یونیورسٹیز ترمیمی ایکٹ: خود مختاری پر ڈاکہ
- June 18, 2020 1:22 pm PST
ڈاکٹر محمد عثمان
پنجاب یونیورسٹی سینیٹ اجلاس کے دوران، میں نے یونیورسٹی ریکنگ کمیٹی کے سیکرٹری کی حیثیت سے وزیر ہائیر ایجوکیشن پنجاب راجہ یاسر ہمایوں سے گوش گزار کیا “کہ عالمی درجہ بندی میں ہم بہتری حاصل کر رہے ہیں اب مزید ترقی کے لیے یونیورسٹی کو فنڈز درکار ہیں”۔ اب جواب میں وزیر نے صاف کہہ دیا کہ کورونا عہد میں تعلیمی بجٹ نہیں بڑھایا جاسکتا۔ شاید ہمارے حکومتی زعماء اس طرح کے سوال سننا نہیں چاہتے۔
یونیورسٹی سینیٹ اجلاس کے ایک ہفتے بعد ہی یونیورسٹیز ترمیمی ایکٹ کا نیا قانونی مسودہ منظر عام پر آگیا گویا یوں لگا جیسے یونیورسٹیوں کی تباہی کے لیے حکومت نے مشن بنا رکھا ہے۔ مجھے بالکل واضح ہوگیا ہے کہ تحریک انصاف نے تعلیمی ترقی کا جو نعرہ لگایا تھا وہ محض سیاست تھی دراصل پارٹی کے پاس تعلیمی ترقی کے لیے کوئی مجوزہ پروگرام تک موجود نہیں تھا۔
پنجاب میں یونیورسٹیز ترمیمی ایکٹ کے ذریعے سے، صوبے کی خود مختار جامعات پر ڈاکہ ڈالنے کا مںصوبہ بنایا گیا ہے اور اس منصوبے کے تحت یونیورسٹیز میں سیاسی مداخلت بڑھانے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ وائس چانسلرز پر پیڈا ایکٹ لگانا، سنڈیکیٹ کی چیئرمین شپ چھیننا، حکومتی عزائم کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے، حالانکہ یونیورسٹیوں کے موجودہ قوانین کے تحت یونیورسٹیوں کا احتساب کرنے کا قانونی جواز موجود ہے تاہم موجودہ قانون کے تحت یونیورسٹیوں کی خود مختاری برقرار رہتی ہے جسے حکومت ختم کرنا چاہتی ہے۔ چانسلر یونیورسٹیوں میں اپنی پسند کے وائس چانسلرز تعینات کرنے کا مکمل قانونی اختیار رکھتا ہے لیکن چانسلر کو یہ اختیار استعمال کرنا کبھی نصیب ہی نہیں ہوا۔
نئے مجوزہ قانون میں یونیورسٹیوں کی پرفارمنس کا آڈٹ کرنے کے لیے اعشاریے مرتب کرنے کا ذکر ہے جس کے تحت پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن ان اعشاروں کو مرتب کرنے کا اختیار رکھتا ہوگا، اب سوال یہ ہے کہ کیا کمیشن کے پاس اتنی قابلیت ہے کہ وہ ایسے اعشاریے مرتب کرے؟ کمیشن تو خود حکومتی بجٹ میں فارغ کر دیا گیا ہے اب یہ یونیورسٹیوں کا تعلیمی و انتظامی آڈٹ کرنے کے لیے افرادی قوت کہاں سے لائے گا؟
کیا چانسلر کو معلوم ہے کہ سن 73ء اور 74ء ایکٹ کے تحت یونیورسٹیوں میں قائم سینیٹ کا چیئرمین چانسلر ہے، اور سنڈیکیٹ کے تمام تر فیصلوں کی توثیق سینیٹ کرتا ہے، یہاں چانسلر کے پاس مکمل اختیار ہے کہ سنڈیکیٹ کے فیصلوں کو مسترد کر دے جب تک سینیٹ ان فیصلوں کی توثیق نہیں کرتا تب تک سنڈیکیٹ کی دستاویزات محض کاغذ کے ٹکڑے ہیں۔ اب جب چانسلر خود ہی سینیٹ اجلاس طلب نہ کریں، سینیٹ اجلاس کی صدارت نہ کریں، اپنے اختیارات سے ناواقف ہوں تو اس میں یونیورسٹیوں پر دوش کرنا، کیا دانش مندی ہے؟
گزشتہ ایک دہائی سے جن یونیورسٹیوں میں سینیٹ کا اجلاس منعقد نہیں ہوا ان کا قصور وار کون ہے؟ اس انتظامی غفلت کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ کیا حکومت نے دانستہ طور پر سینیٹ کے قانونی اختیارات کا استعمال ترک نہیں کیا؟ میرا چانسلر یونیورسٹیز چوہدری محمد سرور سے یہ سوال ہے کہ وہ مسلم لیگ نواز کے عہد میں بھی اس منصب پر تعینات رہے اُس وقت انھوں نے کتنی یونیورسٹیوں میں سینیٹ اجلاس طلب کیے؟ یا اب دوبارہ اس منصب پر بیٹھنے کے بعد کتنی دفعہ سینیٹ اجلاس ہوئے؟
پنجاب یونیورسٹی میں دو سال کے دوران سینیٹ کے چار اجلاس منعقد ہوئے، چانسلر صاحب یہ بتائیں کہ وہ ان اجلاسوں میں کیوں غیر حاضر رہے؟ یا پھر انھوں نے اپنے اختیارات وزیر ہائیر ایجوکیشن راجہ یاسر ہمایوں کو کیوں تفویض کیے؟
پنجاب کی جن سرکاری یونیورسٹیوں کا قیام 2002ء کے بعد ہوا وہاں کی سنڈیکیٹ میں پرو چانسلر یعنی وزیر تعلیم بہ طور ممبر تعینات ہے جبکہ صوبائی اسمبلی کے تین تین پارلیمنٹریرین بھی سنڈیکیٹ کے ممبر ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ 2008ء کے بعد قائم ہونے والی یونیورسٹیوں کی سنڈیکیٹ کا اجلاس تو وزیر تعلیم کی چیئرمین شپ میں انعقاد پذیر ہوتا ہے، اب ایسے قوانین کے موجود ہوتے ہوئے نئے ترمیمی ایکٹ کا کیا جواز بنتا ہے؟
درحقیقت چانسلر آفس کو ایک بیوروکریٹ چلا رہا ہے اور اس بیوروکریٹ کی خواہش ہے کہ وہ یونیورسٹیوں کے قوانین میں ترامیم کی منظوری کرانے کے بعد انھیں سول سیکرٹیریٹ میں تعینات افسر شاہی کے ماتحت کر دے اور اس پورے منصوبے کے لیے چانسلر آفس کو استعمال کیا جارہا ہے۔
کورونا عہد کے باوجود، سرکاری یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی انجمنوں نے مجوزہ ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیا ہے اور پنجاب یونیورسٹی نے اس احتجاج میں کلیدی کردار نبھایا ہے۔ اساتذہ نے کلی طور پر یہ طے کر لیا ہے کہ یونیورسٹیوں کی خود مختاری ختم کرنے کے خلاف وہ کھل کر مزاحمت کریں گے اور تحریک انصاف کی حکومت کو یہ قانون پاس کرانے میں رکاوٹ پیدا کریں گے۔
موجودہ حکومت اگر یونیورسٹیوں میں اصلاحات کی خواہش رکھتی ہے تو اس کا آغاز غیر جانبداراور میرٹ پر وائس چانسلر کی بھرتی سے کیا جائے اور یونیورسٹیوں میں سنڈیکیٹ میں تعینات تین تین پارلیمنٹریرین کی تعداد کم کر کے ایک کی جائے۔ تمام سرکاری جامعات میں سینیٹ کا ادارہ قائم کیا جائے، اور اجلاس نہ ہونے کی صورت میں وائس چانسلرز، سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن اور وزیر ہائیر ایجوکیشن سے مشترکہ طور پر جواب طلبی کی جائے۔ لیکن خدارا، یونیورسٹیوں میں سیاسی مداخلت کے قانونی راستے کو بند کیا جائے اور احتساب کے لیے موجودہ قوانین کو من و عن نافذ کیا جائے۔
ڈاکٹر محمد عثمان اعوان، پنجاب یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدے پر تعینات ہیں