کیا جامعات کی عالمی درجہ بندی فراڈ ہے؟

  • September 21, 2019 3:00 pm PST
taleemizavia single page

اکمل سومرو

یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز نوآبادیاتی عہد سے ہوتا ہے جب یورپ عروج کی طرف قدم رکھ رہا تھا تو ایشیاء و افریقہ غلامی کی نئی زنجیروں میں جکڑے جارہے تھے. نشاۃ ثانیہ میں یورپ کے Dark Ages کا خاتمہ ہو رہا تھا تو ہندستان میں نو آبادیاتی فلسفے کے تناظر میں ادارہ جات کی نئی تشکیل شروع ہو رہی تھی. یہ وہ دور ہے جب یورپ نے علوم کی بھی ادارہ جاتی شکل کی اور اپنی نو آبادیات میں معاشی ضروریات کے تحت تعلیمی ڈھانچوں کی بنیادیں‌ رکھی.

1750ء سے لے کر 1900ء تک کے اس ڈیڑھ صدی میں کیپٹل ازم اور ٹیکنالوجی نے دُنیا کا نقشہ ہی بدل دیا. سرمائے اور ٹیکنالوجی نے برق رفتاری سے دُنیا بھر میں اثرات پیدا کرنا شروع کیے جس سے کیپٹل ازم ایک نظام میں تبدیل ہوا اور ٹیکنالوجی نے صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھ دی.

صنعتی انقلاب کے آخری دور کا آغاز دوسری عالمی جنگ کے بعد ہوتا ہے جب علم بذات خود طاقت کی شکل اختیار کر لیتا ہے. علم کے ماخذ تعلیمی ادارے بنے، یورپ نے خود کو تہذیب و ثقافت کے مرکز کے طور پر اپنی نو آبادیات میں متعارف کرایا. انھی اداروں کے ذریعے سے کبیری یورپ کا نظریہ اپنی اپنی نو آبادیات میں نافذ کیا گیا. تعلیمی اداروں کو صنعتی انقلاب کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اور اس انقلاب پر سرمایہ دار طبقات نے اپنی اجارہ داری قائم کر لی.

صنعت کی ترقی کے اس پہلے دور میں یورپین ممالک نے نوآبادیاتی ممالک میں سائنسی ترقی کو روکا اور اپنے یہاں صنعتی انقلاب کو برپا رکھنے کے لیے نوآبادیات سے معاشی وسائل لوٹے. اس انقلاب کے دوران یورپ میں بننے والی جامعات کو صنعت کے ساتھ منسلک رکھا گیا اور جامعات میں سائنسی تجربات کے لیے صنعتوں کے ذریعے سے سرمایہ فراہم کیا جاتا. یوں‌ یورپ نے علوم پر بھی اجارہ داری حاصل کر لی اور یورپین ترتری کا تصور مزید مضبوط ہوگیا.

صنعتی انقلاب کے اس سرمائے کی بنیاد پر غیر ترقی یافتہ ممالک کے ذہین افراد کو اپنی جامعات میں داخلے دینے کا رواج شروع ہوا، حتیٰ کہ دُنیا بھر سے زرخیز اذہان کو یورپین جامعات میں جمع کیا جانے لگا جب دوسری عالمی جنگ کے بعد طاقت کا عالمی مرکز امریکا کے پاس چلا گیا تو علم کو اپنے سماج میں مرتکز کرنے کے لیے یورپ کا یہی اُصول امریکا نے بھی مستقل طور پر اپنا لیا.

صنعتی انقلاب جب مرکنٹائل ازم سے گزرتا ہوا ڈیجیٹل ایج میں داخل ہوا تو علوم کی تخلیق کی اجارہ داری کے بھی نئے تصورات جنم لینے لگے انھی تصورات میں سے ایک تصور جامعات کی رینکنگ یعنی درجہ بندی کا ہے. جامعات کی درجہ بندی کی ضرورت کیوں‌ پیش آئی اور اس درجہ بندی کے ذریعے سے ڈیجیٹل ایج میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کون سے مقاصد حاصل کر رہا ہے اس کا تحلیل و تجزیہ ضروری ہے.

ٹائمز ہائیر ایجوکیشن، کیو ایس اور اکیڈمک رینکنگ آف ورلڈ یونیورسٹیز نمایاں ادارے ہیں جو عالمی سطح پر جامعات کی درجہ بندی کرتے ہیں. برطانیہ کے تھنک ٹینک ہائیر ایجوکیشن پالیسی انسٹیٹیوٹ نے دو سال قبل ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں درجہ بندی کے طریقہ کار پر تحفظات کا اظہار کیا تھا بلکہ درجہ بندی کو مسترد بھی کیا. ان کے مطابق یہ درجہ بندی مخصوص جامعات کو نوازنے کی غرض سے ہوتی ہیں اور جن اعشاریوں کی بنیاد پر یہ درجہ بندی کی جاتی ہے وہ غیر تسلی بخش ہیں.

اس درجہ بندی پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اعشاریوں میں کوالٹی ایجوکیشن کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی پھر مذکورہ ادارے درجہ بندی کے لیے محض ویب سائیٹ پر دستیاب ڈیٹا پر ہی انحصار کرتے ہیں، ان اعداد و شمار کی تصدیق کے لیے کوئی میکانزم ہی موجود نہیں ہے. محض غیر ملکی طلباء کی تعداد، پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد، ریسرچ پیپرز کی تعداد کی بنیاد پر ایک یونیورسٹی میں کوالٹی ایجوکیشن کو کیسے پرکھا جاسکتا ہے؟

مغرب کی جامعات سے نکلنے والے تحقیقی جریدوں کا کنٹرول بھی خود ان کے پاس ہے اور ان جریدوں کی اشاعت کے لیے صنعتوں سے بھاری فنڈنگ بھی میسر ہوتی ہے، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ غیر یورپی ممالک کی جامعات میں ہونے والی تحقیق کو بروقت اپنے جرائد میں جگہ دینے کو ترجیح دیں گے؟

درجہ بندی میں جامعات کی ساکھ کا اعشاریہ بھی شامل ہوتا ہے. اب یہ ادارے جامعات کی ساکھ سے متعلق انھی صنعتوں سے جان کاری حاصل کرتے ہیں جو سائنسی تحقیق کے لیے مخصوص جامعات کو فنڈنگ فراہم کر رہی ہوتی ہیں. میڈیسن کا شعبہ ہو یا انجینئرنگ و ٹیکنالوجی کا شعبہ، نئی ایجادات کے لیے فنڈنگ کا اہم ترین ذریعہ بڑے بڑے کارپوریٹ ادارے سرمایہ فراہم کرتے ہیں اور پھر نئی ایجاد کا پیٹنٹ بھی خود ہی خرید لیتے ہیں.

درجہ بندی سے متعلق تصورات اب پختہ ہو چکے ہیں حتیٰ کہ درجہ بندی بذات خود کمرشلائزیشن ہے. یہ درجہ بندی ذہین طلباء، ماہرین تعلیم، سیاستدان، صنعت کاروں بلکہ حکومت کو اعلیٰ تعلیم کے اداروں سے متعلق رائے قائم کرنے کا ذریعہ بن چکی ہے. اسی درجہ بندی کی بنیاد پر جامعات اپنی داخلہ مہم چلاتے ہیں حتیٰ کہ درجہ بندی میں اولین فہرست میں شامل ہونے والی جامعات کی فیسیں بھی اس تناظر میں طے ہوتی ہیں، جس قدر درجہ بندی اچھی ہوگی اُسی قدر طلباء سے بھاری فیسیں وصول کی جائیں گی یعنی یہ درجہ بندی جدید کیپٹل ازم کی وہ شکل ہے جس میں طالب علم کا مالی استحصال کیا جاتا ہے.

درجہ بندی کے ان تصورات نے حکومتوں کو بھی مجبور بنا دیا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کو جامعات کی درجہ بندی تک ہی محدود رکھتے ہیں. اب سوال یہ ہے کہ کیا درجہ بندی کا مطلب کوالٹی ہے؟ کیا درجہ بندی کرنے والے ادارے جانبداری کا مظاہرہ نہیں کرسکتے؟ پھر کیا اعلیٰ تعلیم دینے والی مہنگی ترین جامعات کی کوئی پبلک سروس بھی ہے؟ یا صرف تعلیم کو کمرشل مفادات کے تابع رکھا گیا ہے؟

مثال کے طور پر پاکستان میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) میں ایک سمیسٹر کا خرچہ چار لاکھ روپے تک ہے جب کے اس کے مقابلے پر پنجاب یونیورسٹی میں ایک سمیسٹر کا خرچہ 35 ہزار روپے ہے، لمز میں آنے والا طالبعلم معاشی طور پر مضبوط خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور وہاں‌ پر اکثریت طلباء سماج کے برتر طبقات سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر ایسے میں ان دو اداروں کا کیسے موازنہ ہوگا؟ کیا اعلیٰ تعلیم معیاری ہونے کے لیے یہی اعشاریہ ہے کہ وہاں تعلیم مہنگی ہے؟ یا اس ادارے کی سماجی خدمات کو پیش نظر رکھنا ضروری نہیں ہے.

کیا دو ایسے اداروں کا موازنہ ممکن ہے کہ ایک ادارے میں زیر تعلیم طلباء کی تعداد پانچ ہزار اور اساتذہ کی تعداد تین سو ہو جب کہ دوسرے ادارے میں زیر تعلیم طلباء کی تعداد پچاس ہزار اور اساتذہ کی تیرہ سو ہو؟

اب اہم ترین سوال کی طرف آتے ہیں. یورپ، امریکا اور کینیڈا میں سائنسی ایجادات و ترقیات ہورہی ہیں. کیا یہ ایجادات جامعات کے اندر ہورہی ہیں یا پھر اُن ریسرچ سنٹرز میں کی جارہی ہیں جن کی فنڈنگ حکومتیں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں کر رہی ہیں. اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں نئی ایجادات کے پس منظر میں خرچ ہونے والے سرمائے سے متعلق معلومات حاصل کرنا ہوں گی. ترقی یافتہ ممالک میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی مد میں‌ اربوں ڈالرز خرچ کیے جاتے ہیں.

برطانیہ کی آکسفرڈ یونیورسٹی کا بجٹ 2237 ملین پائونڈز ہے اب اس کا موازنہ کیا پاکستان کی پنجاب یونیورسٹی سے کیا جاسکتا ہے جس کا بجٹ صرف 10 ارب روپے ہے؟ پنجاب یونیورسٹی کو ایک بھی ملٹی نیشنل کمپنی ریسرچ کے لیے فنڈنگ فراہم نہیں‌ کرتی جبکہ آکسفرڈ کو بے شمار کارپوریٹ ادارے فنڈز فراہم کرتے ہیں.

اسی طرح آکسفرڈ اور ہاورڈ کے درمیان موازنہ، کیمبرج اور سٹینفورڈ کے درمیان موازنہ کرنے سے پہلے اس بات کا اندازہ لگانا بھی ضروری ہے کہ ان اداروں کو فنڈنگ فراہم کرنے والے ادارے کون کون سے ہیں؟

صنعتی ممالک کی جامعات کے درمیان درجہ بندی کا مقابلہ کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے لیکن تیسری دُنیا کے ممالک کی جامعات کا ترقی یافتہ ممالک کی جامعات کے ساتھ موازنہ کرنا درست نہیں ہے.

مذکورہ رینکنگ یا درجہ بندی کے ذریعے سے تیسری دُنیا کے ممالک میں یورپ و امریکا یہ تاثر مستقل طور پر قائم رکھنا چاہتا ہے کہ علوم پر اجارہ داری انھی کی رہے گی اور اس تاثر کو لے کر ہمارا نوجوان ملک چھوڑ جانے کو ترجیح میں رکھتا ہے. اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نئے علوم کی تخلیق کا مرکزہ مغرب و امریکا ہے لیکن کیا ان ممالک کی سیاسی مداخلت تیسری دُنیا کو تعلیمی پسماندگی کی طرف دھکیلنے کی ذمہ دار نہیں ہے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *