کے تحت ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام پر معیاری تعلیم کے دروازے بند کر کے اپنے استحصالی منصوبوں کو تقویت دینا چاہتی ہے اور ایچی سن کالج اس بچھائی ہوئی شطرنج کا اہم مہرہ ہے، باقی بھولی عوام، سیاستدانوں کے دلفریب نعروں کی زد سے اس وقت تک آزاد نہیں ہوسکتی جب تک ان میں حقیقی آزادی کا شعور پیدا نہیں ہوتا۔

پنجاب حکومت نے صوبے میں دانش سکولز کھول کر یہ واضع پیغام دے دیا ہے کہ غریبوں کے بچوں کے لیے ایچی سن کالج میں کوئی جگہ نہیں ہے وگرنہ ایچی سن کالج کو ہی غریبوں کے ذہین بچوں کے لیے کھولا جاتا۔ تعلیمی شعبے میں حکومت کی یہ منافقت واضع دلیل ہے کہ قوم کو ذہنی طور پر تقسیم رکھنے کے لیے انہیں مختلف تعلیمی نظاموں میں ہی پڑھایا جائے۔


basharat

محمد بشارت 25 سال سے تعلیم کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ وہ تعلیم کے قومی اور عالمی مسائل کے نبض شناس ہیں اور تعلیمی زاویہ کی ایڈیٹوریل ٹیم کا حصہ ہیں۔

    1. ویسے جس تعلیمی نصاب کا ذکر کیا گیا ہے جو ایچی سن کالج میں پڑھایا جارہا ہے وہ اس سے مختلف تو ہرگز نہیں ہے جو دوسرے پرائیویٹ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا جا رہا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *