ذہنی دبائو، ایک سال میں 9474 طلباء نے خود کشی کر لی
- August 20, 2019 1:11 am PST
نئی دھلی: جاوید اختر
بھارت میں اعلٰی تعلیمی اداروں میں داخلے کی دوڑ اور بہتر تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بوجھ تلے دب کر طلبہ کی خودکشی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
طلبہ کی خودکشی کے سب سے زیادہ واقعات سن 2016 میں پیش آئے۔ اس ایک برس کے دوران 9474 طلبہ، یعنی تقریباً ہر ایک گھنٹے میں ایک طالب علم، نے اپنی زندگی کا خود اپنے ہاتھوں خاتمہ کر لیا۔
نریندر مودی حکومت نے چند ماہ قبل پارلیمان میں ایک سوال کے جواب میں بتایا تھاکہ 2014 سے 2016 کے درمیان ساڑھے چھبیس ہزار سے زائد طلبہ نے خودکشی کر لی۔
2016 میں 9474 سن 2015میں 8934 اور 2014میں 8068 طلبہ نے پڑھائی اور بہتر کارکردگی کے بوجھ تلے دب کر خودکشی کی۔ ان اعداد و شمار سے واضح ہے کہ طلبہ میں خودکشی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ میں دائر ایک درخواست کے مطابق 2014 سے 2016 کے درمیان صرف بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہی 443 ایسے بچوں نے خودکشی کی جن کی عمریں اٹھارہ برس سے بھی کم تھیں۔ یہ درخواست حق اطلاعات قانون کے تحت دہلی پولیس سے حاصل کردہ معلومات کے بعد سپریم کورٹ کے وکیل گورو کمار بنسل نے دائر کی تھی۔
گورو کمار بنسل نے ڈی ڈبلیو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا، ”یہ عرضی دائر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ حکومت کی توجہ اس سنگین مسئلے کی طرف مبذول ہوسکے۔ حکومت طلبہ کی خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر توجہ دے اور اس مسئلہ سے بچنے کے لیے نوجوانوں میں بیداری مہم چلائے۔”
بنسل کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے حکومت سے پورے ملک میں طلبہ کے لیے ذہنی صحت کی دیکھ بھال اور علاج کی سہولیات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا، ”میں نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ تمام صوبائی حکومتوں کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے رہنما خطوط تیار کرنے کی ہدایت دے اور نوجوانوں کو بہتر صحت کی خدمات فراہم کرائے۔ میں نے یہ درخواست بھی کی ہے کہ ایسے کال سینٹر اور مشاورتی مراکز بنائے جائیں جہاں خودکشی کے رجحان سے متاثر افراد کا مناسب علاج کیا جاسکے۔”
بھارت میں یوں تو تعلیم کے شعبے میں کافی ترقی ہوئی ہے تاہم معیاری اور عالمی شہرت یافتہ تعلیمی اداروں کی تعداد برائے نام ہے۔ انجینئرنگ کی تعلیم کے لیے معروف انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی تعداد ملک بھر میں صرف تئیس ہے، جن میں مجموعی طور پرتقریباً گیارہ ہزار سیٹیں ہیں جب کہ ان میں داخلے کے لیے رواں برس کے دوران امتحان دینے والے طلبہ کی تعداد نو لاکھ سے زیادہ تھی۔ تقریباً یہی حال میڈیکل کالجوں کا بھی ہے۔ ایسے میں مقابلہ بہت سخت ہوتا ہے۔
راجستھان کے کوٹہ ضلع کو ’کوچنگ اداروں‘ کا مرکز کہاجاتا ہے، جہاں ایک سو سے زائد کوچنگ سینٹرز میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ بچے اپنے گھر سے دور رہ کر اچھے اداروں میں داخلے کے لیے تیاری کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں یہاں متعدد طلبہ پڑھائی کے دباؤ میں آ کر خودکشی کر چکے ہیں جس کی وجہ سے یہ شہر اب ‘قاتل شہر‘ کے نام سے مشہور ہوگیا ہے۔
لاکھوں روپے فیس دے کر یہاں بچے بالکل الگ تھلگ رہ کر روزانہ پندرہ سولہ گھنٹے پڑھائی میں لگے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی دیگر سرگرمیاں تقریباً ختم ہوجاتی ہے۔ جب ہر پندرہ دن بعد لیے جانے والے ٹیسٹ میں ان کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہوتی ہے تو وہ ڈیپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ بچوں کو شدید ذہنی دباؤ سے بچانے کے لیے اب بعض والدین بھی اپنا وطن چھوڑ کر دو سال تک اپنے بچوں کے ساتھ رہنے کے لیے مجبور ہو گئے ہیں۔
ماہر نفسیات اور طلبہ کو مشاورت فراہم کرنے والی ندھی پرساد نے طلبہ میں خودکشی کے بڑھتے رجحان کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ آج ایک ایسا ماحول پیدا کردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں طلبہ میں ڈپریشن کے واقعات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ بدقسمتی سے والدین اپنی امنگوں اور خواہشات کا بوجھ انجانے طورپر اپنے بچوں پر ڈال دیتے ہیں اور ایسا کرتے وقت یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کا بچہ اس کا اہل ہے یا بھی نہیں۔‘‘
ندھی پرساد نے والدین کو مشورہ دیتے ہوئے کہا، ’’اپنے بچوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کریں، ان پر اعتماد کریں اور انہیں اپنا راستہ خود تلاش کرنے دیں۔ ان میں ہر وقت غلطیاں نکالنے سے ان کا حوصلہ پست ہوتا ہے اور بعض اوقات یہ ہلاکت خیز ثابت ہوسکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ایک اسمارٹ سرپرست بنیں۔ آج کا دور انفارمیشن کا دور ہے، بچے آپ سے کہیں زیادہ جانتے ہیں اس لیے انہیں اپنے لیے بہترین راستے کا انتخاب کرنے دیں۔‘‘