اُردو تحقیق کا بحران: ہائر ایجوکیشن کمیشن کیوں خاموش ہے؟

  • January 26, 2018 10:28 pm PST
taleemizavia single page

ڈاکٹر ناصر عباس نیر

سب سے پہلے یہ واضح کرنا مناسب ہوگا کہ اس تحریر میں’اردو تحقیق کے بحران ‘سے کیا مراد لیاجارہاہے؟ اپنے بنیادی معنی میں بحران بیماری کی شدت کی حالت ہے؛بیماری کی شدت یا زور بیمار اور بیماری دونوں کے خاتمے کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے،اور اس کے برعکس بھی۔

کوئی شخص بیماری کی شدت کی تاب نہ لاکر جان سے گزر بھی سکتا ہے ،اوریہی بیماری ایک بحرانی صورت اختیار کرکے اس کے لیے رحمت بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ یعنی وہ اس بیماری کے خلاف لڑتے ہوئے ،اپنی بہترین صلاحیتیں دریافت کرسکتا ہے یا کمزور صلاحیتوں کو نشوونما دے کر انھیں نئے چیلنج کا سامنا کرنے کے قابل بنا سکتا ہے۔

لہٰذابحران ایک نہایت نازک اور فیصلہ کن لمحہ ہوتا ہے ؛اسے جو چیز نازک بناتی ہے ،وہ ایک ایسی بدتر حالت ہے ،جو دراصل کسی نہایت اہم شے کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ اور جو بات اسے فیصلہ کن بناتی ہے ،وہ اس کے ضمن میں ہماراردّعمل ہوتا ہے۔ یہ ردّعمل فیصلہ کرتا ہے کہ بحران کی زد پر آیا ہوا شخص، سماج،سیاست ، معیشت،یا کوئی شعبہ ءعلم بدترین حالت کے نتیجے میں انجام کو پہنچے گا، یا بہتری کی طرف اس کا سفر شروع ہوگا۔

اس اعتبار سے بحران نئے امکانات کو سوچنے اور بروے کار لانے کا ذریعہ بھی ہو سکتا ہے ۔ بحران ہمیں یہ حقیقت باور کرانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے کہ کسی شے کے سلسلے میں اب تک روا رکھا جانے والا ہمارا طرزِ عمل یکسر غلط اور بے جا تھا،اور ہمیں فی الفور کسی متبادل کی تلاش کرنی چاہیے۔

معاصر اردو تحقیق(جو پاکستان کی جامعات کے اردو شعبوں میں ہورہی ہے اور جو کتابوں کی صورت یا انھی شعبوں کے تحقیقی جرائد میں شایع ہورہی ہے) بحران کی اس حالت میں مبتلا ہے جو حقیقتاً ایک بدتر حالت ہے۔ یہ اس مفہوم میں ’بدتر حالت‘ ہے کہ اس میں تحقیق کو علم کی تخلیق کا ذریعہ بنانے جیسی نہایت اہم شے کا فقدان ہے۔ نیز اس بحران کونہ تو پوری طرح محسوس کرنے اورسمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے اور نہ اس کے سلسلے میں اپنے طرزِ عمل کی تبدیلی کا سوچا جارہا ہے۔اس سے یہ بحران شدید ہوگیا ہے۔

اردو تحقیق کا یہ بحران ایک حد تک عالمی جہت ضرور رکھتا ہے، مگر بڑی حد تک اس کی نوعیت ’مقامی‘ ہے ،اور اس کا خاص تاریخی پس منظر ہے۔ پاؤل جے نے اپنی تازہ کتاب دی ہیومینٹیز کرائسز اینڈ فیوچر لٹریری سٹڈیز میں اس بحران کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔

پاؤل جے کا موقف یہ ہے کہ ہیومینٹیز کے شعبوں میں بحران کا آغاز اس وقت ہوگیا تھا جب یونیورسٹیوں کو کاروباری ادارے سمجھا جانے لگا تھا۔ لہٰذا یہ بحران ہمیں بیسویں صدی کے اوائل ہی میں نظر آنے لگا،جس کے نتیجے میں انسانی علوم کو سائنسی علوم کے مقابلے میں غیر افادی سمجھا جانے لگا۔ اگرچہ سرد جنگ میں انسانی علوم کی افادیت کو محسوس کیا گیا ،اور ثقافتی و نظریاتی آویزش میں ان میں سرمایہ کاری کی گئی۔ پاﺅل جے کے مطابق اس وقت انسانیات کا بحران ،دانش ورانہ نہیں، میزانیاتی ہے۔

عالمی سطح پر انسانیات کے شعبوں میں ایک دوسرے بحران کا ذکر ٹیری ایگلٹن نے کیا ہے۔ ان کے اپنے الفاظ کچھ یوں ہیں؛

On the wilder shores of academia, an interst in French philosophy has given way to a fascination with French kisssing. In some cultural circles , the politics of masturbation exert far more fascination than the politics of Middle East.
اس اقتباس میں کچھ ایسی نازک باتیں،جراءت مندی سے کہی گئی ہیں کہ ان کا ترجمہ کرنے سے ،ان باتوں کی نزاکت تحلیل ہو سکتی ہے۔

تاہم ٹیری ایگلٹن کی اس بات پر ضرور زور دیے جانے کی ضرورت ہے کہ اکیسویں صدی میںمغربی جامعاتی تحقیق (جسے وہاں کے طلبا وطالبات انجام دیتے ہیں)فلسفیانہ کے بجائے ،سیاسی اور ثقافتی ہوگئی ہے ، اوراس کی سیاسی وثقافتی جہت بھی جنس تک محدود ہوگئی ہے ۔ ہماری رائے میں محض موضوع سے بحران پیدا نہیں ہوتا؛بحران پیدا ہوتا ہے ،تحقیق کے طریقے سے اور تحقیق کے مقصود سے۔ جنس کی سیاست بھی گہرے معانی اور غیر معمولی مضمرات کی حامل ہوسکتی ہے ، اگر اس پر تحقیق کا مقصود علم کی تخلیق ہو۔

اور اس کے لیے تحقیق کاوہی سائنسی طریقہ اختیار کیا جائے،جو دیگر ’بڑے ،عالمی نوعیت کے موضوعات کے سلسلے میں اختیار کیا جاتاہے۔ کیا ہم جنس پرستانہ تحریکیں محض شخصی ہیں،اور ان کے سماجی وسیاسی واخلاقی، ریاستی آئینی مضمرات،اور یہاں تک کہ ان کے معاشی مضمرات نہیں ہیں؟ اسی طرح فرد کی جنسی آزادی کابیانیہ ،کیا کارپوریٹ سرمایہ داریت سے لاتعلق رہ سکتا ہے ؟ جنسی گھٹن کا شکار فردکیا ایک ایک کثیر القومی کمپنی کے لیے مفید ہوسکتا ہے؟

پھر بے تحاشہ جنسی ادویہ ،کیا جنسی آزادی ،جنس سے وابستہ طاقت، کثیر و متفرق جنسی تعلقات ،اور جنس کو زندگی کی اہم ترین ضرورت سمجھے جانے کا پورا ڈسکورس قائم کیے بغیر فروخت کی جاسکتی ہیں؟ جنس کی معاشی سرگرمی ،کیا جنس سے متعلق کسی بھی بیانیے یا ڈسکورس کے بغیر ممکن ہے؟یہ سوال ہمیں معیشت اور علم کے اس رشتے کی ایک جھلک دکھاتاہے،جسے کلاسیکی و نو مارکسیت میں یکساں اہمیت ملی ہے۔

بایں ہمہ جب ایک طرف وسط ایشیا کی سیاست ہو، یا ہمارے زمانے کی شدت پسندی ہوجس سے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں موت، افلاس، بیماری کی زد پر مسلسل ہوں تو اس وقت ان موضوعات کو’ اشد ضروری‘ سمجھا جانا از حد ضروری ہوتا ہے،اس لیے ان کے مقابلے میں جنس کی سیاست کم اہم ضرور ہوجائے گی ۔ لیکن ایک اہم ترین مسئلے کے پیش نظر بہ ظاہر کم اہم نظر آنے والے موضوعات یکسر نظرا نداز نہیں ہونے چاہییں۔اگر تحقیق کا مقصود انسانی فلاح ہے تو فلاح کا ہمہ گیرتصور مسلسل پیش نظر رہنا چاہیے ،اور تمام چھوٹے بڑے مسائل کو اہمیت ملتی رہنی چاہیے۔

بہ ہر کیف ،ٹیری ایگلٹن نے ثقافتی مطالعات میں جس بحران نما صورتِ حال کا ذکر کیا ہے ،اس کا تعلق اردو تحقیق کے بحران سے بس اتنا ہے کہ آخرالذکر اپنی ہی طرز کے بحران میں مبتلا ہے۔ اردو تحقیق کو عالمی سیاست تو کجا ،جنسی سیاست سے بھی کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ تھوڑا بہت صنفی سیاست کا ذکر اردو تحقیق میں ضرور ہواہے،مگر وہ یکسر سٹیریو ٹائپ انداز میں۔حالاں کہ تحقیق کا کام ہر طرح کے سٹیریو ٹائپ کو معرض سوال میں لانا ہے۔

اردو تحقیق کا بحرا ن کثیر الجہت ہے:یہ بہ یک وقت دانش ورانہ ہے اورعلمیاتی ہے یعنی مخصوص علمیات کی پابندی کا پیدا کردہ ہے ۔نیز یہ بحران جامعات کی اس روایت پرستی میں جڑیں رکھتا ہے،جس کی تشکیل نو آبادیاتی عہدمیں ہوئی۔ جب جامعات قائم ہوئیں(جو بنیادی طور پر تدریسی اور امتحان منعقد کرنے والے اداروں کے طور پر قائم ہوئیں؛علم کی تخلیق یعنی تحقیق ان جامعات کا اوّلین مقصد نہیں تھا)اور جب نو آبادکاراور مستشرقین ہمارے ماضی کو مسخ کررہے تھے ۔

تب روایت پرستی کا مطلب ،اپنی روایت کا تحفظ تھا۔ ہم سب کو خود سے یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کی اپنی روایت کے تحفظ کے لیے کتنی نسلوں کا خون پسینہ درکارہے؟ ہمیں خود سے یہ سوال بھی کرنا چاہیے کہ روایت کے تحفظ کا تعلق کس حد تک خوف سے ہے،کیوں کہ ایک خوف زدہ آدمی ہی کو تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے؟

نیز روایت اگر پتھر کی طرح نہیں ہے ،ایک ذہنی ، تصوری ،قدری ،یا ایک متن ہے تو کیااس روایت کی حفاظت ممکن ہے۔ اگراسے مسلسل معرض سوال میں لایا نہ جائے اور اس کی مسلسل نئی تعبیر نہ کی جائے؟اس وقت اردو تحقیق جس علمیات کی پابندی کرتی ہے۔ اس میں روایت ایک وحدانی چیز ہےاورہر وحدانی تصور نئی تعبیر کے خلاف ہوتا ہے کیوں کہ وہ خطرہ محسوس کرتا ہے کہ نئی تعبیر اس کے وحدانی ہونے کو چیلنج کرسکتی ہے۔ لہٰذہ اہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو تحقیق کے بحران کا ایک باعث یہ علمیات بھی ہے۔

ہائر ایجو کیشن کمیشن کے قیام کے بعد جا معات میں اردوتحقیق زور شور سے جاری ہے؛ پاکستان میں دس سے زائد تحقیقی جرائد ششماہی یا سالانہ شایع ہوتے ہیں۔ جس میں سے اکثر کو اب وائے کیٹیگری میں شامل کر لیا گیا ہے۔ ان میں ہر سال پانچ سو کے لگ بھگ تحقیقی مقالات شایع ہوتے ہیں؛ہر سال تین سو کے قریب کے ایم فل اور پی ۔ایچ ڈی کے مقالات پرڈگریاں دی جاتی ہیں ،جن میں سے چند ایک شایع بھی ہوتے ہیں۔

مجھے یہاں صحیح تعدا د کی جگہ اندازے سے اس لیے کام لینا پڑرہا ہے کہ ہماری جامعات کے اردو شعبوں میں اپنی رفتارتحقیق کی اطلاعات کے تبادلے کا کوئی نظام ہی موجود نہیں۔ چنانچہ یہ معلوم ہی نہیں ہوپاتا کہ کس شعبے میں کن موضوعات پر تحقیق ہورہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی موضوع پر ایک سے زائد جامعات میں مقالات لکھے جارہے ہوتے ہیں۔

دوسری طرف جب سے محکمہ تعلیم پنجاب نے کالج اساتذہ کے اگلے گریڈ میں ترقی کے لیے ایچ ای سی کے منظور شدہ جرائد میں مقالات کی شرط عائد کی ہے، کالج اساتذہ دھڑادھڑ مضامین لکھ رہے ہیں۔ انھیں تحقیقی مضمون کہنے کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے۔وہ بی ایس کے طلبا کی اسائنمنٹ سے مختلف نہیں۔ان پر اگر تحقیق کی تہمت رکھی جاسکتی ہے تو محض اس لیے کہ ان کے آخر میں اسناد محولہ درج ہوتی ہیں۔

اردو میں اس امر کے جانچنے کا کوئی پیمانہ وضع نہیںکیا جاسکا کہ کسی مصنف نے بنیادی و اصل مآ خذ سے رجوع کیا ہے یا نہیں۔بہ کیف اردو کے تحقیقی رسائل دیکھیں تو ان میں مضامین کی کثرت ملے گی۔ تحقیق کی یہ کثرت ، معاشی اصطلاح میں ’بوم‘ کہی جاسکتی ہے،جس کے مطابق کسی شے کی پیداوار کثرت سے اور تیزی سے ہوتی ہے۔ مگر دوسری طرف یہ اس زائد پیداوار کی مانند ہے جو اپنی کھپت نہ ہو سکنے کی بناپر بحران کا شکار ہوجاتی ہے۔اردو تحقیق کے بحران کا ایک رخ اس کی زائد پیداوار کی کھپت نہ ہونے کا بحران بھی ہے،اس فرق کے ساتھ کہ یہاں کھپت کا تصور معاشی کم سماجی و ذہنی زیادہ ہے۔

واضح رہے کہ اردوسمیت باقی شعبوں میںتحقیق کرنے والوں کو کچھ نہ کچھ معاشی فائدہ ضرور ہوتا ہے ۔ کسی کو براہ راست ،کسی کو بالواسطہ۔زیادہ ترکو یہ فائدہ اگلے گریڈ میں ترقی کی صورت میں ملتا ہے۔خالص معاشی نقطہ ءنظر سے یہ فائدہ نہیں نقصان ہے۔

ایک اس لیے کہ یہ فائدہ محض ایک شخص تک محدود رہتا ہے،اور شاید ہی کوئی ایسا محقق ہو جو اپنی تحقیق سے ملنے والے معاشی فائدے اور آسودگی کو مزید اعلیٰ درجے کی تحقیق کی بنیاد بنائے؛اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ جامعات کے اساتذہ کی ساری بھاگ دوڑ کا مقصد اعلیٰ انتظامی عہدے کا حصول بن جائے ۔

دوم یہ تحقیق روپیہ کماتی نہیں، الٹا خرچ کرواتی ہے اگرچہ یہ رقم بہت معمولی ہے۔ گویا اس تحقیق سے پیسہ گردش میں نہیں آتا،بلکہ ایک جگہ آکر رک جاتا ہے۔سرمائے کی افزائش،اس کے زیر گردش رہنے ہی سے ہوتی ہے۔ خیر،اس صورت کو ہم اس لیے قابل قبول سمجھ سکتے ہیں کہ ریاست ایک کاروباری ادارہ نہیں ہوتی؛اسے کچھ سماجی شعبوں پر صرف خرچ کرنا ہوتا ہے، براہ راست رقوم مہیا کرنے کی صورت میں ،یا سبسڈی کی صورت۔

سماجی تحقیق شاید ہی کبھی خالص معاشی اصطلاح میں منافع بخش بن سکے،جس طرح سائنسی تحقیق بنتی ہے،جس کے نتیجے میں نئی ایجادات ہوتی ہیں۔ لیکن کیا سماجی اور انسانی علوم (جس میں ادب میں شامل ہے )کی تحقیق کے سماجی وذہنی سرگرمیوں سے بھی علیحٰدہونے کا کوئی جواز پیش کیا جاسکتا ہے؟ مجموعی طور پرپاکستانی جامعاتی اردو تحقیق،ایک طرف سماجی بیگانگیت میں مبتلا ہے،تو دوسری طرف یہ ادب کی تاریخ و جمالیات سے متعلق ہمارے علم میں حقیقی اضافہ شاذ ہی کرتی ہے۔

یہ تحقیق اسی کی باز گردانی (ری سائیکل) کرتی ہے،جو پہلے سامنے آچکا ہے ۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اردو تحقیق کا سب سے مرغوب موضوع ’احوال و آثار ‘ہے۔جب سے باقاعدہ (ریگولر)پی ایچ ۔ڈی پروگرام، سرکاری ونجی جامعات میں شروع ہوئے ہیں۔ موضوعات کی تلاش میں کم وبیش وہی صورتِ حال پید اہوئی ہے ،جو قحط کی حالت میں بھوکے لوگوں کی ہوتی ہے۔

روٹی کے ایک ٹکڑے کے کئی امیدوار ہوتے ہیں؛ایک موضوع کے کئی امیدوار بنتے ہیں۔ ادھر ایک بزرگ کے انتقال کی خبر آئی ،ادھر اس پر کئی جامعات میں پی ایچ۔ڈی کے خاکے ہنگامی بنیا دوں پر تیار ہونے لگے۔ مرحوم کو کفن پہنانے سے پہلے،امیدوار لواحقین سے اجازت طلب کرنے،اور ان سے مواد کی فراہمی کا وعدہ لینے سے نہیں شرماتے! ادھر کچھ عرصے سے زندہ لوگوں پر بعض جامعات میںپی ایچ۔ڈی کا آغاز ہواہے تو مذکورہ المناک صورتِ حال میں کچھ کمی ہوئی ہے۔

اصولاً احوال و آثار پر تحقیق میں حرج نہیں،لیکن شخصیت تو بڑی ہونی چاہیے۔ یہ سوال اٹھائیں تو جواب ملتا ہے کہ بڑی شخصیت کہاں سے لائیں؟بات ٹھیک ہے ،لیکن بھئی بڑی شخصیتیں اگر موجود نہیں تو اور کتنے ہی موضوعات ہوسکتے ہیں،اگر موضوعِ تحقیق کے انتخاب سے متعلق روایتی تصور سے ہٹ کر سوچنے کی جراءت کر لی جائے ۔

روایتی تصور یہ ہے کہ بس ماضی کے کسی متن ،کسی صنف ،کسی تحریک، یا رجحان پر مقالہ لکھا جائے۔خیر، اس روایتی تصور کو بھی اس حد تک قبول کیا جاسکتا ہے اگرماضی کے کسی متن پر مقالہ ،ماضی سے متعلق ہمارے علم میں حقیقی اضافہ کرے اور اسے معاصر علمی محاورے میں پیش کرے۔

تحقیق کے روایتی تصور سے ہٹ کر سوچنے کا مطلب ایک طرف معاصر ادب کے بارے میں سوچنا ہے ،اور دوسری طرف ادب اور دیگر علوم کے تعلق پر غور کرنا ہے۔ مجموعی طور پر اردو تحقیق کی بلا سے کہ ارد گرد کی حقیقی دنیا میں کیاہورہا ہے، زمانہ کس قیامت کی چال چل رہا ہے یا چل چکا ہے۔

کلاسیکیت کی جگہ ،جدیدیت آئی، جدیدیت کو مابعد جدیدیت نے پچھاڑا، دنیا میں کبیری بیانیوں کے تصور پر سوالیہ نشان لگا، پہلی اور دوسری دنیا کے مابین سرد جنگ کا خاتمہ ہوا، نیا عالمی نظام( ورلڈ آرڈر) آیا،نئی نو آبادیات نے نئی صورت اختیار کی۔ گیارہ ستمبر (نائن الیون) ہوا، طالبانیت شروع ہوئی اور اس کے خلاف ردّعمل سامنے آیا؛عالمگیریت (گلوبالائزیشن )نے زبانوں، ادب ، سماج ، معیشت کو بد ل کر رکھ دیا؛ ذرائع ابلاغ کی نئی نئی ٹیکنالوجیز نے روزمرہ سماجی رابطوں، رشتوں ، زمان ومکاں کے تصوراور تجربے دونوں کو تبدیل کردیا۔

اردو تحقیق کو ان سب سے کوئی غرض نہیں۔یہ اس روایتی تعلیمی خول میں بند ہے جہاں کے زمین و آسماں ہی اور ہیں،جن سے صرف ان شعبوں سے وابستہ مٹھی بھر لوگ ہی واقف ہوتے ہیں۔ ایک حد تک ہر شعبہ ءعلم اپنے خول میں بند ہوتا ہے،یعنی اس کے مخصوص موضوعات، مخصوص جارگن ،مخصوص مسائل ہوتے ہیں،لیکن اگر یہ خول آہنی بن جائے تو اسے بحران کے سواکیا نام دیا جاسکتا ہے؟

علوم میں ماہرین کا موجود ہونا اچھی بات ہے ،لیکن اگر یہ ماہرین دیگر انسانوں اور باقی دنیا سے لاتعلق ہوجائیں تو ان علوم کی موت یقینی ہوتی ہے!تمام علوم اس وقت زندہ وباقی رہتے ہیں ،جب وہ تمام انسانیت کی مشترکہ میراث بننے کی کوشش جاری رکھتے ہیں۔ معاصر صورتِ حال سے بیگانگی، اردو تحقیق کے بحران کا اہم ترین پہلو سمجھا جانا چاہیے۔اردو تحقیق کے رائج پیراڈائم میں ’ماضی کی بازیافت ‘ کا تصور اس طور اترا ہوا ہے ،جس طرح گوشت میں ناخن۔

اردو میں محقق کا باقاعدہ اطلاق ہی اس شخص پر ہوتا ہے جو قدیم ،عہد وسطیٰ اور کلاسیکی زمانوں کے متون پر کام کرتا ہو۔ماضی بلاشبہ اہم ہے ، مگر جس زمانے میں ہم جی رہے ہیں،اور جو ہر لمحہ ہم پر براہِ راست اثرانداز ہورہا ہے، وہ اہم ترین ہے ۔ اوّل تو معاصر عہد کو موضوع تحقیق بنایا نہیں جاتا ،اور اگراس کی جرات کر بھی لی جائے تو محض معلومات جمع کردی جاتی ہیں۔ایک ادب پارہ ،کس طرح معاصر دنیا کی الجھنوں ،پیچیدگیوں ،سوالوں سے معاملہ کرتا ہے۔

اور کس طرح معاصر دنیا سے متعلق ہمیں نئی بصیرت دیتاہے، یا اس میں ناکام ہوتا ہے اسے موضوع نہیں بنایاجاتا۔ اس کی دووجوہ نظر آتی ہیں ۔ایک یہ کہ تحقیق کو علم کی تخلیق نہیں سمجھا جاتا؛ دوم، اردو تحقیق اس بین العلومی طریق کار کو اختیار نہیں کرتی ،یعنی سماجی علوم کی بصیرتوں کو کام میں نہیں لاتی، جن کے بغیر آپ ادب کی کثیر الجہات دنیا کو سامنے نہیں لاسکتے۔

اگرا دب کا تعلق زندگی سے ہے ،اور زندگی کے مفہوم میں وہ سب کچھ شامل ہے جس کا ہم تجربہ کرتے ہیں،جس سے ہم رشتہ استوار کرتے ہیں،جسے بھگت رہے ہوتے ہیں،اور جو مسلسل ہمارے خارجی و داخلی منطقوں پر اثرانداز ہورہی ہوتی ہے تو اس ادب پر تحقیق بھی زندگی سے مربوط نظر آنی چاہیے۔


nasir

ناصر عباس نیراُردو کے ممتاز نقاد ہیں جنہوں نے تنقیدی تھیوری اور مابعد نوآبادیات پر کئی کتابیں شائع کی ہیں۔ خاص طور پر اُردو ادب کے نوآبادیاتی مطالعہ پر اُنہوں نے بنیاد گزار کام کیا ہے۔ اور پنجاب یونیورسٹی اوریئنٹل کالج کے اُستاد ہیں۔ان کی کتابوں کو آکسفورڈ پریس نے شائع کیا ہے۔اُنہوں نے ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی سے نوآبادیاتی عہد کے اُردو نصابات پر پوسٹ ڈاکٹورل تحقیق کی ہے۔ اُنہوں نے یہ تحریر خصوصی طور پر تعلیمی زاویہ کے لیے لکھی ہے۔
  1. موضوع کا مکمل احاطہ کرتی اور المناک صورتحال کو اجاگر کرتی ایک چشم کشا تحریر

  2. اس معاملے میں چندایک جرائم کی نشان دہی…
    ریسرچ آرٹیکل کاباقاعدہ ریویوکرانے کی بجائے مختلف پی ایچ ڈی اساتذہ سے خالی فارموں پردست خط کرالینا
    مقالات میں روایت ابتدائی تعارف اورکئی دوسرے ابواب لفظی تبدیلی کے ساتھ نقل کرلینا
    سکالرزکے طویل مضامین اورکتب کے خلاصے کواپنے مضمون کے نام سے شائع کرادینا
    اپنے طلباکی تحریروں میں حوالے لگاکراپنے نام سے شائع کرادینا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *