پنجاب کے بھٹہ سکول بمقابلہ لاہور نالج پارک
- October 24, 2016 8:59 pm PST
اکمل سومرو
تعلیم کی نوویں پالیسی 2009ء میں آئی چھ سال گزر گئے اس پالیسی کی بنیاد پر کتنے اہداف حاصل ہوئے حکمران، بیوروکریسی اور دیگر ادارے خاموش ہیں۔
ویسے خاموش بھی حق بجانب ہے کیونکہ تعلیم کی اس پالیسی کا اُسی وقت قتل ہوگیا تھا جب 2010ءمیں پیپلز پارٹی کی حکومت میں آئین کی اٹھارویں ترمیم پر تمام جماعتوں نے راضی نامہ کیا۔
نوویں تعلیمی پالیسی جو وفاق کے زمرے میں تھی اس ترمیم کے بعد اب اس پر وفاقی حکومت جوابدہ نہیں ہے۔ اب یہ معاملہ صوبائی خودمختاری کی گود میں ہے۔
صوبوں کے پاس اب سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی رکھوالی کی بھاری ذمہ داری ہے جسے حکومت بوجھ سمجھ کر 2010ء سے اُٹھائے پھرتی ہے۔
پنجاب کی حکومت کے پیش نظر صوبہ صرف لاہور تک ہی محدود ہے اس لیے ترقیاتی منصوبوں کا بیٹرہ بھی لاہور میں ہی 2008ءسے لنگر انداز ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف لاہور شہر میں حکومت نے 7سالوں میں دو کھرب روپے سے زائد خرچ کر دیے ہیں کیونکہ پیرس بنانے کاخواب عوامی ٹیکسوں پر ہی پورا کرنا ہے جو کہ حقیقت سے قریب تر بھی نہیں ہے۔
پنجاب میں اس وقت سکول کے درجے تک کی تعلیم میں محکمہ سکولز، پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن، محکمہ رسمی و غیر رسمی تعلیم متحرک ہے ۔
غریبوں کی رسمی و غیر رسمی تعلیم کے لیے یہ محکمہ لٹریسی بھٹہ سکول چلا رہا ہے جس کے لیے 100 سے زائد بھٹہ سکولز بنائے گئے ہیں۔
ان بھٹہ سکولوں پر غریبوں کی کھلے آسمان تلے، پھٹے کپڑوں کے ساتھ، مٹی پہ بٹھا کر پہلے تذلیل کی جاتی ہے۔
پھر انہیں کرائے کے اُستاد دیہاڑی پر ان غریبوں کے بچوں کو پڑھا کرانہیں احساس غربت دلاتے ہیں۔
حکومت نے ان بھٹہ سکولوں کے لیے فنڈز مختص کر رکھے ہیں اور اسی کے ساتھ ان منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لیے جاپان کی فنڈنگ ایجنسی جائیکا سے امداد بھی وصول کی جاتی ہے۔
محض اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا لاہور جیسے شہر میں بھی سرکاری سکول کھولنے پر حکومت نے خود پاپندی عائد کر کے تعلیم بیزاری کا اظہار دو سال پہلے ہی کر دیا تھا۔
دوسری جانب پرائیویٹ سکولوں کے مالکان کا پیٹ پالنے کے لیے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ذریعے سے 14ارب روپے سالانہ خرچ کر دیے جاتے ہیں جس کے آڈٹ کا منظم نظام آج تک وضع نہیں کیا جاسکا۔
پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے میں صرف 60افسران کی تنخواہوں اور مراعات کی مد میں ماہانہ کروڑوں روپے خرچ کر دیے جاتے ہیں لیکن حکومت اسے بھی قوم کی خدمت کا نام دیکر جھوٹے دعوے کرتی ہے۔
اب بڑھتے ہیں کالجوں کی جانب۔ 2010ءمیں ہی منصوبہ بنایا گیا کہ کالجوں میں اعلیٰ تعلیم کا بندوبست ہوگا۔
تجربے کے طور پر 26کالجوں کو خود مختاری دی، چار سالہ گریجویشن پروگرام شروع ہوا جو آج بھی اپنی ناکامی کا ماتم کر رہا ہے۔
بلکہ اب تو پنجاب حکومت کی سانجھے دار بیوروکریسی کی مشاورت کے بعد مزید 39 کالجوں کو بورڈ آف گورنرز کے ماتحت کر کے چار سالہ بی ایس آنرز پروگرام کے آغاز کے منصوبے پر کام شروع ہوچکا ہے۔
اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے مختص چھ کروڑ روپے حکومت نے بیوروکریسی کے ساتھ مل کر سڑکوں کی تعمیر کے منصوبے میں لگا دیے۔
ڈینگی کا وبال آیا تو ان کالجوں کے معصوم طلباءکو بھی اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، ان سے سڑکوں پر ریلیاں نکلوائیں گئیں محلوں میں کالجوں کی لڑکیوں سے ڈینگی پمفلٹس تقسیم کرا کر حوا کی بیٹیوں کی تذلیل کی گئی جب خبر عام ہوئی تو پھر سیاستدانوں کو احساس ندامت ہوئی۔
اٹھارویں ترمیم نے اعلیٰ تعلیم پنجاب کو سُپرد کر دی ہے تو اب حکومت ایک اور سنگ میل عبور کرنے جارہی ہے۔
اس مہنگی تعلیم کے منصوبے کی نالج پارک کے نام سے دو سالوں سے اخبارات اور اشتہارات کے ذریعے تشہیر ہورہی ہے یہ منصوبہ اس حد تک خفیہ رکھا جارہا ہے کہ محکمہ ہائر ایجوکیشن کے بیوروکریٹ شاہد زمان اس کی فائلیں کسی دوسرے افسر کو دکھانے کے لیے تیار ہی نہیں۔
نالج پارک کا منصوبہ جو کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ماتھے کا جھومر ہے اس منصوبے میں غیر ملکی پرائیویٹ یونیورسٹیاں آکر اپنا کاروبار شروع کرنے والی ہیں۔
اس نالج پارک کو کامیا ب بنانے کے لیے مشیر بھی برطانوی اور سرمایہ کار بھی برطانوی ہیں بھلا کیوں نہ ہوں حکمرانوں کے سیاسی و معاشی مفادات جو لندن سے وابستہ ہیں۔
اطلاعات ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے مشیروں کے ہمراہ اسی منصوبے پر بات چیت کے لیے لندن کے متعدد دورے کر لیے ہیں۔
نالج پارک کے منصوبے کی روح کے مطابق صنعت اور یونیورسٹیوں کے مابین تعلقات مضبوط کرنا مقصد ہے لیکن اس پارک میں صرف پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ہی جگہ ملے گی کیونکہ اب حکومت اعلیٰ تعلیم کو مزید مہنگا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اس نالج پارک کی منصوبہ سازی میں لاہور سمیت صوبے بھر کے ایک بھی وائس چانسلر کو شامل نہیں کیا گیا حتیٰ کہ کسی عمر رسیدہ ماہرین تعلیم کا مشورہ لینا بھی حکومت کے لیے گوارا نہیں ہوا۔
سرکاری تعلیمی اداروں کی پشت پر چھرا گھونپ کر حکومت نجی اداروں کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہے دراصل یہ منصوبہ نیو لبرل ازم کا شاخسانہ ہے جو عام عوام کی نظر سے اوجھل ہے۔
حکومتی ترجیحات سیاسی شعبدہ بازی کی غلام ہوتی ہیں یہ حکمران اس قول کو سیاسی حدیث سمجھتے ہیں کہ جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے۔
لاہور میں سڑکوں کی تعمیر پر اربوں روپے خرچ کرنے کے احکامات تو صادر ہوجاتے ہیں لیکن گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا کالا شاہ کاکو کیمپس، لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کا کالا شاہ کاکو کیمپس، ویٹرنری یونیورسٹی کے کالا شاہ کاکو کیمپس کے لیے 10ارب روپے دینے کا وقت آئے تو خزانہ خالی ہونے کا بہانہ کیا جاتا ہے۔
پی سی ون کے منصوبوں پر اعتراضات لگا کر مسترد کر دیے جاتے ہیں جناب مسئلہ صرف ترجیحات کا ہے، سیاسی خاندانی مفادات کا ہے۔
عوام تو ان کے لیے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ صوبے میں اعلیٰ تعلیم کی حالت کا جائزہ اسی سے لگا لیجئے کہ جنوبی پنجاب میں صرف دو یونیورسٹیاں ہیں، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان جسے آج کل بڑے سیکنڈل کا سامنا ہے جبکہ دوسری اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ہے جہاں پر اسلامی جمعیت طلباءحکومتی رٹ کو روز مرہ کی بنیاد پر چیلنج کرتی رہتی ہے۔
صرف یہی نہیں جناب قیام پاکستان کے بعد لاہور میں ایک بھی نئی سرکاری یونیورسٹی نہیں بنائی گئی تاہم لاہور میں 19 پرائیویٹ یونیورسٹیاں کھل گئیں ہیں جو لاہوریوں کو مہنگی تعلیم دینے کا کاروبار کر رہی ہیں ۔
بھٹہ سکولوں سے لیکر نالج پارک تک شروع کیے جانے والے تمام منصوبوں میں حکومت تعلیم کے ساتھ جو تجربہ کاری کر رہی ہے اس میں قومی مفاد کا عنصر غیر حاضر ہے جس کا اندازہ صرف ایک دہائی بعد ہی ہوجائے گا۔