اُردو ترجمہ نگاری اور تہذیبوں سے شناسائی
- March 3, 2019 10:01 am PST
عارف عزیز، بھوپال بھارت
ترجمہ، کہنے کو تو محض پانچ حرفی لفظ ہے، لیکن عملی طور پر یہ فن جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ پھر بھی ماضیِ قریب تک ترجمے کو دوم درجےکا کام مانا جاتا تھا، یہاں تک کہ اسے تخلیقی وادبی کام قرار دینے میں بھی دانش وروں کو پس وپیش تھا۔
لیکن کچھ عرصے میں ترجمہ کےتئیں تعصب کی یہ فضا کافی تبدیل ہوئی ہے اور لوگوں میں یہ ادراک پیدا ہوا ہے کہ ترجمہ وہ کھڑکی ہے جس کے ذریعے دوسری زبانوں اور تہذیبوں سے متعارف ہونے کی راہ ہم وار ہوتی ہے۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ ترجمے نے ایک قوم کے علمی ذخیرے سے دوسری قوم کو روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی کے وسیلے سے ایک انسانی گروہ کے تجربات سے دوسری جماعتوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔
انسانی تہذیب وثقافت اور علوم وفنون کو فروغ دینے میں جہاں اور کئی اسباب وعوامل کار فرما رہے ہیں، وہاں تراجم ،بالخصوص ادبی ترجموں، کا اہم حصہ ہے۔ تراجم کے اس فن نے انسانی تہذیبوں اور قوموں کے درمیان پائی جانے والی متعدد رکاوٹوں کو دور کرکے حائل خلیج کو پاٹا ہے اور اس کے ذریعےہر عہد اور زمانے میں نوبہ نو افکار ونظریات کو ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک پہنچنے میں مددملی ہے۔
ترجمے کے وسیلہ سے ہی ایک زبان دوسری زبان کے رجحانات و تخیلات اور افکار ومزاج نیز اس کی صرفی ونحوی ساخت سے آگاہ ہوکر زبان کے رنگ وروپ کو اپناتی ہے اور اپنی تنگ دامنی کو وسعت میں تبدیل کرلیتی ہے۔ لہذا یہ دعویٰ کرنا صحیح ہوگا کہ دوسری زبانوں کی اعلیٰ تخلیقات کا ترجمہ بارہا قلم کاروں کو نئے ادبی میلانوں، تہذیبوں اور فنی معیارات سے متعارف کراکر جدید احساسات وتجربات اپنانے پر آمادہ کرتا رہا ہے۔
کسی دوسری زبان کے مقابلے میں اردو کی مثال زیادہ واضح اور ہمارے سامنے کی ہے کہ اسے ایک ترقی یافتہ زبان بنانے ، قومی سطح پر مقبولیت بخشنے اور ملکی زبانوں میں امتیازی درجہ دلانے میں جہاں دوسرے عوامل کا عمل دخل رہا، وہاں انگریزی ،عربی اور فارسی زبانوں سے مختلف علوم وفنون کے تراجم نے اس میں موثر کردارادا کیا ہے۔
ایسے ہی تراجم نے نوخیز اردو زبان کے لیے ترقی کے نئے دروازے کھول دیے اور ان کے وسیلے سے تازہ افکار ونظریات، بالخصوص آزادی، ترقی پسندی، روشن خیالی اور تحقیقی وسائنسی طرز فکرکےجو خوش گوار جھونکے آئے، ان سے اردو زبان میں توانائی اور تازگی کی لہر دوڑ گئی ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اردو کو ایک باقاعدہ زبان کے مقام پر فائز کرنے میںتراجم کا سب سے بڑا کردار ہے۔
فورٹ ولیم کالج کے بعد دہلی کالج اور جامعہ عثمانیہ کے دارالترجمہ نے اس ضمن میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے، اس کی بہ دولت ہی یہ زبان بولی سے زبان تک کا سفر باآسانی طے کرسکی ہے۔
تراجم کی ثقافتی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ایک دوسری مثال قدیم دانش وروں کی تصنیفی کاوش سے ملتی ہے۔ اگر سقراط، افلاطون اور مقراطیس کی ہزاروں سال پرانی تصانیف کا عربی زبان میں ترجمہ نہیں ہوتا تو یہ قیمتی سرمایہ کبھی کا روم اور یونان کے پرانے کھنڈروں میں دب دبا کر غارت ہوگیا ہوتا اور یورپ اور ایشیا کے ایوانوں میں آج ان کی گونج سنائی نہیں دیتی۔
اسی کے مثل بوعلی سینا، ابو نصر فارابی، ابن رشد، الادریس کے کارنامے بغداد، غرناطہ اور یروشلم کے کتب خانوں میں ضایع ہوجاتے، اگریورپی زبانوں نے انہیں اپنے قالب میں ڈھال کر چراغ سے چراغ جلانے کا سلسلہ جاری نہ رکھا ہوتا۔
جہاں تک ترجمے کے فن یا ترجمہ نگاری کا تعلق ہے تو اس کےسب ہی معترف ہیں کہ یہ ایک مشکل فن ہے کیوں کہ مترجم ایک زبان سے دوسری زبان میں معیاری ترجمہ اسی وقت کرسکتا ہے ، جب وہ دونوں زبانوں پر عبور رکھتا ہو۔ ایسے ہی مترجم سے سلیس ومعیاری ترجمے کی امید کی جاسکتی ہے۔
بہتر یہ ہے کہ دومترجم مل کر ترجمے کا کام کریں۔ ایک وہ ہو جس کی مادری زبان میں ترجمہ کیا جارہا ہو اور وہ اصل زبان سے بھی(جس کا ترجمہ ہورہا ہو) واقف ہو۔دوسرا شخص اس کے برعکس ہو، یعنی جس زبان میں ترجمہ ہورہا ہو، اسے بہ خوبی جانتا ہو۔ اور جس زبان کا ترجمہ ہورہا ہو وہ بھی اس کی مادری زبان ہو۔
ایک اور اہم بات یا خوبی جو مترجم میں ہونی چاہیے ، وہ زبان پر گرفت کے ساتھ اس موضوع پر عبور ہے، جس کا وہ ترجمہ کررہا ہو۔یا کم از کم اس موضوع سے اس کا تعارف ہونا چاہیے جس کا ترجمہ ہورہا ہو۔
مثال کے طور پر مترجم قانونی دستاویز کو اردوکا قالب پہنارہاہے تو قانون کی اصطلاحات اس کی سمجھ میں آنی چاہییں۔یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ماہرِ قانون ہو، لیکن اگر ایسا ہو تو یقینا اس کا ترجمہ فنی طور پر زیادہ معیاری ہوجائے گا۔ اس کے برعکس سائنسی، سماجی اور مذہبی مواد کا ترجمہ کرنا ہے تومتعلقہ لغات و اصطلاحات پر دست رس کے ساتھ مذکورہ علوم سے واجبی طور پر واقف ہونا ضروری ہے۔ اس میں سب سے مشکل کام ادبی ترجمہ ہے جس کے لیے صرف متبادل الفاظ کی ضرورت پیش نہیں آتی،بلکہ شعر وادب کی تخلیقی روایات اور تاریخی پس منظرسے واقفیت بھی ضروری ہے ۔
تخلیقی ادب کیوں کہ ایک وجدانی عمل ہے، لہذا اس کا ترجمہ اگر غیر وجدانی ہو تو وہ خشک وبے اثر ہوکر رہ جا ئے گا۔ اس لیے تخلیقی ادب کے تراجم میں وجدانی کیفیت کا شامل ہونا ضروری ہے۔ادب،بالخصوص شاعری، دوسرے موضوعات سے زیادہ انسانی جذبات کی مرہون منت ہوتی ہے اور جذبات کا ترجمہ میکانکی عمل سے تکمیل نہیں پاتا۔یہ ہی وجہ ہے کہ تخلیقی ادب کے تراجم کے کام کو ماہرین نے ایک مشکل امر سے تعبیر کیا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ترجمہ خواہ بہت زیادہ لفظی یا من وعن نہ ہو، پھر بھی اصل کی روح اس میں اس طرح سما جاتی ہے کہ ترجمہ خود تخلیق کادرجہ حاصل کرلیتا ہے۔
ڈاکٹر جانسن کا تو دعویٰ ہے کہ شاعری کا ترجمہ ہوہی نہیں سکتا، حالاں کہ شاعری کےمعیاری تراجم ہوئے ہیں اور انہیںسراہا بھی گیاہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے بھی منظوم تراجم کی مشکلات کا اعتراف کیا ہے ؎
اگر ترجمہ ہو تو مطلب ہو خبط
معافی میں پیدا نہ ہو ،ربط وضبط
مواقع ہیں یہ، جن سے ڈرتا ہوں میں
مگر خیر کچھ فکر کرتا ہوں میں
اسی طرح ڈاکٹر ظ- انصاری شعر وشاعری کے ترجمےکو اس شاخ سے تعبیر کرتے ہیں ، جسے چھوتے ہی اہل علم کی انگلیاں جل جاتی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنی شدت کے ساتھ اردو میں منظوم تراجم کی مخالفت ہوئی، اتنی ہی دل چسپی کے ساتھ مترجمین نے اس دعوتِ مبازرت کو قبول کیا۔یہاں تک کہ مذہبی کتب کے منظوم تراجم بھی خوب ہوئے۔ بھگوت گیتا اور رامائن کے علاوہ قرآن کریم کے معیاری منظوم ترجمے کرنے والوں میں سیماب اکبر آبادی، کیف بھوپالی اور شان الحق حقی کے نام آتے ہیں۔
انگریزی سے اردو کے ادبی ترجموں کا آغاز مولانا محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی نے کیا، جس کا سلسلہ انیسویں صدی کے آخر تک جاری رہا اور بیسویں صدی میں خاص طور پر، اس کے ربع اول میں، تراجم کو بے حد فروغ ملا۔
ترجموں کو مقبول بنانے میں اس عہد کے ادبی رسائل نے بھی اہم رول ادا کیا، جن میں مخزن، ‘دکن ری ویو، ‘افادہ ، تمدن، تجلی، ادیب، ‘زمانہ، ‘ہمایوں اور ‘ادبی دنیا متعدد انگریزی نظموں کے ترجمے شائع کرنے میں پیش پیش رہے۔
مذکورہ ترجمہ کرنے والوں میں علامہ اقبال کے علاوہ ضامن کشوری، عزیز لکھنوی، ظفر علی خاں، غلام بھیک نیرنگ، حسرت موہانی، علی حیدر زیدی، غلام محمد طور، صادق علی کشمیری، شاکر میرٹھی، تلوک چندر محروم، طالب بنارسی، محمد شفیع اور کرشن چند نے خاصی تعداد میںترجمے کیے۔ ترجموں کی اس کثرت کی بناء پر حاجی احمد فخری نے اپنے تحقیقی مقالے ‘دورِ تراجم (مطبوعہ رسالہ ) ‘اردو ،صفحہ نمبر 593،مطبوعہ 1929ء میں لکھا ہے۔:
’’ اس دور میں سب سے ممتاز ونمایاں کام ترجمہ ہی نظر آتا ہے اور اگر اسے ترجمے کا دور کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا‘‘۔
بعد میں بھی جو رسالے جاری ہوئے ان میں تراجم کا سلسلہ جاری رہا۔ تراجم کی اس رفتار کو دیکھ کربہ قول حامد کاشمیری، بیسویں صدی کو تراجم کی صدی قرار دیا جائے تو درست ہوگا۔ علاوہ ازیں دارالمصنفین اعظم گڑھ، ہندوستانی اکیڈمی ،الٰہ آباد اور اردو اکیڈمی، جامعہ ملیہ،نے بھی مغربی علوم اور ادب کے گراں قدر ترجمے شایع کیے ۔
بھارت میں آزادی کے بعد نیشنل بک ٹرسٹ، ساہتیہ اکیڈمی اور ترقی اردو بورڈ(موجودہ فروغِ اردو کونسل) نے ادبی وعلمی کتابوں کے تراجم شایع کیےہیں۔
اسی طرح ترجمے کے شعبے میں دینی مدارس کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں، جن میں ندوۃ العلماء لکھنؤ، دارالعلوم دیوبند، جامعہ سلفیہ بنارس، جامعہ الفلاح اور جامعہ الاصلاح سرفہرست ہیں۔مذکورہ مدارس میں عربی اور فارسی سے مذہبی اور ادبی کتابوں کے ترجمےکیے گئے ، جن کے مطالعے سے ادبی اور مذہبی ترجموں کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ترجموں کی یہ روایت برگ وبار نہ لائی ہوتی تو آج اردو زبان دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں سے کیسے آشنا ہوتی اور اپنی تہذیب سے کیسے اس کا تقابل کرپاتی۔
آج اردو زبان مختلف تہذیبوں کی خوش رنگیوں سے اسی لیے مالا مال ہے کہ اس میں ترجمے کی روایت پوری آب وتاب کے ساتھ جاری رہی ہے۔