نان پی ایچ ڈی، بیوروکریٹ وائس چانسلرقبول نہیں ہوگا، اساتذہ

  • January 4, 2018 12:50 pm PST
taleemizavia single page

لاہور

حکومت کی جانب سے سرکاری یونیورسٹیوں میں قائمقام وائس چانسلرز کی تقرری غیر آئینی و غیر قانونی ہے اور حکومت سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے اہم ترین عہدے پر ایڈہاک ازم پر تقرریاں کرتی ہے۔

یہ بات فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر ڈاکٹر کلیم اللہ بریچ نے ہائر ایجوکیشن بحران پریس کانفرنس میں رپورٹ لانچ کرتے ہوئے کہی۔

اس موقع پر ایگزیکٹو ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف ڈیموکریٹک ایجو کیشن،ممبر ایگزیکٹو کمیٹی فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز سٹاف ایسوسی ایشن ڈاکٹر شہزاد اشرف ، صدر یوتھ کونسل پاکستان سید وقار علی ،صدر سول سوسائٹی عبدا للہ ملک و دیگر بھی موجود تھے۔فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز سٹاف ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کی جانے والے تحقیقی رپورٹ کے نکات درج ذیل ہیں ۔

وفاقی آڈٹ رپورٹ دو ہزار سولہ کے مطابق ہائر ایجو کیشن کمیشن کی پندرہ سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ مجموعی ترقیاتی بجٹ کا 49فیصد فنڈ بروئے کار ہی نہ لایا جا سکا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن گزشتہ تین سالوں کے درمیان 149ترقیاتی منصوبوں میں سے صرف 66منصوبوں کی منظوری لے سکا۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کی گورننگ باڈی کے 8ممبران کا انتخاب ہی نہ کیا جا سکا جس کے باعث یہ باڈی غیر فعال اور غیر مؤثر ہو کر رہ گئی ہے جبکہ ادارے کے انتہائی اہم فیصلوں میں متعلقہ عہدیداران،ہائر ایجو کیشن کمیشن کے بورڈ اور وزیر اعظم پاکستان جو کہ اس ادارے کی کنٹرولنگ اتھارٹی ہیں کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے۔

ہائر ایجو کیشن ایکٹ کے مطابق ہر سال مالیاتی بجٹ کی منظوری ایچ ای سی بورڈ سے لی جائے گی جبکہ رواں سال کے بجٹ کی منظوری بھی بورڈ سے نہیں لی گئی اسی طرح ہائر ایجو کیشن کمیشن کے ایکٹ کے تحت سال میں دو مرتبہ اجلاس کا انعقاد ضروری ہے جبکہ ایک اجلاس بھی نہ بلایا گیا۔

ہائر ایجو کیشن کمیشن گزشتہ کچھ سالوں سے جامعات کو تعاون فراہم کرنے کے بجائے جامعات کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی میں ملوث ہے،قائد اعظم یونیورسٹی اور فیڈرل اردو یونیوسٹی میں جاری ہائر ایجو کیشن کمیشن کے تنازعات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

جامعات کی عالمی درجہ بندی جاری کرنے والے ادارے کیو ایس،ٹائمز ہائر ایجو کیشن اور ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق پاکستانی جامعات ہر سال عالمی رینکنگ میں تنزلی کا شکار ہیں،ہماری جامعات ہمسایہ ممالک اور دیگر اسلامی ممالک سے بھی اعلیٰ تعلیمی میدان میں بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات اور ہائر ایجو کیشن کمیشن کے ریکیورمنٹ رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ادارے کے کئی اہم شعبوں جن میں آڈٹ،کوالٹی انشورنس اور چیئرمین آفس شامل ہیں کے ریٹائرڈ افسران کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن نے 2014سے تاحال اپنی سالانہ رپورٹ جاری نہیں کی جو کہ ادارے کے ایکٹ کی شق 14(4)کی خلاف ورزی ہے۔

پی ایچ ڈی ڈگریوں کے حامل متعدد افراد ہائر ایجو کیشن کمیشن کی جانب سے کئے جانے والے امتیازی سلوک کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

ایک ہزار چار سو سے زائد پی ایچ ڈی ڈگریوں کے حامل ڈگری کی تصدیق نہ ہونے کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہین جن میں سے کئی بے روزگاری میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

ہائر ایجو کیشن کمیشن کی جانب سے سکالر شپس جارے کرنے سے قبل اس کی افادیت کا جائزہ تک نہیں لیا گیا جسے ماہرین تعلیم نے بغیر تشخیص کے علاج قرار دیا ہے۔

دو ہزار پندرہ کے بعد سے ہائر ایجو کیشن کمیشن کی ویب سائٹ پر سٹو ڈنٹس کی انرولمنٹ، پی ایچ ڈی اور نان پی ایچ ڈی فیکلٹی کا مستند ڈیٹا بھی فراہم نہیں کیا گیا۔

سات سال گزرنے کے باوجود اٹھارہویں آئینی ترمیم پر عمل در آمد نہ ہوسکا،جبکہ مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل کردہ سب کمیٹی بھی اس حوالے سے سفارشات پیش کرنے میں ناکام رہی۔

لاہور ہائیکورٹ نے ایک اہم آئینی درخواست پر فیصلہ صادر کیا کہ اعلیٰ تعلیمی شعبہ میں طے کردہ معیارات کی منظوری مشترکہ مفادات کی کونسل سے لی جائے لیکن چھ ماہ گزرنے کے باوجود وفاقی حکومت اس اہم فیصلے پر عمل در آمد کروانے میں ناکام رہی۔

بلوچستان میں صوبائی ایچ ای سی کی تشکیل کے حوالے سے صوبائی اسمبلی کی مشترکہ قرار دار پر بھی تا حال عمل در آمد نہ سکا۔

گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی اعلیٰ تعلیمی بجٹ کا ایک بڑا حصہ وفاقی ہائر ایجو کیشن کمیشن اور وفاقی جامعات کو تفویض کر دیا گیا ہے جبکہ چاروں صوبوں کی 83 صوبائی جامعات بشمول 45 کیمپسزکے لئے صرف 43فیصد ہی رکھا گیا ہے جو کہ جامعات کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ناکافی ہے۔

بجٹ دستاویزات کے مطابق فاقی حکومت نے پچھلے سال کے بجٹ 21.487بیلین کے بجائے جاری مالیاتی سال کے لئے وفاقی ہائر ایجو کیشن کمیشن کے لئے پبلک سیکٹر ڈولپمنٹ پروگرام کے نام پر 35.662بیلین روپے مختص کئے۔

ترقیاتی بجٹ108سرکاری جامعات بشمول79کیمپسز کے نئے تعمیراتی منصوبہ جات،،موجودہ سہولیات کو بہتر بنانے اور سکالر شپس پر خرچ کیا جائے گا جبکہ اس بجٹ میں نئے کیپسز کا قیام بھی شامل ہے۔

وفاقی دا رلحکومت اور کشمیر کی سرکاری جامعات کے لئے 7 نئے منصوبہ جات شامل ہیں جن کی مجموعی مالیت1140 ملین ہے جبکہ پنجاب کی 28سرکاری جامعات بشمول 34کیمپسز کے لئے13نئے منصوبہ جات ہیں جن کے لئے 1905.021ملین روپے ہوں گے۔

سندھ کی سرکاری جامعات کی تعداد 21 ہے جن کے 6سب کیمپسز ہیں اور اس کے لئے 6نئے منصوبہ جات ہیں جن پر 890ملین روپے خرچ کئے جائیں گے،بلوچستان کی سرکاری جامعات کے لئے گزشتہ سال 8منصوبہ جات تھے جبکہ اس سال 400 ملین کی مالیت کے صرف 3منصوبے ہیں۔

گزشتہ سال کے دوران بھی ترقیاتی بجٹ کا ذیادہ تر حصہ وفاقی ہائر ایجو کیشن کمیشن اور وفاقی سرکاری جامعات کے لئے مختص تھا جبکہ صوبائی جامعات اور ان کے کیمپسز کے لئے صف 45 فیصد مختص تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ترقیاتی بجٹ میں 5غیر منظور شدہ منصوبے بھی شامل ہیں جن میں بہاولپورانسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی،زرعی یونیورسٹی آف ڈیرہ اسماعیل خان،وفاقی یونیورسٹی حید رآباد،یونیورسٹی آف بلتستان،اورخواتین کے لئے مینگورہ میں سوات یونیورسٹی کا کیمپس شامل ہیں۔

دو ہزار چودہ سے 16کے درمیان گزشتہ تین سالوں میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرامز کے تحت 149نئے منصوبوں کے لئے اربوں روپے مختص کئے گئے جن میں سے صرف66منصوبے منظور ہوئے جبکہ83سرد خانوں کی نظر ہوگئے۔

ڈاکٹر کلیم اللہ بریچ کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے وائس چانسلر تقرری کا طریقہ کار تبدیل کرنا چاہتی ہے اور اگر صوبے کی سرکاری جامعات میں نان پی ایچ ڈی، نان پروفیسرز اور بیوروکریٹ کو وائس چانسلر لگانے کی کوشش کی گئی تو یونیورسٹیوں کے اساتذہ حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلائیں گے۔

اُنہوں نے کہا کہ حکومت اپنے سیاسی مفادات کی خاطر جامعات میں قائمقام وائس چانسلرز تعینات کرتی ہے اور قائمقام وائس چانسلرز کی تقرری غیر آئینی و غیر قانونی ہے۔

ڈاکٹر کلیم اللہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بیوروکریسی یونیورسٹیز پر قبضہ کرنا چاہتی ہے، جامعات میں قائمقام وائس چانسلرز کی تقرری سے ریسرچ کلچر کمزور ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر کلیم اللہ کا کہنا تھا کہ صوبائی سطح پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کو فعال کر کے انہیں مضبوط کیا جائے۔

اُن کا کہنا تھا کہ سرچ کمیٹیوں میں نجی یونیورسٹیز کی نمائندگی سرکاری یونیورسٹیز کی تباہی کے مترادف ہے، اُنہوں نے کہا کہ فیڈریشن مطالبہ کرتی ہے کہ طلباء یونین پر پاپندی ختم کی جائے اور طلباء کو جمہوری و آئینی حق واپس دیا جائے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *