نظریہ ارتقاء تو ڈارون سے 6 سو سال پُرانا ہے
- April 2, 2017 9:24 pm PST
ازکیٰ ضیاء
اپنی تصنیف اخلاق ِ ناصری “میں ، ناصر الدین طوسی نے ارتقاء کا ایک بنیادی نظریہ پیش کیا ہے۔
یہ چارلس ڈارون کی پیدا ئش سے تقریبا 6 سو سال پہلے کی بات ہے۔ وہ اپنے ارتقا ء کے نظریے کا آغاز اس خیال سے کرتے ہیں کہ کبھی کائنات برابر اور مماثل عناصر پر مشتمل تھی۔
طوسی کے مطابق بتدریج اندرونی تضادات ظاہر ہونے لگے اور نتیجتاً ، کچھ مادوں نے دوسروں کی نسبت سے تیزی سے اور مختلف طریقے سے نشونما پانا شروع کیا۔
اس کے بعد وہ عناصر سے معدنیات ، پھر پودوں ، پھر جانوروں ، اور اس کے بعد انسانوں تک کے ارتقائی عمل کی وضاحت کرتا ہے۔ طوسی پھر جانداروں کے حیاتیاتی ارتقاء میں موروثی تغیّر کی اہمیت بیان کرتا ہے۔
ناصر الدین طوسی کے مطابق” جوجاندار نئی خصوصیات تیز ی سے حاصل کر سکتے ہیں وہ زیادہ متغیر ہیں . نتیجتاً وہ دوسری مخلوق پہ سبقت لے جاتے ہیں ۔اندرونی اور بیرونی ماحولیاتی ہم آہنگی جسمانی ساخت میں تبدیلی کا باعث ہیں۔
تین سال پہلے دو ہزار تیرہ میں گوگل نے ناصر الدین طوسی کی آٹھ سو تیرہوویں برسی کے موقع پر اپنا ڈوڈل اُن کے نام کیا تھا۔
آزربائیجان کی حکومت نے دو ہزار نو میں طوسی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا جسے بہت سراہا گیا۔
ناصر الدین طوسی ایک ایرانی جید عالم اور کثیرالتصانیف مصنف تھے ۔ وہ تعمیرات، فلکیات اورحیاتیات کے ماہر تھے۔ وہ کیمیا دان ،ریاضی دان ، فلسفی ، طبیب ، ماہر طبیعیات ، سائنس دان ماہرِ الٰہیات اور مرجع تقلید بھی تھے۔
ان کا تعلق اسماعیلی فرقے اور بعد ازیں اسلامی عقیدے کے اثنا عشریہ شیعہ مسلک سے تھا۔ مسلمان عالم ابن خلدون(1332-1406) کی نظر میں طوسی بعد میں آنے والے ایرانی علماء کرام میں سب سے بڑا عالم تھا۔
طوسی کی قریباً ڈیڑھ سو تصانیف ہیں جن میں سے پچیس فارسی میں اور باقی عربی میں ہیں۔ فارسی ، عربی اور ترکی زبان میں ایک رسالہ بھی ہے۔
نیشاپور میں اپنے قیام کے دوران ، طوسی نے ایک غیر معمولی عالم کے طور پر ساکھ قائم کی۔ طوسی کی نثری تحریروں کا مجموعہ کسی بھی اسلامی مصنف کی تحریروں کے مجموعات میں سب سے بڑا مجموعہ ہے۔
انہوں نے عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں لکھا ۔ ناصر الدین طوسی نے مذہبی ( ” اسلامی “) موضوعات اور غیر مذہبی یا لادینی مضامین ( ” قدیم علوم “) دونوں پر لکھا ہے۔
ان کی تصانیف میں اقلیدس ، آرشمیدس ، بطلیموس ، آٹولیکس اور بیت عنیاہ کے تھیوڈو سس کے کاموں کے حتمی عربی نسخے بھی شامل ہیں۔
طوسی جانداروں کی ماحول سے مطابقت کی صلاحیت کو بیان کرتا ہے کہ” جانوروں اور پرندوں کی دنیا پر نظر ڈالیں تو ان کے پاس وہ سب ہے جو دفاع ، تحفظ اور روز مرہ زندگی کے لیے ضروری ہے۔
ان کے پاس طاقت ، ہمت اور مناسب اوزار [ اعضاء ] موجود ہیں ۔ ان میں سے کچھ اعضاء حقیقت میں ہتھیار ہیں ۔
مثلاً سینگوں کی شکل میں نیزہ ، دانت اور پنجوں کی شکل میں چاقو اور سوئیاں ہیں اور پاؤں اور کھروں کی شکل میں لاٹھی موجود ہے۔
بعض جانوروں کے کانٹے اور سوئیاں تیر کی طرح ہیں۔ جانور جن کے پاس حفاظت کے دوسرے ذرائع موجود نہیں ہیں۔
مثلاً ہرن اور لومڑی وہ پرواز اور چالاکی کی مدد سے خود کو محفوظ رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ، مثال کے طور پر ، شہد کی مکھیاں ، چونٹیاں اور کچھ پرندوں کی انواع اپنی حفاظت کے لیے گروہوں میں متحد ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
طوسی نے جانداروں کی تین اقسام شناخت کی ؛ پودے ، جانور اور انسان ۔
طوسی نے لکھا ہے کہ” جانور پودوں سے برتر ہیں کیونکہ وہ شعوری طور پر حرکت کرنے، خوراک کے پیچھے جانے، تلاش کرنے اور مفید اشیا ء کھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
جانوروں اور پودوں کی انواع ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں ۔ اوّلاً جانورپودوں سے زیادہ پیچیدہ ہیں ۔
مزید برآں عقل جانوروں کی سب سے فائدہ مند خصوصیت ہے۔ عقل کی وجہ سے وہ نئی چیزیں سیکھ سکتے ہیں اور جدید غیر موروثی صلاحیتیں اپنا سکتے ہیں۔
مثلاً ایک سدھایا ہوا گھوڑا یا شکاری باز حیوانوں کی دنیا میں ارتقا کے برتر مرحلے پر ہیں۔ انسانی کمال کا پہلا قدم یہاں سے شروع ہوتا ہے۔
پھر طوسی ترقی یافتہ جانوروں سے انسانوں تک کے ارتقائی عمل کی توضیح پیش کرتا ہے
ایسے انسان (غالباًآدم نما بندر ] مغربی سوڈان اور دنیا کے دیگر دور دراز کونوں میں رہائش پذیر ہیں۔
وہ اپنی عادات ، اعمال اور برتاؤ میں جانوروں کے قریب تر ہیں۔ انسانوں میں ایسی خصوصیات ہیں جو اسے دیگر مخلوق سے ممتاز کرتی ہیں۔
ان میں ایسی خصوصیات بھی ہیں جو اسے حیوانوں ، سبزیوں اور حتیٰ کہ بے جان اشیا ء سے مماثل قرا ر دیتی ہیں انسانوں کی خلقت سے قبل ، جانداروں کے درمیان اختلافات قدرتی بنیاد پر تھے۔
اگلا قدم روحانی کمال ،ارادے ، مشاہدے اور علم کے ساتھ منسلک ہو گا۔ ان تمام حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان ارتقائی سیڑھی کے وسطی قدم پر رکھا جاتا ہے ۔
اپنی موروثی فطرت کے مطابق ، انسان نچلے درجے کی مخلوق سے تعلق رکھتا ہے ، اور صرف اپنی قوت ِ ارادی کی مدد سے وہ اعلی ارتقائی سطح تک پہنچ سکتا ہے ۔
اس بات کا مشاہدہ کرنا کہ دنیا میں پائی جانے والی مختلف جانداروں کی ما بین انکی ھیئت کے حساب سے تسلسل پایا جاتا ہے اور اس سے یہ اخذ کرنا کہ انسان بندروں کی ارتقاء شدہ شکل ہے دو بہت مختلف باتیں ہیں۔ مختلف جانداروں میں مماثلت تو خالق کی بہترین صناع ہونے کا ثبوت ہے جبکہ اُسکا بندروں سے ارتقاء پذیر ہونا مسلمان کے عقیدہ کی صریحاً نفی ہے۔ اللہ نے انسان کو انسان ہی پیدا کیا اور جانوروں کو جانور۔ اس میں انسان کے لئے انتہائی شکر کا پہلو ہے۔ ڈارون کی تھیوری ایک علمی کام نہیں تھا بلکہ ایک سیاسی شعبدہ تھا۔ چرچ کے پانچ سو سالہ دور کے بعد جب یورپ نے ایک نئی زندگی کا آغازکرنے کا سوچا تو اُس میں انہوں نے ماضی کے کسی تصور اور نشان کوجگہ نہ دی یعنی جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو۔۔۔اس حوالے سے خدا کا تصور ایک بنیادی اہمیت کا حامل تھا۔ جب تک انسان اور کائنات موجود تھی اس کے وجود میں آنے کا ایک تصور پایا جاتا تھا کہ ان سب کا خالق اللہ ہے۔ خدا کے تصور کو ختم کرنے یا اسکی اصل اہمیت کو ختم کرنے کے لئے ضروری تھا کہ ان تمام اشیاء کے وجود کی کوئی اور توضیح کیا جائے۔ چنانچہ ڈارون کی تھیوری نے یہ مواد فراہم کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یورپ کی عملی زندگی میں خدا کا عمل دخل کم سے کم تر ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ نٹشے کو کہنا پڑا کہ ’خدا مر چکا ہے‘ کیونکہ خدا کی اصل اہمیت اُسکے دئے ہوئے علم کیوجہ سے ہے کیونکہ اسی علم کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے نبئ بھیجے گئے اور انہی احکام کے تناظر میں قیامت کے دن حساب کتاب ہوگا۔ خدا کو دیس نکالا دے ایک ایک نئی زندگی وجود میں آئی جسکی بنیاد سیکولرزم تھی۔
I believe that is very information and facts for me personally.. ترجمه بوسنيايي With this particular pleased reading your current write-up. Nonetheless choose to statement about some typical challenges, Your website model is excellent, the articles or blog posts is definitely exceptional : N. Ideal career, best wishes