فیشن ڈیزائننگ میں سادگی کا ٹانکا

  • March 31, 2021 1:33 pm PST
taleemizavia single page

عاصم قریشی

مولانا طارق جمیل علما کے طبقہ میں سب سے زیادہ مشہور عوامی شخصیت ہیں جو تبلیغ کے مشن سے وابستہ ہوئے پھر اپنے مدارس قائم کئے اور عوام الناس میں دینی دعوت کے فروغ میں مصروفِ عمل رہے۔ انہوں نے اپنا طرزِ تکلم اتنا منفرد بنایا اور ایسے دلچسپ عنوانات کو اپنا موضوع بنایا جو نوجوانوں کے من پسند تھے لہٰذا بہت جلد ہی عوام میں مقبولیت حاصل کر گئے۔

مقبولیت کے اسی عرصہ میں مولانا نے تبلیغ کے مروجہ عوامی طریقہ کار سے ہٹ کر خواص میں تبلیغ کا راستہ اپنایا جس کی بہت پذیرائی ہوئی۔ اس دوران فلم، میوزک اور کھیل وغیرہ سے وابستہ کئی افراد نے ان کی دعوت کے زیرِ اثر مذہبی وابستگی کا اظہار کیا۔

مولانا کی دعوت کا اگلا ہدف اہلِ اقتدار اور سیاستدان تھے۔ چنانچہ مقتدرہ کے محلات میں ان کی موجودگی، خوشی و غمی کی محفلوں میں ان کی آمد اور عوامی فورمز پر ان کے ساتھ اجتماعات میں شرکت کا سلسلہ جاری ہوا۔ ابھی میڈیا میں اس کی گرد بیٹھنے ہی لگی تھی کہ خبر آئی کہ مولانا عوام الناس میں ’سادگی ‘ کو فروغ دینے کے لئے فیشن ڈیزائننگ کا کاروبار شروع کرنے لگے ہیں۔

ویسے تو یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ علما کا طبقہ دین کو ذریعہ معاش بنانے کی بجائے کاروبار سے وابستہ ہونے لگا ہے تاکہ خودانحصاری پیدا ہو۔ یاد رہے کہ مولانا ایک متمول زمیندار گھرانہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کئی مربعوں کے مالک ہیں۔ مولانا کے ایک قریبی عالم نے مجھے خود بتایا کہ مولانا ماہانہ لاکھوں روپے ضرورت مندوں کی کفالت پر خرچ کرتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب اتنی زیادہ آمدنی ہے تو اس میں سے خرچ ہو رہا ہے۔

مولانا کے خطبات و بیانات کی خاص بات عوام کو دنیا کی بے ثباتی و بے وقعتی کا احساس دلا کر ان میں آخرت کی تیاری کا احساس پیدا کرنارہا ہے۔ اسی بنیاد پر مولانا کے خطبات میں عوام کو سادگی اور قناعت کا درس دیا جاتا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر وقتاً فوقتاً شائع ہونے والی مختلف تصاویر میں مولانا کو پُرتعیش بڑی بڑی گاڑیوں میں دیکھ کر لوگ ہمیشہ ورطۂ حیرت میں مبتلا رہے ہیں۔ کچھ دن قبل ملک کے ممتاز صنعتی گروپ کے گھرانہ کی شادی میں اربوں روپے کے اخراجات کا چرچا میڈیا پر چھایا رہا۔ اس موقع پر لی گئی تصاویر میں بھی مولانا کو تقریب میں دیکھ کر لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔

حیرت ویأس کی اسی کشمکش میں اس نئی خبر نے مزید اضافہ کر دیا جس کے مطابق مولانا فیشن ڈیزائننگ کی تجارت میں قدم رنجاں فرمایا چاہتے ہیں۔ یقیناً مولانا کے وسیع تبلیغی اور علمی خدمات کے پسِ منظر کی بنیاد پر یہ تو کامل یقین ہے کہ بے دین اور فحاشی پر مبنی فیشن ڈیزائننگ سے قطع نظر، مولانا کا برانڈ سادگی پر مبنی خالص اسلامی فیشن کو متعارف کروانے کا ذریعہ بنے گا۔

جس طرح کہ اس سے قبل اسلامی کُرتے، اسلامی ٹوپیاں، اسلامی پرفیوم اور اسلامی میک اپ کو مولانا کے ایک دیرینہ مرحوم دوست نے مشہور کیا تھا۔ یاد رہے کہ مشہور زمانہ برانڈ کا آغاز صرف مردانہ کپڑوں سے ہوا تھا جو بعد ازاں عورتوں کے فیشن ڈیزائن اور میک تک پھیل گیا۔

غورطلب بات یہ ہے کہ کاروبار کے لئے سینکڑوں مواقع میں سے صرف فیشن ڈیزائننگ کو اپنانے کا فیصلہ کس بنیاد پر کیا گیا ہے؟ یہ وہ کاروبار ہے جو اپنے صارفین کو بنیادی تقاضے کے تحت نہیں بلکہ اشتہارات کے ذریعے مصنوعی ضرورت پیدا کر کے زرق برق لباس مہنگے داموں خریداری پر ابھارتا ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ معیشت میں کنزیومر مارکیٹ کے پھیلاؤ کو بنیادی مقام حاصل ہے۔

مبلغینِ اسلام بھی اگر ایک طرف خود عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کے ایک کل پُرزے کے طور پر کردار ادا کرتے ہوئے نظر آئیں اور دوسری طرف رفاہی ادارے بنا کر عوام کی فلاح و بہبود کا کام بھی کریں تو بھلا بتائیے کہ حقائق کی دنیا میں اس کو کیا کہا جائے۔ مولانا کی فیشن ڈیزائننگ کے کاروبار کی خبر کو سن کر تحقیق کی غرض سے جب میں نے انٹرنیٹ کا سہارا لیا تو تبلیغی مقاصد کے تحت بنائے گئے مولانا کے دو یوٹیوب چینل سامنے آئے۔

کچھ عرصہ قبل جب میں ان میں سے ایک چینل کو دیکھ رہا تھا تو اچانک کسی کمپنی کا اشتہار چلنے لگا تو معلوم ہوا کہ تبلیغ کے بابرکت کام کے ساتھ ساتھ پاک آمدنی کاحصول بھی ممکن ہے۔ بہرحال آج یہ بھی انکشاف ہوا کہ مولانا 2019 سے ایک عصری تعلیم کا ادارہ یعنی سکول سسٹم بھی چلا رہے ہیں۔ اور حالیہ دنوں میں عوام کی فلاح و بہبود اور ضرورت مندوں کی کفالت کے لئے ایم ٹی جے فاؤنڈیشن بھی چلا رہے ہیں۔

کچھ دیر کے لئے میں سوچنے لگا کہ ملک میں غربت کا باعث بننے والے اس سیاسی نظام اور ان کی مقتدرہ کے ساتھ تو مولانا کے بڑے قریبی تعلقات ہیں بلکہ ان کی کامیابی کے لئے دعائیں بھی کی جاتی ہیں اور دوسری طرف ان کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے غریبوں کی فلاح و بہبود چہ معنیٰ دارد

برصغیر میں مذہبی جذبات کو ابھار کر انفرادی و گروہی مفادات کے حصول کی طویل تاریخ موجود ہے۔ اسلام کے نام پر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قیام سے شروع ہونے والے یہ سلسلہ مختلف اداروں، انجمنوں، کتابوں اور کاروباروں سے ہوتا ہوا اسلامی شہد اور اب اسلامی فیشن تک منتج ہوا چاہتا ہے۔مذہب کو استعمال کرنے کے اس گھناؤنے فعل کو برصغیر کے ایک اہل اللہ نے بروقت چانچ کر کہا تھا کہ اسلام کے نام پر بننے والی جماعتوں کو جب میں بغور دیکھتا ہوں تو مجھے ان کے پیچھے انگریز کھڑا نظر آتا ہے۔

قرآن و حدیث میں مذہب کے مفادپرستانہ استعمال پر شدید نقد کیا گیا ہے۔ حدیث مبارکہ کے مطابق دنیا پر موجود بدترین مخلوق مفاد پرست علما ہیں۔ تاہم علمائے حقہ اور اہل اللہ نے اخلاص کے ساتھ دین کی سربلندی کا علم ہمیشہ سنبھالے رکھا ہے اور ان کے کردار کا نمایاں پہلو بھی یہی ہے کہ وہ سیاستدانوں اور اُمرا کے محلات میں نظر نہیں آتے۔ان کی دعوت کا میدان عوام رہتے ہیں۔ اگر کسی خواص نے دین سیکھنا ہو تو ان اہل اللہ کی قدم بوسی کرتا ہے۔ وہ شہرت سے دور رہتے ہیں۔ یاد رہے کہ دین کا اپنا الگ مزاج اور مذاق ہےجو خوبصورت باتوں سے آگے بڑھ کر کردار پر مبنی ہے۔

ہم اپنی تحریر کا اختتام امام غزالیؒ کی تحریر سے کرتے ہیں جس کا ذکر انہوں نے علم دین سے وابستہ لوگوں کے حالات کو بیان کرتے ہوئے کیا ہے۔ آپؒ نے اپنی مشہور کتاب احیاءالعلوم میں یحیٰ بن معاذ رازیؒ کا قول نقل کیا ہے جو کہ علمائے دنیا کے لئے وہ کہا کرتے تھے: ’’علم والو! تمہارے محل قیصر کی طرح ہوں گے اور مکانات کسرٰ کی طرح اور کپڑے بہت زرق برق والے اور موزے جالوت کے طرح کے اور سواریاں قارون کی طرح اور برتن فرعون کی طرح اور گناہ جاہل کی طرح اور مذہب شیطان کے ہوں گے۔‘‘ (جلد اول، کتاب العلم، فصل ششم)

کالم نگار نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ اسلامیات میں لیکچرار تعینات ہیں۔ آپ نے اسلامی فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ مختلف مذہنی و معاشرتی موضوعات پر اپنی ذوقِ تحریر کے ذریعے اپنا نقتہ نظر بیان کرتے رہتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *